دنیا کے بڑے بینک تیز رفتاری سے سونا کیوں خرید رہے ہیں اور اس سے ڈالر کو کیا خطرہ ہے؟

کرنسی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, کرسٹینا جے اورگز
  • عہدہ, بی بی سی نیوز، منڈو

ڈالر کے بدلے سونا۔ دنیا میں بہت سے ممالک کے مرکزی بینک امریکہ پر انحصار کم کرنے کی کوششوں میں ایسا کر رہے ہیں یعنی ڈالر کے بجائے سونے کو ترجیح۔

سونے کی صنعت کی نمائندگی کرنے والے ادارے عالمی گولڈ کونسل نے بتایا ہے کہ سینٹرل بینکوں نے گذشتہ سال اپنے ذخائر میں سب سے زیادہ سونا جمع کیا ہے۔ یہ سنہ 1950 میں جب سے سونے کا ریکارڈ رکھنا شروع کیا گیا اس وقت سے اب تک کا ریکارڈ ہے۔

اور اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ رواں سال یعنی سنہ 2023 بھی یہ رجحان قائم ہے۔

ڈالر نے دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد سے عالمی ریزرو کرنسی کے طور پر کام کیا ہے اور عالمی تجارت پر غلبہ حاصل کر رکھا ہے لیکن یوکرین پر روس کے حملے نے عالمی نظام کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور معیشت سے متعلقہ حکام امریکی ڈالر پر انحصار کے اصول سے انحراف کر رہے ہیں اور یہ بات ڈالر کے خلاف جا رہی ہے۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس کی وجہ سے کوئی انقلابی تبدیلی نہیں آئے گی کیونکہ ڈالر کی بالادستی ابھی بہت عرصے قائم رہے گی۔

تاہم ایسا نہیں کہ اس رجحان (ڈالر کی بجائے سونے کو ترجیح) پر دھیان نہیں گیا ہے۔

مثال کے طور پر چین، انڈیا اور برازیل جیسی بڑی معیشتوں کے مرکزی بینک اپنے ذخائر میں موجود ڈالر کو تیزی سے سونے سے بدل رہے ہیں، اور یہ کام دوسری جنگ عظیم کے بعد کے دور میں دیکھی جانے والی تیز ترین شرح پر ہے۔

کچھ تجزیہ کاروں کا اس رجحان کی ابتدا کے بارے میں یہ کہنا ہے کہ یہ یوکرین پر حملے سے پہلے ہی شروع ہو چکا تھا لیکن زیادہ تر اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ جس آسانی کے ساتھ امریکہ نے روس پر پابندیاں عائد کی تھیں وہ اس کا نقطۂ آغاز تھا اور اس کے بعد اس رجحان میں تیزی آئی۔

ڈالر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

منجمد ذخائر

امریکی بینکوں میں عالمی اجناس کے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ’مغربی ممالک نے سنہ 2022 کے یوکرین پر حملے کی وجہ سے کچھ اثاثے منجمد کر دیے، جس نے دنیا بھر کے مرکزی بینکوں کو قابل تبادلہ سونے کے ذخیرے کو مزید بڑھانے کے لیے ترغیب دی۔‘

ان کے مطابق عالمی معیشت ایک کثیر قطبی دنیا کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اور اس حوالے سے انھوں نے امریکی کرنسی کے سرکاری زرمبادلہ کے ذخائر میں دو دہائیوں قبل تقریباً 70 فیصد سے گر کر آج 58 فیصد ہونے کی دلیل پیش کی۔

انھوں نے مزید کہا کہ ’اس کی مثال روس ہے جو کہ اب دنیا کا سب سے زیادہ پابندیوں کا سامنے کرنے والا ملک ہے اور شاید اسی وجہ سے وہ حالیہ برسوں میں سب سے زیادہ ڈالر پر انحصار کم کرنے کے ساتھ ساتھ سونے کے بڑے خریداروں میں سے ایک ہے۔‘

یہ ردعمل سمجھ میں آتا ہے۔

امریکہ روس کے 300 ارب ڈالر کے ذخائر کو منجمد کرنے میں صرف اس لیے کامیاب رہا کیونکہ وہ ڈالر میں تھے۔

چین

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ایسیڈ میں شعبہ اقتصادیات، مالیات اور اکاؤنٹنگ میں معاون پروفیسر عمر رشیدی کہتے ہیں کہ ’یوکرین کی جنگ کے نتیجے میں امریکی پابندیوں کے بعد کئی ممالک نے مستقبل میں ممکنہ پابندیوں کے حوالے سے (ڈالر پر اپنے) انحصار کو کم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور اس چیز نے سونے اور چینی (کرنسی) کو ذخیرہ کرنے کے رجحان کو فروغ دیا ہے۔‘

جیسا کہ دیکھا گیا ہے روس کے ساتھ تجارت کرنے والی نجی کمپنیاں بھی ممکنہ طور پر امریکی پابندیوں کا شکار ہوئی ہیں۔

سال کے آغاز سے سونے نے شاندار کارکردگی دکھائی ہے۔ رواں سال اب تک یہ قیمتی دھات ڈالر کے مقابلے میں 10 فیصد سے زیادہ بڑھ چکی ہے۔

سرمایہ کاری کی کمپنی جولیس بیئر میں تحقیق کے سربراہ کارسٹن مینکے کے خیال سے تیزی سے کثیر قطبی ہوتی دنیا بھی اس کی ایک وجہ ہے۔

امریکی معیشیت

،تصویر کا ذریعہGetty Images

سیاسی بیان

مینکے نے ایک مارکیٹ رپورٹ میں لکھا: ’ہم توقع کرتے ہیں کہ مرکزی بینک کی خریداری تیزی سے کثیر قطبی دنیا میں مضبوط بنے رہنے کے لیے ہے لیکن ہم یہ نہیں چاہتے کہ پچھلے سال کی ریکارڈ توڑ دوڑ جاری رہے۔‘

انھوں نے مزید کہا: ’ہم ڈالر کو کم کرنے کے نقطہ نظر کے حامی نہیں ہیں، حالانکہ ہم مرکزی بینکوں کی طرف سے سونے کی خریداری کو بنیادی طور پر امریکی ڈالر کے مقابلے میں ایک پالیسی کے طور پر دیکھتے ہیں۔‘

سینٹرل بینک سونا پسند کرتے ہیں کیونکہ ان سے یہ امید رکھی جاتی ہے کہ کرنسیوں اور بانڈز کے برعکس ہنگامہ خیز حالات میں اس کی قیمت برقرار رہے گی اور اس کی قدر و قیمت کسی جاری کنندہ یا حکومت پر منحصر نہیں ہے۔

سونا مرکزی بینکوں کو امریکی خزانے اور ڈالر جیسے اثاثوں سے الگ تنوع لانے کی بھی اجازت دیتا ہے۔

جارج میسن یونیورسٹی میں شعبہ اقتصادیات کے پروفیسر لارنس ایچ وائٹ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا: ’مرکزی بینکوں کے سونا جمع کرنے کی وجوہات مختلف ہوتی ہیں، لیکن شاید سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ انھیں اپنے ریزرو اثاثوں کو متنوع بنانے کی ضرورت ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’مثال کے طور پر چین سونا خرید رہا ہے اور ساتھ ہی امریکی خزانے کے اپنے بڑے پورٹ فولیو کا کچھ حصہ فروخت کر رہا ہے۔ ڈالر کے اثاثوں کے بجائے سونا رکھنا بھی ڈالر کی قدر میں کمی کے خطرے کو کم کرنے کا ایک طریقہ ہے۔‘

تاہم ’ڈالر بین الاقوامی ادائیگیوں کے لیے رائج کرنسی ہے، اور نہ ہی یورو کے اور نہ ہی یوآن کے اس کی جگہ لینے کا کوئی امکان ہے۔‘

تجارت

،تصویر کا ذریعہGetty Images

شرحِ سود

شرحِ سود کے اضافے کے باعث اکثر معیشتوں نے خود کو ڈالر سے علیحدہ کر لیا ہے۔

رچیڈی کہتے ہیں کہ ’مرکزی بینک کی ضروریات میں اضافہ اس وقت ہوتا ہے جب ان کے امریکی وزارتِ خزانہ کے بلز کی قدر امریکی فیڈرل ریزرو میں شرح سود میں اضافے کے باعث ختم ہو جاتی ہے۔

رچیڈ مزید بتاتے ہیں کہ ’اسی وجہ سے امریکی کرنسی خاص طور پر امریکی ٹریژری بلز کے علاوہ دیگر اثاثوں کی جانب رجحان میں اضافہ دیکھنے میں آتا ہے۔‘

کسی بھی لاطینی امریکی معیشت کی بات کی جائے جس کا قرضہ ڈالرز میں ہو ان کے لیے خاص طور پر شرح سود میں اضافہ ایک بُری خبر ہے۔

برازیلین صدر لولا ڈا سلوا نے حال ہی میں ڈالر کی برتری کے بارے میں بات کی۔

چین کے حالیہ سرکاری دورے کے دوران ایک تقریر میں صدر نے برکس (بی آر آئی سی ایس) ممالک، جن میں برازیل، روس، انڈیا، چین اور جنوبی افریقہ شامل ہیں، پر زور دیا کہ وہ ایک نئی کرنسی تیار کریں اور ڈالر کو خیر آباد کہہ دیں۔

فنانشل ٹائمز میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق انھوں نے اس تقریر کے دوران یہ سوالات بھی اٹھائے کہ آخر ’ہم اپنی کرنسیوں میں ہی ایک دوسرے سے تجارت کیوں نہیں کر سکتے؟ وہ کون تھا جس نے سونے کے لین دین کے معیار کے طور پر خاتمے کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ ڈالر ہی تجارت کی معیاری کرنسی ہے؟‘

شنگھائی نیو ڈویلپمنٹ بینک میں خطاب کرتے ہوئے برازیلین صدر لولا ڈا سلوا نے برکس ممالک سے ایک مشترکہ کرنسی قائم کرنے کا مطالبہ کیا جس میں وہ ایک دوسرے کے ساتھ لین دین کر سکیں۔

برازیل اور ارجنٹائن کی طرف سے چند ماہ بعد یہ تجویز سامنے آئی کہ ’سول‘ نامی مشترکہ کرنسی متعارف کرائی جائے۔

ہسپانوی تھنک ٹینک ’ایس گلوبل‘ نامی کے تجزیہ کار گونزالو ٹوکا کے مطابق ’یہ ایک پرانی خواہش ہے۔ کوئی بھی ایسی کرنسی پر انحصار نہیں کرنا چاہتا جسے وہ کنٹرول نہیں کر سکتا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی اس کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ڈالر کی وسیع بالادستی اس وقت تک برقرار رہے گی جب تک کہ اس کا کوئی حریف نہ ہو۔‘

کرنسی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

یہ بھی پڑھیے

ناقابل چیلنج تسلط

ان کے مطابق ’ہم دنیا کی سرکردہ معیشت کی کرنسی اور عالمگیریت کے مرکزی فروغ دینے والے اور بین الاقوامی مالیاتی نظام کی کرنسی کے بارے میں بات کر رہے ہیں جیسا کہ ہم اسے بخوبی جانتے ہیں۔ اسی وجہ سے موجودہ ادارہ جاتی ڈھانچہ بھی اس کے حق میں ہے۔‘

گونزالو ٹوکا نے کہا کہ ڈالر نے جتنا خوب راج کیا ہے وہ ’یورو‘ اور ’یوآن‘ کے اضافے کے ساتھ کمزور ہونا شروع ہو گیا ہے۔ اور یہ آنے والے برسوں میں مزید کمزور ہوتا رہے گا کیونکہ ان کی اہمیت ریزرو اور ادائیگی کی کرنسیوں کے طور پر اضافہ ہوتا جائے گا۔

خیال رہے کہ ماضی کے برعکس واشنگٹن اور بیجنگ کے تعلقات اب سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور کے برعکس اب کم کشیدہ ہیں۔

اس کے علاوہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (بی آر آئی) جیسے بڑے منصوبوں کے لیے چین کے ایشیا، افریقہ اور جنوبی امریکہ کے ممالک کے ساتھ معاہدوں میں بھی معیاری کرنسی ڈالر کے بجائے رینمنبی کا ذکر کیا گیا ہے۔

ان کے مطابق جب تک چین سرمایہ کاروں کے لیے اچھی طرح سے محفوظ ماحول فراہم نہیں کرتا اور حکومت کو مالیاتی منڈیوں کو براہ راست کنٹرول کرنے اور ممکنہ طور پر کسی بھی مالیاتی اکاؤنٹس تک رسائی کی اجازت نہیں دیتا تو اس وقت چین امریکی تسلط کو کم کرنے کے لیے اہمیت اختیار نہیں کر سکتا۔

ان کے پیش گوئی کے مطابق ’جب تک امریکہ مہنگائی کی مستحکم شرح کے ساتھ آزاد مالیاتی منڈیوں کو برقرار رکھنے کا انتظام کرتا ہے تو اس کا مالیاتی تسلط اگلی دہائی یا اس سے بھی زیادہ عرصے تک برقرار رہ سکتا ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ