دولت میں سب سے آگے، ٹیکس دینے میں پیچھے: امیر ترین امریکیوں کے بارے میں دعویٰ
ایک خبر رساں ویب سائٹ پر ایسی معلومات سامنے آئی ہیں جن میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ امریکی ارب پتی افراد انتہائی کم انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں۔
پروپبلکا نامی اس ویب سائٹ کا کہنا ہے کہ اس نے دنیا کے بعض امیر ترین افراد کے ٹیکس کے گوشوارے دیکھے ہیں جن میں جیف بیزوس، ایلون مسک اور وارن بفیٹ شامل ہیں۔
ویب سائٹ نے الزام لگایا ہے کہ ایمازون کے مالک بیزوس نے سنہ 2007 اور 2011 میں کوئی ٹیکس ادا نہیں کیا تھا جبکہ ٹیسلا کے مالک مسک نے سنہ 2018 میں کوئی ٹیکس نہیں دیا۔
وائٹ ہاؤس کے ایک ترجمان نے اس لیک کو ‘غیر قانونی’ قرار دیا ہے اور ایف بی آئی اور ٹیکس کے محکمے کے حکام اس کی تحقیقات کر رہے ہیں۔
پروپبلکا نے کہا ہے کہ وہ ارب پتی افراد کے ٹیکسوں کے متعلق ‘انٹرنل ریونیو سروس ڈیٹا’ کا تجزیہ کر رہے تھے اور وہ آئندہ ہفتوں میں اس ضمن میں مزید تفصیلات جاری کریں گے۔
اگرچہ بی بی سی ان دعوؤں کی تصدیق نہیں کرسکا ہے تاہم یہ مبینہ لیک اس وقت سامنے آئی ہے جب دولت مندوں کی طرف سے ٹیکس کی ادائیگی اور بڑھتی ہوئے عدم مساوات کے بارے میں ایک بحث طول پکڑ رہی ہے۔
پروپبلکا نے کہا ہے کہ امریکہ کے 25 امیر ترین افراد کم ٹیکس ادا کرتے ہیں جو کہ مجموعی آمدنی کا اوسطاً 15.8 فیصد ہوتا ہے، اور یہ مرکزی دھارے کے زیادہ تر امریکی ملازمین کے ٹیکس سے کم ہے۔
پروپبلکا کے سینیئر رپورٹر اور ایڈیٹر جیسی آئسنجر نے ٹوڈے پروگرام سے بات کرتے ہوئے کہا: ‘ہمیں یہ جان کر حیرت ہوئی کہ اگر آپ ایک ارب پتی ہیں تو آپ [ٹیکس] کو نیچے یہاں تک کہ صفر تک لا سکتے ہیں۔ دراصل صفر ٹیکس کی ادائیگی نے واقعتاً ہمیں زمین بوس کردیا کہ انتہائی دولت مند لوگ مکمل طور پر قانونی طریقے سے سسٹم کو نظر انداز کرسکتے ہیں۔’
انھوں نے کہا: ‘ان میں ٹیکس چھوٹ کو تلاش کرنے، قرض حاصل کرنے اور سسٹم میں موجود نقائص کا استحصال کرنے کی بے پناہ صلاحیت ہے۔’
لہذا کمپنی میں حصص کی ملکیت کے ذریعے ان کی دولت میں زبردست اضافہ ہوتا رہتا ہے لیکن اسے ان کی آمدنی کے طور پر درج نہیں کیا جاتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔ ‘وہ ٹیکسوں میں جارحانہ طور پر چھوٹ حاصل کرتے ہیں، اکثر اس وجہ سے کہ انھوں نے اپنے طرز زندگی کو قائم رکھنے کے لیے بہت رقم ادھار لے رکھی ہے۔’
انھوں نے کہا کہ امریکی ارب پتی اثاثے خریدتے ہیں، اپنی قسمت خود بناتے ہیں یا خوش قسمتی سے انھیں دولت وراثت میں ملتی ہے اور پھر وہ ان کی بنیاد پر قرض لیتے ہیں۔
چونکہ وہ کوئی منافع نہیں دکھاتے یا اپنا شیئر یعنی سٹاک نہیں بیچتے اس لیے انھیں کوئی آمدن نہیں ہوتی جس پر کہ ٹیکس واجب الادا ہو۔
انھوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا: ‘پھر وہ نسبتاً کم شرح سود پر کسی بینک سے قرض لیتے ہیں، اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور سود کے اخراجات کو اپنی آمدنی میں چھوٹ کے طور پر استعمال کرسکتے ہیں۔’
بائیڈن کے منصوبے
ویب سائٹ پر کہا گیا ہے کہ ‘قانونی طور پر ٹیکس کی حکمت عملیوں کا استعمال کرتے ہوئے بہت سارے امیر لوگ اپنے وفاقی ٹیکس بلوں کو کم کر کے صفر تک یا اس کے قریب پہنچا دیتے ہیں’ حالانکہ ان کی دولت میں پچھلے کچھ برسوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔
متعدد عام شہریوں کی طرح دولت مند بھی اپنی ایسی آمدنی کو جس پر ٹیکس واجب الادا ہوتا ہے، خیراتی عطیات اور سرمایہ کاری سے ہونے والی آمدنی کے مد میں دکھا کر کم ظاہر کر سکتے ہیں۔
پروپبلکا نے فوربز میگزین کے جمع کردہ اعداد و شمار کا استعمال کرتے ہوئے کہا کہ 25 امیر ترین امریکیوں کی دولت 2014 سے 2018 تک مجموعی طور پر 401 ارب ڈالر تک جا پہنچی ہے لیکن انھوں نے ان برسوں میں انکم ٹیکس میں صرف 13.6 ارب ڈالر ادا کیے۔
صدر جو بائیڈن نے مساوات قائم کرنے اور بڑے پیمانے پر اپنے انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ پروگرام کے لیے رقم اکٹھا کرنے کے مشن کے تحت امیر ترین امریکیوں پر ٹیکس بڑھانے کا عزم کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
وہ ٹیکس کی بلند ترین درجہ بندی کی شرح میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں، وہ امیر لوگوں کی سرمایہ کاری سے ہونے والی آمدنی پر ٹیکس دگنا کرنا چاہتے ہیں اور وراثت کے ٹیکس میں تبدیلی چاہتے ہیں۔
تاہم پروپبلکا کے تجزیے نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ‘بائیڈن انتظامیہ کی موجودہ تجاویز کے تحت کچھ دولت مند امریکیوں جیسا کہ ہیج فنڈز کے منیجروں کو زیادہ ٹیکس ادا کرنا پڑ سکتا ہے لیکن امریکہ کے 25 امیر ترین افراد میں سے زیادہ تر پر اس کا معمولی فرق ہی پڑے گا۔‘
جن ارب پتیوں کا ذکر کیا گیا ہے ان میں جارج سوروس پر بھی الزام ہے کہ انھوں نے برائے نام ہی ٹیکس ادا کیا۔ ان کے دفتر نے بی بی سی کی جانب سے سوالات کے جواب نہیں دیے لیکن انھوں نے پروپبلکا کو دیے گئے ایک بیان میں کہا ہے کہ مسٹر سوروس پر سرمایہ کاری میں ہونے والے نقصانات کی وجہ سے کچھ برسوں میں ٹیکس عائد نہیں ہوتا تھا۔
بیان میں یہ نشاندہی بھی کی گئی کہ وہ ایک طویل عرصے سے امریکہ میں دولت مند افراد پر زیادہ ٹیکس کی حمایت کرتے رہے ہیں۔
‘غیر قانونی’
موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق امریکہ میں نیو یارک کے سابق میئر مائیکل بلومبرگ نے جن کی ٹیکس کی تفصیلات دستاویزات میں شامل ہیں، کہا ہے کہ ان انکشافات سے پرائیوسی سے متعلق خدشات بڑھ گئے ہیں اور وہ اس لیک کے ذرائع جاننے کے لیے ‘قانونی ذرائع’ استعمال کریں گے۔
پروپبلکا ایک تحقیقاتی ویب سائٹ ہے۔ اس پر اس بابت متعدد مضامین لکھے گئے ہیں کہ کس طرح امریکی انٹرنل ریونیو سروس کے بجٹ میں کٹوتی نے دولت مندوں اور بڑے کارپوریشنوں پر ٹیکس کے قواعد کو نافذ کرنے کی صلاحیت کو متاثر کیا ہے۔ خبررساں ادارے کا کہنا ہے کہ انھیں ان مضامین کے ردعمل میں لیک ہونے والی دستاویزات موصول ہوئی ہیں۔
وائٹ ہاؤس کی پریس سکریٹری جین ساکی نے کہا ہے کہ ‘کسی بھی سرکاری معلومات کو بغیر منظوری کے عام کرنا‘ غیر قانونی ہے۔
محکمہ مالیات کی ترجمان للی ایڈمز نے روئٹرز کو ای میل کیے گئے بیان میں کہا ہے کہ یہ معاملہ ایف بی آئی، وفاقی پراسیکیوٹرز اور محکمہ خزانہ کے دو داخلی نگرانوں کو بھیج دیا گیا ہے اور ‘ان سب کو تفتیش کا آزاد اختیار حاصل ہے۔’
یو ایس انٹرنل ریونیو سروس کمشنر چارلس ریٹیگ نے کہا: ‘میں مخصوص ٹیکس دہندگان کے حوالے سے کسی سے بات نہیں کرسکتا۔ میں اس بات کی تصدیق کرسکتا ہوں کہ اس آرٹیکل میں موجود معلومات کے ذرائع کے حوالے سے تفتیش کی جارہی ہے۔’
Comments are closed.