بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

دنیا کی ’سب سے قدیم روٹی‘ کے نسخے کی تلاش

آسٹریلیا میں دنیا کی ’سب سے قدیم روٹی‘ کے نسخے کی تلاش

first bakery

اب اس بات کے ثبوت موجود ہیں کہ آسٹریلیا کے قدیم باشندوں کے نوآبادیات سے پہلے رہن سہن کے انداز آج سے مختلف تھے

آسٹریلیا کے قدیم باشندوں کی گندم کی دریافت کو مستقبل میں خوراک کے اہم اور پائیدار ذریعے کے طور پر ایک بڑی اہم پیش رفت سمجھا جا رہا ہے۔ لیکن اس قدیم اناج کی دریافت اور اس کا دوبارہ سے استعمال شاید سینڈوچ کو ذائقہ دار بنانے سے کہیں زیادہ اہم ثابت ہو سکتا ہے۔

خمیری روٹی کا آٹا بنانے کے فن میں عبور حاصل کرنا کووڈ 19 کے دوران کھانے بنانے کے رجحانات میں سے ایک بڑی یادگار کے طور پر ذہنوں میں باقی رہے گا۔

لیکن جب دنیا بھر میں گھروں میں کھانا بنانے والوں نے انسٹاگرام پر پوسٹ لگانے کے لیے بریڈ کی تیاری میں مصروف تھے، آسٹریلیا کے محققین قدیم زمانے کے اناج کی دوبارہ کاشت کے امکان کے ذریعے خوراک کی کمی ختم کرنے پر غور کر رہے تھے۔

اراکوال بُندجالنگ گروپ کی خاتون ڈیلٹا کے کہتی ہیں ’یہ بیج دیکھیں؟‘ وہ ساحل کے قریب بڑھتے ہوئے ایک ‘لمانڈرا لانگفولیا’ پودے سے آہستہ آہستہ بیج کی کلی کو پھوٹتے ہوئے احتیاط سے اس کی دیکھ بھال کر رہی تھی۔

‘بُندجالنگ افراد، گرم راکھ میں فلیٹ بسکٹ پکانے کے لیے آٹا پیس کر رکھ دیتے تھے اور اس کے لمبے، مضبوط پتے خشک کر لیے جاتے تھے اور انھیں ٹوکریاں بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔’

اس علم کا تعلق ہزاروں برس پرانی تاریخ سے ہے، جو ڈیلٹا کے نے میرے ساتھ شمالی نیو ساؤتھ ویلز کے بائرن بے میں، میزبان کے طور پر مقامی قدیم باشندوں کے خطے میں کی جانے والی سیاحت کے موقع پر مجھ سے شیئر کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

آسٹریلیا

ایک زمانے میں قدیم مقامی فصلیں آسٹریلیا میں بہت زیادہ پھلی پھولتی تھیں

اس کے باوجود یہ کچھ عرصہ پہلے تک معلوم نہیں ہوا تھا کہ فطرت کی ان نعمتوں کا نسل در نسل استفادہ کرنے والے، اس برِاعظم کے کالونی بننے سے پہلے کے یہ قدیم لوگ اپنی زندگی کیسے بسر کرتے ہوں گے اور اپنے پکوان کیسے تیار کرتے ہوں گے۔

بروس پاسکوئی کی 2014 کی کتاب ، ڈارک ایمو، نے جدید دور کے قدیمی باشندوں کے بارے میں آبادکاروں کے اس خیال کو دستاویزی شواہد کے ساتھ غلط ثابت کیا ہے کہ ان قدیم آسٹریلوی باشندوں نے خوراک تلاش کرنے اور شکار کرنے والی طرز زندگی اپنا رکھی تھی۔

پاسکوئی نے مشرقی وکٹوریہ میں مالاکوٹا کے قریب یوئن خطے کے اپنے فارم دکھا کر مجھے بتایا کہ قدیم آسٹریلوی باشندے دنیا کا پہلا زرعی معاشرہ تھا۔ مزید یہ کہ سنہ 1990 کی دہائی میں شمال مغربی نیو ساؤتھ ویلز کے ‘کڈی سپرنگس’ میں چکیوں کے پتھر کے پاٹ دریافت ہوئے تھے جو کہ کم از کم تیس ہزار سال پرانے تھے۔

اس کے بعد سنہ 2015 میں شمالی خطوں میں آرنہم لینڈ میں پیسنے والے پتھروں کی دریافت ہوئی تھی، جو 65 ہزار سال پرانے تھے، اور اس بات کو یقینی طور پر ثابت کرتے ہیں کہ قدیم آسٹریلوی باشندے دنیا کے پہلے بیکر تھے۔

پاسکوئی نے بتایا کہ ‘شواہد اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ پیسنے والے پتھر آٹا بنانے کے لیے استعمال کیے گئے تھے اور یہ دنیا میں پہلی بار ہوا تھا کہ گھاس کے بیج کو ہزاروں برس پہلے سے آٹے میں تبدیل کیا جا رہا تھا۔’

پاسکوئی نے کہا ارنہم لینڈ کی دریافت سے پہلے ہی ‘کڈی سپرنگس میں پیسنے والے چکی کے پتھر کے پاٹوں کی دریافت سے یہ ظاہر ہوا تھا کہ انجیمبا خواتین (مقامی آبائی قبیلہ) مصریوں سے بھی اٹھارہ ہزار سال پہلے سے بیجوں سے روٹی بنا رہی تھیں۔’

آسٹریلوی علاقوں میں، خاص طور پر بنجر علاقوں میں، ایک بار مقامی فصلوں کی نشوونما ہوئی اور مقامی آسٹریلوی باشندوں نے محدود آگ جلانے جیسی تکنیک استعمال کرتے ہوئے ایک بار نہایت ہی آسانی سے انتظام کیا (اب یہ تکنیک آسٹریلیا کے جنگلوں میں بار بار لگنے والی آگ پر قابو پانے کے لیے استعمال کی جا رہی ہے)۔

لیکن گھاس سمیت دیگر فصلیں، جن کے بیجوں سے آٹا بنایا جاتا تھا، وہ قدیم لوگوں کو ان کے آبائی علاقوں سے ہٹائے جانے اور ان کی جگہ دیگر مویشیوں کے لائے جانے سے تباہ ہو گئیں۔

پاسکوئی نے کہا ‘ان علاقوں میں مہم جوئی کے لیے جانے والے نوآبادیاتی حاکموں نے اپنے گھوڑوں کی زِین سے زیادہ بلند گھاس کے بارے میں لکھا تھا، لیکن اب ان میں سے بہت سے جگہوں پر ویسی گھاس موجود نہیں ہیں۔’

بروس پاسکوئی

بروس پاسکوئی کی تحقیقی کتاب نے اس مفروضے کو غلط ثابت کیا کہ قدیم باشندے ایک سادہ سے زندگی بسرکرتے تھے اور ان کی گزر اوقات صرف شکار کرنے پر ہوتی تھی

اگرچہ حالیہ برسوں میں آسٹریلیا کے قدیم کھانوں کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے، تاہم مقامی گھاس اور دوسری فصلیں جنھیں آٹا بنانے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے، اب بھی بہت سے غیر دیسی آسٹریلوی باشندے ان کو جڑی بوٹیاں سمجھتے ہیں۔ لیکن جدید سائنس کی مدد سے یہ قدیم پکوان اب پھر سے لوگوں کے کھانوں کی زینت بن رہا ہے۔

اس وقت زراعت کے سائنس دان انجیلا پیٹیسن نے یہ تجزیہ کرنا شروع کیا کہ آیا سخت گھاس میں پائیدار کھانوں کا ذریعہ بننے کی صلاحیت ہے یا نہیں؟

پیٹیسن نے کہا ‘میں نے بروس پاسکوئی کی کتاب پڑھی اور سوچا کہ کیا یہ دیکھنا اچھا نہیں ہو گا کہ کیا ہم جدید تناظر میں کھیت سے پیداوار کے نظام کو چلانے کا کوئی راستہ بنائیں۔’

پاسکوئی کے ساتھ اشتراک کے ساتھ اس منصوبے پر کام کا آغاز ہوا۔

گمیلارائے کے روایتی مالکان (قدیم آسٹریلوی آبادی) اور مقامی کسانوں کے ساتھ، پیٹیسن کی زیرقیادت ایک برس کی ریسرچ کی گئی جس نے یہ دکھایا کہ باجرا، یا پینکیم (باجرے جیسے جنس)، کے تجارتی سطح پر اگائے جانے کے کافی امکانات تھے۔

یٹیسن نے کہا کہ ‘دیسی باجرا اگانے، کاشت کرنے اور آٹے میں بدلنے میں، سب سے آسان اناج تھا اور یہ گندم سے کہیں زیادہ غذائیت بخش ہے۔ اس میں فائبر ہے اور یہ گلوٹین فری بھی ہے۔ اور اس کا ذائقہ اچھا ہے۔ اس کے کئی سارے فائدے تھے اور یہ کئی ایک اچھے معیاروں پر پورا اترتا تھا۔

چکی کی سلیں

یہ قدیم باشندوں کی چکی کی سلیں ہیں جن میں گھاس کے بیجوں کو پیسنے کے لیے کثرتِ استعمال کی وجہ سے گھڑے کے نشانات نظر آرہے ہیں۔ یہ جنوبی آسٹریلیا کے انّامیک ریجنل ریزرو میں دریافت ہوئی تھیں

محققین نے یہ بھی دیکھا کہ دیسی گھاس کے بہت سے ماحولیاتی فائدے بھی ہیں۔ مختلف موسموں میں بچ جانے والے پودے ہونے کی حیثیت سے وہ ماحول میں سے کاربن کو الگ کرتے ہیں، خطرے میں گِھری زندگیوں کو محفوظ بناتے اور حیاتیاتی تنوع کی برقرار رکھنے میں مدد دیتے ہیں۔

آسٹریلیا کے قدیم کسانوں کی اولادوں کے لیے یہ قطعی طور پر کوئی نئی خبر نہیں تھی۔۔۔ جن کے لیے دیسی اناج کی بحالی اور ممکنہ اقتصادی فوائد ماحولیات کی بہتری سے زیادہ اہم پیش رفت تھی۔

اس تحقیق کے ایک حصے کے طور پر پاسکوئی نے پیٹیسن اور گمیلارائے کے روایتی مالکان میں ‘جونی کیک ڈے’ کی تقریبات کے سلسلوں میں یہ جاننے کے لیے کہ کس طرح گرم شعلے پر پکنے والے دیسی سادہ روٹی میں قدیم آٹا موجود ہوتا ہے یا نہیں۔

گمیلارائے قبیلے کی ایک عورت، رونڈا ایشبی جو اپنے روایتی کام کی وجہ سے جانی جاتی تھی، کیونکہ وہ زبان اور ثقافت کے ذریعے نوآبادیاتی لوگوں کی مدد کرتی ہے، اس کے لیے یہ صرف اپنے عزیزوں کے ساتھ روٹی کھانے کا ہی موقع نہیں تھا بلکہ اس اناج سے انھیں شفا بھی ملتی ہے۔

ایشبی نے کہا ‘ہم نے کالونی بننے کی وجہ سے اپنا بہت سا علم کھو دیا ہے۔ لہٰذا اس روایتی طرز عمل کو واپس لانا، جو ہمارے روایتی اجزا کے ساتھ کھانا پکانے کے قابل بناتا ہے، یہ ہماری بہتری کے لیے واقعی اہم ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ آبائی گھاس صرف گمیلارائے کے لوگوں کے لیے روایتی کھانوں کا ذریعہ ہی نہیں رہی۔ یہ خاص طور پر خواتین کے لیے بھی گہری ثقافتی اہمیت رکھتی ہے۔

ایشبی کہتی ہے کہ ’مغربی نیو ساؤتھ ویلز کے عوام ندی اور گھاس کے لوگوں کے نام سے جانے جاتے ہیں، اور یہ دیسی گھاس لوک ثقافتی نغموں کی دھنوں پر لوگوں کی سماجی زندگی کی تزئین کرتی ہے (جو کہانی اور گانوں کے مطابق نسل در نسل گنگنائے جاتے رہے ہیں) سیون سسٹرز سونگ لائن کی طرح، جو ایک ہے آسٹریلوی لوک گیت ہے جو ابتدائی دور کی خواتین کے لئے سب سے بڑا گیت تھا۔’

ببول بیج

ببول بیجوں جیسے مقامی اور قدیمی اجزاء کی حالیہ برسوں میں مقبولیت بڑھ رہی ہے

یہ فائبر سے بھرپور ہوتا ہے اور گلوٹن سے پاک ہوتا ہے

روٹی کے لیے دیسی زبانوں میں مختلف الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ (نوآبادیات بنتے وقت آسٹریلیا میں 250 سے زیادہ دیسی زبانیں بولی جاتی تھیں)، لیکن انگریزی میں، دیہاتی طرز کی روٹی کو عام طور پر ’ڈیمپر‘ کہا جاتا ہے۔

یہ لفظ اینٹیں بنانے کی تکنیک سے اخذ کیا گیا ہے جسے ایک شخص نے استعمال کیا تھا جو 1788 میں ولیم بانڈ کے نام سے پہلا بحری بیڑے پر آسٹریلیا پہنچا تھا، جس نے آگ کو ‘نم’ کر کے اپنی سڈنی بیکری میں روٹی بنائی تھی اور پھر آٹے کو راکھ میں دبا دیا تھا۔

بعد میں یہ طریقہ بہت زیادہ مقبول ہوا کیونکہ آسان اجزاء (سفید آٹا اور نمک کے بغیر) ہونے کی وجہ سے کسی مشکل اور طویل سفر میں اسے با آسانی ساتھ لے جایا جا سکتا تھا۔

نوآبادیاتی دور کے مقامی زبان کے شاعر بنجو پیٹرسن کی طرح ‘ڈیمپر’ کی اصطلاح کو مقبول ثقافت میں استعمال کر کے ہمیشہ کے لیے امر کر دیا۔

بدقسمتی سے یہ بھی برطانوی نسخہ تھا۔ 19ویں صدی کے اوائل تک مقامی آسٹریلوی باشندوں کے لیے سرکاری راشن ایک پاؤنڈ آٹا، دو اونس چینی اور دن میں آدھی اونس چائے ہوتی تھی۔

انتہائی پروسیس شدہ کم غذائیت والی خوراک نے مقامی آبادی کی صحت تباہ کر کے رکھ دی تھی۔ آج بھی غیر مقامی اور آسٹریلیا کی قدیم آبادی کے مقابلے میں ٹوریس سٹریٹ آئلینڈر کی آبادی کو ٹائپ 2 ذیابیطس کا خطرہ ساڑھے چار گنا زیادہ ہے۔

دیسی اناج کی مقبولیت کی بحالی سے وابستہ بہت سے فوائد کے باوجود، محققین نے تسلیم کیا ہے کہ اس سے پہلے کہ دیسی آٹا لوگوں کی مقبول غذا بن جائے، اس پر قابو پانے کے لیے پہلے ہی کافی رکاوٹیں موجود ہیں۔

پیٹیسن نے کہا ‘ایک تو یہ کہ متعارف کروائی گئی نئی فصلوں کے مقابلے میں قدیم دیسی اناج کی پیداوار کم ہے، اور کسی بھی قسم کے اناج کی پیداوار کو اسے قابل قدر بنانے کے لیے آپ کو بڑے پیمانے پر متعارف کرانے کی ضرورت ہو گی۔’

پاسکوئی جنھوں نے پیٹیسن کے ساتھ مل کر ایک اناج کی صنعت کی ترقی کی مقامی سطح پر فروغ دینے کی حمایت کی، نے کہا کہ زمین کے حصول کے لیے مقامی آسٹریلوی آبادی کے لیے مسلسل جدوجہد کی ضرورت ہے، جس کے لینڈ مینجمنٹ کے روایتی طریقوں کو بھی تاریخی اعتبار سے اس کی اہمیت کو صحیح طرح نہیں سمجھا گیا ہے۔

مقامی باشندوں کا روٹی پکانے کا انداز

‘ڈیمپر’ جسے جانگلی لوگوں کی روٹی بھی کہا جاتا ہے، در اصل انگریزی زبان کی ایک اصطلاح ہے جو آسٹریلیا کے مقامی باشندوں کی روٹی کے لیے استعمال کی جاتی ہے، جو ہزاروں برس سے پکائی جا رہی ہے

پاسکوئی نے کہا: ‘بھیڑوں کی وجہ سے ہونے والے نقصان کی وجہ سے آسٹریلیا میں اب زمین کے مکمل حصے قابلِ کاشت نہیں رہے ہیں۔’ لہذا قدیمی آسٹریلوی لوگوں کو ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہ ہونے دو۔ ہمیں معاشرتی انصاف اور مثبت معاشی احساس کو اس صنعت میں شامل کرنا ہو گا۔

اس دوران دیسی آسٹریلوی روٹی اور روٹی بنانے کی روایات کا تجربہ پورے ملک میں دیسی ثقافت کی سیاحت کی سطح پر کیا جا سکتا ہے۔ مختلف پودوں، تراکیب اور اوزار کے ذریعہ روایتی طور پر ایک خطے سے دوسرے علاقے میں آٹا نکالنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ سیکھنے کے لیے ہمیشہ کچھ نہ کچھ نیا ہونا چاہیے۔

پیدل ثقافتی مہم جوئی یا سیر و سیاحت کے ساتھ اپنے ہاتھ کو مٹی کے کیکڑے کو پکڑنے کی کوشش کرنے کے لیے شمالی کوئنز لینڈ دور دراز علاقوں کے مینگروو میں جانے سے پہلے میں نے کمپنی کے مالک جوان واکر کی والدہ لوئس کے ہاتھ کی تیار کی ہوئی روٹی سے لطف اٹھایا۔

واکر نے وضاحت کی ‘وہ باقاعدگی سے آٹے کا استعمال کرتی ہیں، لیکن روایتی طور پر کوکو یلنجی قبیلے کے لوگ بہت سے دیسی بیج اور اناج استعمال کرتے تھے، جیسے کالا لوبیہ، ببول کے کالے بیج اور کیوڑے کے بیج۔ کچھ خواتین اب بھی (پودوں میں) زہریلے اثرات کو دور کرنے کے لیے اسے استعمال کرتی ہیں۔’

شمالی علاقہ جات کے ارنہم لینڈ کے ساتھ ‘نارتھ سیفاریس’ کے دورے پر، میرے گائیڈ نے چٹانوں میں کئی سو سال پرانے چکی کی سلوں کے استعمال کے نشانات کی نشاندہی کی جو قدیم دور میں گھاس کو پیسنے کے لیے استعمال کیے گئے ہوں گے۔

اور ان کی تازہ ترین کتاب، ‘لیونگ کنٹری’ (زندہ دیہات)، جو قدیم آسٹریلوی باشندوں کے لیے ایک عمدہ ٹریول گائیڈ میں ہے، میں نے پاسکوئی نے مختلف جگہوں پر لوگوں سے ملاقاتیں کیں جن میں بریورینا کا خطہ بھی شامل ہے (یہ کڈی اسپرنگس کے قریب ہے)، اس میں قدیم آسٹریلوی باشندوں کی بیکنگ روایات دیکھنے کو مل سکتی ہیں، جو اپنی قدیم مچھلی کے جال کے لیے مشہور ہے۔

اپنی روائتی غذائی اجزا کے ساتھ پکوان تیار کرنے کی صلاحیت حاصل کرنا ہماری مجموعی خوشحالی کے لیے بہت بہتر بات ہے۔

مقامی گھاس

آسٹریلیا کی مقامی گھاسوں کے متعدد ماحولیاتی فائدے ہیں جس میں حیاتیاتی تنوع سمیت معدوم ہونے والی مقامی زندگی کی حفاظت بھی شامل ہے

آسٹریلیا کے آس پاس کے شیف (باورچی) بھی مقامی روٹی بنانے کی روایات کو زندہ کر رہے ہیں۔ ان میں سب سے اہم شخص نیوزی لینڈ میں پیدا ہونے والے مشہور شیف، بین شوری ہے، جو دیسیوں کے پکوان اور دیسی کھانوں کی پیداوار کی ترقی کی ایک آواز ہے، جس نے اپنے انمول میلبورن ریستوران اٹیکا کے مینو میں دیسی اناج کے مختلف اجزا متعارف کرائے ہیں۔

شوری نے کہا کہ ‘وہ حیرت انگیز حد تک متنوع ہیں۔ مثال کے طور پر ببول کے بیج کی دالیں لیں۔۔۔ وہ نہ صرف روٹی بنانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں، بلکہ وہ جو کی طرح یا بھیگے چاول کی طرح پکا کر حیرت انگیز مزا دیتے ہیں۔’

مشرقی وکٹوریہ کے علاقے آربوسٹ میں مقامی قدیم باشندوں کے اناج سے شراب بھی کشید کی ہوتی ہے، جو آپ کو اس راستے میں آنے والی جھیل کے قریب دستیاب ہو جائے گی جسے پاسکوئی کی کٹی دیسی گھاس کے بیجوں کے ساتھ تیار کیا گیا اور اسے مقامی بیکری میں بنایا گیا ہے۔۔۔۔ جسے ‘ڈارکو ایمو’ کہا جاتا ہے جس کا ذکر پاسکوئی کی معروف کتاب میں کیا گیا ہے۔

بہت سے غیر مقامی آسٹریلوی باشندوں کی طرح میں نے بھی بہت سے کیمپنگ ٹرپ کے دوران کوکنگ ڈمپر کو کھلی آگ پر بنتے دیکھا ہے، ماضی قریب تک میں اس سے بے خبر تھی کہ بنجو کی نظموں کے مقابلے میں یہ روایت بہت پیچھے تک جاتی ہے۔

لہذا اگلی بار جب میں گرم، تیز تیز مزے دار جنگلی شہد میں ڈوبا ہوا تازہ بیکڈ ڈیمپر کو کھانے لگوں گی، تو میں اسے ایجاد کرنے والے قدیم آسٹریلوی باشندوں کے سامنے اپنے احترام کا اظہار کروں گی۔

اور خمیر والے آٹے کو بھلا دیں۔ اگر یہ آسٹریلوی دیسی آٹا سپر مارکیٹ کی شیلفز میں پہنچ جاتا ہے تو میں دنیا کے سب سے قدیم روٹی کے نسخے میں بننے والے پکوان دیکھوں گی۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.