دولتِ اسلامیہ کے جنگجوؤں کی بیویاں، بچے: ’ایسا المیہ جس کا ہم مقابلہ نہیں کر سکتے‘
- پونم تنیجا
- بی بی سی نیوز
کیمپ میں تقریباً 60 ہزار لوگ ہیں جن میں دولتِ اسلامیہ کے غیر ملکی جنگجوؤں کے ڈھائی ہزار خاندان بھی ہیں
الھول کیمپ ایک بدنظم، مایوس کن اور خطرناک جگہ ہے۔
یہاں دولتِ اسلامیہ کے غیر ملکی جنگجوؤں کے بیویاں اور بچے رہتے ہیں۔ یہ ٹینٹوں کا ایک شہر ہے، جہاں سینکڑوں خاندان مقیم ہیں اور اس کے چاروں طرف پہرہ دیتے ہوئے مسلح گارڈز، واچ ٹاورز اور خار دار تاریں لگی ہوئی ہیں۔
یہ وسیع صحرائی کیمپ المالکیہ سے کار میں چار گھنٹے کی دوری پر القامشلی شہر کے بعد آتا ہے جو شام کے شمال مشرق میں شام اور ترکی کی سرحد کے قریب ہے۔
اس کے اندر خواتین کالا لباس پہنتی ہیں اور چہرے پر نقاب رکھتی ہیں۔ کچھ تو تنہا اور خاموش رہتی ہیں لیکن کئی ایک کا رویہ ظاہری طور پر معاندانہ ہوتا ہے۔
ایک چھوٹی سبزی منڈی کے قریب ایک کونے میں کچھ خواتین دھوپ سے بچ کر گپ شپ لگا رہی تھیں جو ہم سے بات کرنے کے لیے بھی تیار ہو گئیں۔ ان کا تعلق مشرقی یورپ سے ہے۔
میں نے ان سے پوچھا کہ وہ یہاں کیسے پہنچیں لیکن انھوں نے کچھ زیادہ نہیں بتایا۔ وہ بس دولتِ اسلامیہ میں شمولیت کے لیے ہزاروں میل کا سفر کرنے اور ایک ایسی حکومت کے تحت رہنے کے فیصلے کے لیے اپنے شوہروں کو ہی ذمہ دار ٹھہراتی رہیں، جنھوں نے ہزاروں افراد پر تشدد کیا، قتل کیا اور غلام بنایا۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کا واحد جرم غلط آدمی کے پیار میں مبتلا ہونا تھا۔
یہ دولتِ اسلامیہ کے عسکریت پسندوں کی بیویوں کی ایک جیسی کہانی ہے کیونکہ وہ اپنے آپ کو ایک ایسی حکومت سے الگ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں جسے اپنی بربریت اور مقاصد کے بارے میں بالکل مبالغہ نہیں تھا۔
ان کے شوہر یا تو مر چکے ہیں، قید میں ہیں یا پھر لاپتہ۔ وہ اب اپنے بچوں کے ساتھ یہاں پھنسی ہوئی ہیں۔
یہاں تقریباً 60 ہزار افراد رہ رہے ہیں جن میں دولتِ اسلامیہ کے غیر ملکی جنگجوؤں کے خاندانوں کے ڈھائی ہزار افراد بھی شامل ہیں۔ ان میں سے اکثر سنہ 2019 میں باغوز میں جہادی گروپ کی شکست کے بعد سے یہاں مقیم ہیں۔
خواتین احتیاط سے بولتی ہیں کیونکہ انھیں ڈر ہے کہ کسی کو اپنی طرف متوجہ کرنا اگر مہلک نہیں تو خطرناک ضرور ہو سکتا ہے۔ وہ سکیورٹی گارڈز کے بارے میں فکر مند نہیں ہیں، وہ خائف ہیں دوسری خواتین سے، وہ سخت گیر خواتین جو اب بھی کیمپ میں دولتِ اسلامیہ کے سخت قوانین نافذ کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔
جب ہم ایک دن صبح سویرے وہاں پہنچے تو ایک خاتون وہاں قتل ہو چکی تھیں۔
روزانہ کا قتل
کردوں کی زیر قیادت سیریئن ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) کے لیے کیمپ میں تشدد اور بنیاد پرستی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ایس ڈی ایف کیمپوں کے انتظام کی ذمہ دار ہے۔
شمال مشرقی شام میں کرد قیادت والی انتظامیہ کے ڈی فیکٹو وزیر خارجہ ڈاکٹر عبدالکریم عمر تسلیم کرتے ہیں کہ الھول میں اب بھی دولتِ اسلامیہ کی حکمرانی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ زیادہ تر تشدد کی ذمہ دار سخت گیر خواتین ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’یہاں روزانہ قتل ہو رہے ہیں، جب لوگ دولتِ اسلامیہ کے نظریے پر عمل نہیں کرتے تو وہ خیمے جلا دیتی ہیں۔ اور وہ بنیاد پرست خیالات کو اپنے بچوں تک پہنچا رہی ہیں۔‘
پوری دنیا سے بچوں کو شام لایا گیا تھا تاکہ دولتِ اسلامیہ کے زیرِ سایہ ان کی پرورش ہو
اور ہر جگہ بچے ہیں، وہ بچے جنھیں ان کے والدین ایشیا، افریقہ اور یورپ سے دولتِ اسلامیہ کے دورِ حکومت کے اندر پرورش پانے کے لیے لائے تھے۔
ان کے پاس کام کرنے کو کچھ نہیں ہے۔
جب ہم کیمپ کے غیر ملکی حصوں سے گزر رہے تھے تو کچھ چھوٹے بچوں نے ہم پر پتھر پھینکنے شروع کر دیے۔ گاڑی کی ایک کھڑکی کا شیشہ ٹوٹ گیا اور گاڑی میں موجود محافظ بمشکل ہی زخمی ہونے سے بچا۔ یہ یہاں ایک معمول کی بات ہے۔
دوسرے بچے مکمل طور پر غیر فعال ہیں، جو اپنے خیموں کے باہر بیٹھے بس اِدھر اُدھر بے مقصد دیکھتے رہتے ہیں۔ ان میں سے اکثر نے ناقابل تصور ہولناک زندگیاں گزاری ہیں، جو اپنے والدین کے ساتھ سفر کرتے رہے کیونکہ دولتِ اسلامیہ اپنی پوری شدت سے عراق اور شام میں اپنے علاقوں کا دفاع کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔
بہت سے بچوں نے تو جنگ کے سوا کچھ نہیں دیکھا اور نہ ہی وہ کبھی سکول گئے ہیں۔
کچھ کے جسموں پر زخموں کے نشانات صاف دکھائی دیتے ہیں۔ میں نے ایک لڑکے کو دیکھا جس کی ایک ٹانگ کٹی ہوئی تھی اور وہ ناہموار اور خاک آلود راستہ پر گامزن تھا۔ سب کو صدمے اور نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے، اور زیادہ تر بچے اپنے والدین میں سے کم از کم ایک سے محروم ہیں۔
’یہاں روزانہ قتل ہوتے ہیں، اگر لوگ دولتِ اسلامیہ کے نظریے پر عمل نہیں کرتے تو وہ ٹینٹ جلا دیتے ہیں‘
کیمپ میں بڑھتے ہوئے تشدد سے نمٹنے کے لیے باقاعدہ سکیورٹی چیک ہوتے رہتے ہیں۔ اور ان کے علاوہ بھی بہت کچھ۔
بڑے لڑکوں کو بھی ممکنہ خطرے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ ایک بار جب وہ بلوغت کی عمر کو پہنچتے ہیں تو انھیں اپنے خاندانوں سے دور حراستی مراکز میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر عمر کہتے ہیں کہ ’جب وہ ایک خاص عمر کو پہنچ جاتے ہیں تو وہ اپنے اور دوسروں کے لیے خطرہ ہوتے ہیں، لہٰذا اس لیے ہمارے پاس ان بچوں کی بحالی کے مراکز بنانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ وہ انٹرنیشنل ریڈ کراس کے ذریعے اپنی ماؤں کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں۔
’وہ ہر روز بڑا ہوتا ہے‘
الھول کے شمال میں روج ہے، جو نسبتاً ایک چھوٹا کیمپ ہے، جس میں دولتِ اسلامیہ کے جنگجوؤں کی بیویاں اور بچے بھی رہتے ہیں۔ یہاں تشدد کم ہوتا ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں شمیمہ بیگم، نیکول جیک اور ان کی بیٹیوں سمیت کئی برطانوی خواتین رہ رہی ہیں۔
کیمپ کو تاروں سے تقسیم کیا گیا ہے۔
میں کیریبیائی جزیرے ٹرینیڈاڈ اور ٹوباگو سے تعلق رکھنے والی خواتین کے ایک گروپ سے ملی، یہ وہ جگہیں ہیں جہاں سے مغربی نصف کرہ میں دولتِ اسلامیہ میں بھرتیوں کی شرح سب سے زیادہ تھی۔
ایک خاتون کا ایک دس برس کا بیٹا ہے۔ وہ اپنے بچوں کو دولتِ اسلامیہ کے تحت رہنے کے لیے لائی تھیں اور جب ان کے شوہر مارے گئے تو وہ اس کے بعد آخر تک وہیں رہیں۔
انھوں نے سنا ہے کہ بڑے لڑکوں کو علیحدہ کیا جا رہا ہے اور وہ اب بہت خوفزدہ ہیں کہ یہ ان کے بچے کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔
وہ جتنا بڑا ہو رہا ہے، اس کی ماں کی پریشانی میں اتنا ہی اضافہ ہو رہا ہے۔ وہ کہتی ہیں ’میں بیٹھی ہوں اور وہ ہر روز بڑا ہو رہا ہے، ہر دن گزرتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ شاید ایک دن وہ آ کر اسے لے جائیں گے۔‘
قریب ہی ان کا بچہ اپنے چھوٹے بھائی اور بہن کے ہمراہ فٹ بال کھیل رہا ہے۔ اس کے والد ایک فضائی حملے میں مارے گئے تھے۔ وہ مجھے بتاتا ہے کہ اگر اسے علیحدہ کر دیا گیا تو وہ اپنی ماں کو بہت یاد کرے گا۔
بڑے لڑکوں کو ایک ممکنہ خطرے کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور انھیں محفوظ مراکز میں منتقل کر دیا جاتا ہے
یہاں صفائی ستھرائی واجبی سی ہے۔ یہاں بیرونی بیت الخلا اور غسل خانے بنائے گئے ہیں اور پینے کا پانی ٹینکوں کے ذریعے ملتا ہے، جس کے متعلق تمام بچے شکایت کرتے ہیں۔
کیمپ میں ایک چھوٹا سا بازار ہے، جہاں کھلونے، کھانا اور کپڑے فروخت کیے جاتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
ہر ماہ ان خاندانوں کو کھانے کے پیکج ملتے ہیں اور بچوں کے لیے کپڑے مہیا کیے جاتے ہیں۔ کچھ مخلوط خاندانی یونٹس میں رہتے ہیں۔ دولتِ اسلامیہ کے دور میں ان میں سے کچھ خواتین کا شوہر بھی ایک ہی ہوتا تھا اور یہ تعلق اب بھی قائم ہے کیونکہ وہ مل کر بچوں کی دیکھ بھال اور گھریلو کام کرتی ہیں۔
تباہی، بمباری اور جنگ
بہت سے بچے ایک عارضی سکول میں پڑھتے ہیں جسے سیو دی چلڈرن چلاتا ہے۔
اس کے سیریا ریسپانس آفس کی سارا راشدن کہتی ہیں کہ ’ہم بہت سی کہانیاں سنتے ہیں اور بدقسمتی سے ان میں سے کوئی بھی کہانی مثبت نہیں ہے، لیکن ہماری ان کے لیے امید ہے کہ وہ اپنے گھر جا سکیں اور ایک عام بچپن گزار سکیں اور صحت مند اور محفوظ رہیں۔‘
’ہم نے رویے میں بہت زیادہ تبدیلی دیکھی ہے۔ ہم نے انھیں تباہی، بمباری اور جنگ کی تصاویر بناتے ہوئے دیکھا ہے۔۔۔ لیکن وہ اب خوشی، پھول اور گھروں جیسی مثبت تصاویر بنا رہے ہیں۔‘
تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ یہ بچے کیسے یہاں سے نکل سکیں گے یا ان کا مستقبل کیا ہے۔
’اگر یہ اسی طرح چلتا رہا تو ہمیں ایک ایسے المیے کا سامنا ہو گا جس سے ہم نمٹ نہیں سکیں گے‘
کچھ مغربی ممالک سمجھتے ہیں کہ دولتِ اسلامیہ کے جنگجوؤں کی بیویاں سکیورٹی کے لیے ایک ممکنہ خطرہ ہیں۔
بہت سی خواتین اس سے انکار کرتی ہیں کہ وہ سکیورٹی رسک ہیں۔ اس کے باوجود ان کے درمیان دولتِ اسلامیہ کے متاثرین کے بارے میں بات کرنے میں ہچکچاہٹ ہے۔ ان ہزاروں یزیدی خواتین کے متعلق جنھیں اس گروہ نے غلام بنایا تھا، یا دولتِ اسلامیہ کے مخالف سمجھے جانے والوں کے متعلق، یا وہ جنھیں وہ بدعتی سمجھتے تھے، جنھیں قتل کیا گیا یا جو دولتِ اسلامیہ سے لڑتے ہوئے مار دیے گئے۔
خواتین کے لیے یہ کہنا عام ہے کہ انھوں نے دولتِ اسلامیہ کا کوئی پرتشدد پروپیگنڈا نہیں دیکھا۔
’خلافت‘ میں رہنے کے باوجود بہت سی اس گروہ کی طرف سے سر قلم کرنے کے واقعات، قتل عام اور نسل کشی سے لاعلمی ظاہر کرتی ہیں۔ دولتِ اسلامیہ میں شرکت کرنے والے لوگوں کے لیے ایسا کرنا کوئی نئی بات نہیں۔
وہ بیرونی دنیا سے کٹے ہوئے ہیں اور بہت کم ہی سمجھتے ہیں کہ انھیں ان کے آبائی ممالک میں کس نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ کچھ یورپی ممالک جیسے سویڈن، جرمنی اور بیلجیئم کچھ بچوں اور ان کی ماؤں کو واپس لے رہے ہیں۔
لیکن کیمپوں میں بگڑتے ہوئے حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کُرد حکام مزید ممالک پر زور دے رہے ہیں کہ وہ اپنے شہریوں کو واپس بلائیں۔
ڈاکٹر عمر کہتے ہیں کہ ’یہ ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے لیکن بین الاقوامی برادری اس کے متعلق اپنے فرائض اور ذمہ داریاں نہیں لے رہی۔ اگر یہ اسی طرح چلتا رہا تو ہمیں ایسی تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا جس سے ہم نمٹ نہیں سکتے۔‘
Comments are closed.