’دوزخ کا ہفتہ‘: انسانی جسم کتنی گرمی برداشت کر سکتا ہے؟
- مصنف, جیمز گیلاگر
- عہدہ, میزبان، بی بی سی ریڈیو 4
کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دنیا میں آگ لگ گئی ہے۔
یورپ شدید گرمی کی لہر کی زد میں ہے۔ اٹلی میں اس لہر کو ’دوزخ کا ہفتہ‘ قرار دیا جا رہا ہے۔
چین اور امریکہ میں درجہ حرارت 50 سینٹی گریڈ سے زیادہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ ان ملکوں کے ہسپتالوں میں مریضوں کو گرمی سے بچانے کے لیے برف سے بھرے باڈی بیگز کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ برطانیہ میں جون اب تک کا سب سے گرم مہینہ رہا۔
گزشتہ سال 2022 میں برطانیہ میں پہلی بار درجہ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ ریکارڈ کیا گیا۔ اُس گرمی کی لہر کو پورے یورپ میں 60 ہزار اموات کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔
لہٰذا یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ ہم اب عالمی سطح پر درجہ حرارت میں اضافے کے دور میں رہتے ہیں۔
برطانیہ کے محکمہ موسمیات کے پروفیسر لیزی کینڈن کہتی ہیں ’میرے خیال میں یہ سمجھنا واقعی اہم ہے کہ یہ اب صرف کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو ہم سے دور ہو یا مستقبل کی ہو۔ ہم واقعی اسے اب ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں‘۔
بدلتی ہوئی آب و ہوا سے ہمارے جسم اور صحت پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
میں گرمی میں پسینے سے شرابور ہو جاتا ہوں۔ اس کے باوجود مجھے گرمی کی لہر کے متعلق تجرنے میں حصہ لینے کے لیے مدعو کیا گیا۔
یونیورسٹی آف ساؤتھ ویلز کے پروفیسر ڈیمین بیلی اب ایسے میں مجھے ایک عام ہیٹ ویو کا سامنا کروانا چاہتے ہیں۔ لہٰذا ہم یہ تجربہ 21 سینٹی گریڈ کے درجہ حرارت سے شروع کرنے جا رہے ہیں۔
تھرموسٹیٹ کو 35 ڈگری تک بڑھایا جائے گا اور پھر آخر میں 40.3 سینٹی گریڈ تک درجہ حرارت لے کر جایا جائے گا جو کہ برطانیہ کے گرم ترین دن کے برابر ہے۔
پروفیسر ڈیمین بیلی نے مجھے خبردار کیا ’آپ کو پسینہ آ رہا ہو گا اور آپ کے جسم کی فزیالوجی کافی حد تک تبدیل ہونے والی ہے ۔‘
ہیٹ ویو پر تجربے کے دوران بی بی سی راڈیو 4 کے میزبان جیمز گیلاگر
پروفیسر ڈیمین بیلی مجھے اپنے ماحولیاتی چیمبر میں لے جاتے ہیں۔ یہ ایک کمرے کے سائز کا سائنسی آلہ ہے جس کے اندر درجہ حرارت، نمی اور آکسیجن کی سطح کنٹرول ہو سکتی ہے۔
مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میں تندور میں بند ہو کر باہر دیکھ رہا ہوں۔
تجربہ بالکل 21 ڈگری سینٹی گریڈ کے خوشگوار درجہ حرارت سے شروع ہوتا ہے اور پھر پروفیسر ڈیمین بیلی کی طرف سے ہدایت آتی ہے ’سب کچھ اتار دو۔‘
انھوں نہ مجھے یقین دلایا وہ میرا وزن لے کر پیسنے کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے ایسا کرنے کا کہہ رہے ہیں۔
اس کے بعد میری جلد اور میرے اندرونی اعضا کا درجہ حرارت، میرے دل کی دھڑکن اور بلڈ پریشر کو ٹریک کرنے والے آلات کو میرے اوپر لگایا گیا۔
ایک آلہ میرے منھ پر لگایا گیا جو میرے منھ سے نکلنے والی ہوا کا معائنہ کرتا اور الٹراساؤنڈ میری گردن کی شریانوں کے ذریعے میرے دماغ میں خون کے بہاؤ کا معائنہ کرتا۔
پروفیسر ڈیمین بیلی نے مجھے بتایا کہ ’بلڈ پریشر اچھی طرح سے کام کر رہا ہے۔ دل کی دھڑکن اچھی طرح سے کام کر رہی ہے۔ اس وقت تمام جسمانی سگنلز مجھے بتا رہے ہیں کہ آپ کی صحت اچھی ہے۔‘
ہم نے ایک چھوٹا اور فوری دماغ کا ٹیسٹ کیا جس میں 30 الفاظ کی فہرست کو یاد رکھنا تھا اس کے بعد درجہ حرارت بڑھنا شروع ہو گیا۔
اس دوران میرے جسم کا صرف ایک ہدف تھا۔ مجھے اپنے دل، پھیپھڑوں، جگر اور دیگر اعضا کا بنیادی درجہ حرارت تقریباً 37 ڈگری سینٹی گریڈ رکھنا تھا۔
پروفیسر ڈیمین بیلی کا کہنا ہے کہ ’دماغ میں موجود تھرموسٹیٹ یا ہائپوتھیلمس مسلسل درجہ حرارت پر نظر رکھے ہوتا ہے پھر وہ اس کو برقرار رکھنے کی کوشش کرنے کے لیے سگنل بھیجتا ہے۔‘
ہم مزید پیمائش کرنے کے لیے 35 ڈگری سینٹی گریڈ پر ایک وقفہ لیتے ہیں۔
اب یہاں پہنچ کر گرمی ہو گئی ہے۔ ابھی حالات مشکل نہیں ہیں۔ میں صرف کرسی پر آرام کر رہا ہوں – لیکن میں اس ماحول میں کام یا ورزش نہیں کرنا چاہوں گا۔
میرے جسم میں کچھ تبدیلیاں پہلے ہی واضح ہو گئی ہیں۔ میرا رنگ سرخ ہو گیا ہے۔ پروفیسر ڈیمین بیلی بھی سرخ ہو گئے ہیں وہ یہاں میرے ساتھ پھنس گئے ہیں۔ سرخ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ میری جلد کی سطح کے قریب خون کی نالیاں کھل رہی ہیں تاکہ میرا گرم خون ہوا میں آسانی سے اپنی گرمائش نکال سکے۔
اس کے علاوہ مجھے پسینہ آ رہا ہے۔ یہ ٹپک نہیں رہا لیکن میری جلد چمک رہی ہے اور جیسے جیسے پسینہ بخارات میں تبدیل ہو رہا ہے وہ مجھے ٹھنڈا کر دیتے ہیں۔
پھر ہم 40.3 ڈگری سینٹی گریڈ پر پہنچ چاتے ہیں اور اب مجھے زیادہ گرمی لگنا شروع ہو جاتی ہے۔
جیمز یونیورسٹی آف ساؤتھ ویلز میں چیمبر کے اندر تجربے کے لیے تیار ہو رہے ہیں
پروفیسر ڈیمین بیلی کہتے ہیں کہ ’مزید پانچ ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ نہیں لگتا لیکن یہ واقعی جسمانی طور پر بہت زیادہ مشکل ہوتا ہے‘۔
مجھے خوشی ہے کہ ہم اس سے زیادہ درجہ حرارت نہیں کر رہے۔ جب میں اپنی پیشانی کو ہاتھ سے صاف کرتا ہوں تو سوجن محسوس ہوتی ہے۔ یہ ٹیسٹ کو دہرانے کا وقت ہے۔
جب میں اپنے پسینے سے آلودہ کپڑے فرش پر پھینک کر تولیہ اتار کر واپس وزن کرنے والی مشین پر چڑھتا ہوں تو میں یہ جان کر حیران رہ جاتا ہوں کہ تجربے کے دوران میرے جسم میں ایک تہائی لیٹر سے زیادہ پانی کی کمی آئی۔
میرے دل کی دھڑکن میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور یہ 40 ڈگری سینٹی گریڈ پر 21 ڈگری کے مقابلے میں میرے جسم میں ایک اضافی لیٹر خون فی منٹ پمپ کر رہا ہے۔
بڑھتے درجہ حرارت کے دوران دل کے دورے اور فالج سے ہونے والی اموات میں اضافے کی وجہ بھی دل پر اضافی تناؤ ہے۔
جلد میں خون جانے کی وجہ سے دماغ اس سے محروم ہونے لگتا ہے۔ خون کے بہاؤ کی کمی کی وجہ سے میری قلیل مدتی یاداشت میں بھی کمی آ جاتی ہے۔
لیکن بنیادی درجہ حرارت کو 37 سینٹی گریڈ کے قریب رکھنے کا میرے جسم کا بنیادی مقصد حاصل ہو گیا ہے۔
پروفیسر بیلی کا کہنا ہے کہ ’آپ کا جسم اس بنیادی درجہ حرارت کا دفاع کرنے کی بہت اچھی کوشش کرتا ہے۔ لیکن یقیناً اعداد و شمار بتا رہے ہیں کہ آپ 40 ڈگری پر ویسے نہیں ہیں جیسا کہ آپ 21 ڈگری پر تھے اور یہ ایک گھنٹے سے بھی کم وقت میں ہوا۔‘
نمی کا عنصر
اس تجربے میں صرف درجہ حرارت کو تبدیل کیا گیا تھا۔ ہوا اور پانی کے بخارات کی مقدار یعنی نمی دوسرا قابل غور اہم عنصر ہوتا ہے۔
حبس ہمارے جسم کے ٹھنڈا ہونے کی صلاحیت کو متاثر کرتی ہے۔
صرف پسینہ آنا کافی نہیں ہے۔ جب پسینہ ہوا میں بخارات کی صورت میں بن جاتا ہے تو ہمیں ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے۔
جب ہوا میں پہلے سے ہی زیادہ نمی ہو تو پسینے کے بخارات بننا مشکل ہو جاتا ہے۔
پروفیسر ڈیمین بیلی نے نمی کو 50 فیصد پر رکھا یہ برطانیہ میں معمول کی نمی ہوتی ہے۔ لیکن امریکہ کی پنسلوانیا سٹیٹ یونیورسٹی کی ایک ٹیم نے صحت مند نوجوانوں کے ایک گروہ پر مختلف درجہ حرارت اور نمی میں تجربہ کیا۔ وہ اس لمحے کی تلاش میں تھے جب جسم کا بنیادی درجہ حرارت تیزی سے بڑھنا شروع ہوتا ہے۔
محقق ریچل کوٹل کہتی ہیں ’ہمارا بنیادی درجہ حرارت بڑھنا شروع ہو جاتا ہے اور یہ اعضا کی خرابی کا باعث بن سکتا ہے۔‘
اور یہ خطرناک صورتحال تب آتی ہے جب درجہ حرارت کم ہو اور نمی زیادہ ہو۔
ریچل کوٹل کا کہنا ہے کہ تشویش کی بات یہ ہے کہ گرمی کی لہریں نہ صرف بار بار، طویل مدتی اور زیادہ شدید ہوتی جا رہی ہیں بلکہ ان میں نمی بھی بڑھ رہی ہے۔
وہ بتاتی ہیں کہ پچھلے سال انڈیا اور پاکستان شدید گرمی کی لہر کا شکار ہوئے جہاں درجہ حرارت تشویش ناک اور نمی بھی زیادہ تھی۔
وہ کہتی ہیں ’یہ یقینی طور پر ’اب‘ کا مسئلہ بن گیا ہے یہ مستقبل کا مسئلہ نہیں رہا۔‘
انسانی جسم تقریباً 37 ڈگری سینٹی گریڈ کے بنیادی درجہ حرارت پر کام کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ اگر درجہ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ پہنچ جائے تو انسان بے ہوشی کا شکار ہو سکتے ہیں۔
زیادہ جسمانی درجہ حرارت ہمارے جسم کے ٹشو کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اس میں دل کے پٹھوں اور دماغ شامل ہیں۔ آگے جا کر یہ جان لیوا ہو جاتا ہے۔
پروفیسر ڈیمین بیلی کہتے ہیں ’ایک بار جب بنیادی درجہ حرارت تقریباً 41-42 ڈگری سینٹی گریڈ تک بڑھ جائے تو ہمیں واقعی اہم مسائل نظر آنے لگتے ہیں اور اگر اس کا علاج نہ کیا جائے تو وہ شخص ہائپر تھرمیا کا شکار ہو کر مر جائے گا۔‘
یہ ایک ہیٹ سٹروک ہے جو ایک طبی ایمرجنسی ہے۔
چیمبر کے اندر دوران تجربہ پروفیسر ڈیمین بیلی کو بھی پسینہ آ گیا
لوگوں کی گرمی سے نمٹنے کی صلاحیت مختلف ہوتی ہے۔ لیکن عمر اور خراب صحت ہمیں بہت زیادہ کمزور بنا سکتی ہے۔ جس درجہ حرارت میں آپ ایک دور میں لطف اندوز ہوتے تھے وہ زندگی کے مختلف مرحلوں میں خطرناک ہو سکتے ہیں۔
پروفیسر بیلی کہتے ہیں کہ ’آپ آج اپنے چہرے پر مسکراہٹ کے ساتھ لیب چھوڑنے جا رہے ہیں۔ تمام اعدادوشمار مجھے بتا رہے ہیں کہ آپ نے چیلنج کا پورا مقابلہ کیا اور آپ نے بہت اچھا کام کیا ہے‘
لیکن بڑھاپا، دل کی بیماری، پھیپھڑوں کی بیماری، ڈیمنشیا اور کچھ ادویات لینے کا مطلب ہے کہ جسم پہلے ہی اپنا کام جاری رکھنے کے لیے زیادہ مشقت کر رہا ہے اور گرمی کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں ہے۔
پروفیسر بیلی کہتے ہیں ’ہر روز یہ ان (جیسے لوگوں) کے لیے ایک جسمانی چیلنج ہے۔ اب جب ان پر اضافی گرمی اور نمی پھینک دی جائے تو بعض اوقات وہ اس چیلنج کا مقابلہ نہیں کر پاتے۔‘
گرمی سے کیسے نمٹا جائے؟
گرمی سے نمٹنے کے لیے بہت سے مشورے واضح ہیں۔
سائے میں رہیں، ڈھیلے کپڑے پہنیں، شراب سے پرہیز کریں، اپنے گھر کو ٹھنڈا رکھیں، دن کے گرم ترین حصوں میں ورزش نہ کریں اور ہائیڈریٹ رہیں۔
پروفیسر ڈیمین بیلی کا کہنا ہے کہ ’ایک اور مشورہ یہ ہے کہ ’سن برن‘ سے بچیں۔ ہلکے سن برن سے تھرمورگولیٹ کرنے یا دو ہفتوں تک پسینہ آنے کی صلاحیت ختم ہو سکتی ہے۔‘
لیکن گرمی سے نمٹنا ایک ایسی چیز ہے جسے ہم سب کو عادت بنانا پڑے گا۔
Comments are closed.