دولتِ اسلامیہ کا شام جیل پر تازہ حملہ
شدت پسند گروہ دولتِ اسلامیہ اور کرد جنگجؤوں کے درمیان شام کے شمال مشرقی علاقے میں شدید لڑائی جاری ہے۔
یہ لڑائی اس وقت شروع ہوئی جب دولتِ اسلامیہ کے جنگجو کرد جیل میں قید شدت پسند تنظیم کے ارکان کو چھڑانے کی کوشش کر رہے تھے۔
تین برس پہلے شام میں دولتِ اسلامیہ کو شکست ہوئی تھی اور غوارین جیل پر ہونے والا یہ حملہ، حالیہ وقتوں میں دولتِ اسلامیہ کا سب سے جرات مندانہ قدم ہے۔ اس جیل میں ساڑھے تین ہزار لوگ قید ہیں جو کہ مبینہ طور پر دولتِ اسلامیہ کے رکن اور لیڈر ہیں۔
جیل سے بھاگنے کے بعد ہزاروں کی تعداد میں جنگجؤں کو دوبارہ پکڑا گیا لیکن سیرین آبزویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق ابھی بھی کچھ قیدیوں کو پکڑا نہیں گیا۔ کرد سیکیورٹی فورسز نے جیل کا محاصرہ کرلیا ہے اور قریبی علاقوں کا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے لڑائی جاری ہے، جبکہ مقامی آبادی اپنے گھر چھوڑ کر جارہی ہے۔
سیرین آبزرویٹری کے مطابق اس لڑائی کے شروع ہونے کے بعد سے لے کر اب تک دولتِ اسلامیہ کے کم از کم 77 اور کرد فورسز کے 39 لوگ اب تک ہلاک ہو چکے ہیں۔ ادھر دولت ِ اسلامیہ نے 22 جنوری کو ریلیز کی گئی ایک ویڈیو میں یہ دعوی کیا ہے کہ اس حملے میں وہ اپنے بہت سے ارکان کو چھڑانے میں کامیاب رہے ہیں۔ اس ویڈیو میں یہ بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ شدت پسندوں نے کئی لوگوں کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔
‘ایسا گروہ جو ابھی بھی خطرہ ہے،
کوئنٹن سمورویل، رپوٹر، بی بی سی مشرقِ وسطی کے مطابق دولتِ اسلامیہ کے ممبران اور ان کی بیویاں، بہت عرصے سے یہ پیشن گوئی کر رہے تھے کے شام میں موجود جیل سے سینکڑوں کی تعداد میں قیدیوں کو آزاد کروایا جائے گا۔
برطانوی جہادی گروہ ‘دی بیٹلز، کے ال شیفی ال شیخ اور ایلیگزینڈر کوٹی سے جیل کے اندر کیے گئے انٹرویو میں یہ بات پتہ چلی تھی کہ وہ خود کو آزاد دیکھنا چاہتے ہیں۔ دونوں ممبران کا یہ خواب ہے کہ انھیں جیل سے ایک کچرے کے ٹرک میں فرار کیا جائے جو کہ دھماکہ خیز مواد سے لیس ہو۔ لیکن ان کے خواب کے برعکس، دولتِ اسلامیہ نے جیل پر حالیہ حملہ میں تیل کے ایک ٹینکر کا استعمال کیا۔
دولتِ اسلامیہ کا جیل پر حملہ پہلا واقعہ نہیں بلکہ ایسا پہلے بھی ہوتا رہا ہے۔ 2019 میں بھی ایسا کرنے کی کوشش کی گئی تھی جب ڈیرک میں ایک جیل پر حملہ ہوا جو کہ امریکی لڑاکا طیاروں کی مدد سے ناکام ہوگیا۔ لیکن اس بار کرد سیکیورٹی فورسز کے پاس یہ سہولت میسر نہیں جبکہ دولت ِ اسلامیہ کے ارکان نے مختلف لوگوں کو یرغمال بھی بنایا ہوا ہے۔
اس جیل میں برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک سے تعلق رکھنے والے جنگوں قید تھے۔جب اس پورے علاقے میں موجود مختلف ڈیٹینشن کمیپس کا دورہ کیا گیا تو ان جنگجؤں کی بیویوں سے پتہ چلا کہ ان کے شوہر جلد ہی جیل سے فرار ہو کر ان کے ساتھ ہوں گے۔
دولتِ اسلامیہ کی شروعات عراق میں 2012 میں ہوئی، جب مختلف جیلوں سے قیدیوں کے فرار ہونے کے سلسلے کا آغاز ہوا۔ دولت ِ اسلامیہ کا خطے میں اثر و رسوخ اب ماند پڑ گیا ہے لیکن جیل پر حملے کا یہ تازہ واقع ہمیں یہ یاد دہانی کرواتا ہے کہ یہ گروہ اب بھی خطرناک ہے اور ایسے دوسرے حملے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
دوسری طرف پینٹاگون نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں شدت پسندوں کے ٹھکانوں پر فضائی حملے کیے ہیں۔ سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان نیڈ پرائس نے سیرین ڈیموکریٹک فورسز کے اقدامات کو سراہا اور کہا کہ دولت ِ اسلامیہ جنگجؤں کو چھڑانے کی کوشش گزشتہ برس سے کررہی ہے۔
اس علاقے میں رہنے والے مقامی لوگوں نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ خطے میں دولتِ اسلامیہ کے حامیوں میں اضافہ ہورہا ہے اور عرب آبادی کرد قیادت سے خوش نہیں۔ ان پر نسلی امتیاز کا بھی الزام ہے جس کی کرد قیادت تردید کرتی ہے۔ یاد رہے کہ ہزاروں کی تعداد میں جنگجو کردوں کے زیر ِ کنٹرول جیلوں میں قید ہیں۔ یہ جیل شام کے شمال مشرقی علاقوں میں ہیں اور ان میں قید مبینہ شدت پسندوں کا تعلق پچاس مختلف ممالک سے ہے۔
Comments are closed.