دفاعی ضرورت یا فوجی طاقت بننے کی خواہش: انڈیا اتنے ہتھیار کیوں خرید رہا ہے؟

پاکستان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

انڈیا نے حال ہی میں رفال طیارے خریدے ہیں

  • مصنف, شکیل اختر
  • عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، نئی دہلی

ہتھیاروں کی درآمد میں 11 فیصد کمی آنے کے باوجود انڈیا گذشتہ پانچ برس سے دنیا میں ہتھیاروں کا سب سے بڑا خریدار ہے۔

دنیا بھر میں ہتھیاروں کی خرید و فروخت کی تحقیق کرنے والے ادارے سٹاک ہوم انٹرنیشل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ (سیپری) کی سالانہ رپورٹ کے مطابق گذشتہ سال کے دوران پوری دنیا میں فروخت ہونے والے ہتھیاروں کا 11 فیصد اکیلے انڈیا نے خریدا۔

سیپری کی رپورٹ کے مطابق انڈیا کی جانب سے ہتھیاروں کی اتنی زیادہ مانگ کی وجہ چین اور پاکستان سے اس کی سرحدی کشیدگی ہے۔

مئی 2020 میں وادی گلوان میں ٹکراؤ کے بعد انڈیا کی چین سے کشیدگی بہت بڑھ گئی اور سرحدوں پر بڑی تعداد میں فوجی تعینات جبکہ ہتھیار نصب کیے گئے ہیں۔

انڈیا یہ ہتھیار خرید کہاں سے رہا ہے، یہ بھی اہم سوال ہے۔ رپورٹ کے مطابق روس 2013 سے 2022 تک انڈیا کو ہتھیار فراہم کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے حالانکہ اب یہ حصہ 64 فیصد سے کم ہو کر 45 فیصد پر آ گیا ہے۔

سیپری کی اسی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ سنہ 2018 سے 2022 کے دوران پاکستان کی ہتھیاروں کی خریداری میں 14 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

رپورٹ کے مطابق ’ہتھیاروں کی عالمی فروخت میں پاکستان کا حصہ 3.7 فیصد ہے جبکہ پاکستان کے 77 فیصد جنگی ساز وسامان کی سپلائی چین سے ہوتی ہے۔‘

رپورٹ کے مطابق انڈیا کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ ہتھیار خریدنے والا ملک قطر اور ہتھیار فروخت کرنے والا سب سے بڑا ملک امریکہ ہے۔

انڈیا، ہتھیار

،تصویر کا ذریعہGetty Images

’انڈیا کی بیرون ملک بننے والے ہتھیاروں پر انحصار کم کرنے کی کوشش‘

گذشتہ مہینے انڈیا کی وزارت دفاع کے جونئیر وزیر اجے بھٹ نے پارلیمان کو آگاہ کیا تھا کہ گذشتہ پانچ برس میں انڈیا نے امریکہ، روس، فرانس، اسرائیل اور سپین جیسے ممالک سے تقر یباً 24 ارب ڈالر کے جنگی جہاز، ہیلی کاپٹر، میزائل، راکٹ، سالٹ رائفلز اور گولہ بارود خریدے ہیں۔ اس میں فرانس سے خریدے گئے 8 ارب ڈالر کے رفال جنگی جہازوں کو شامل نہیں کیا گیا تھا۔

مودی حکومت نے گذشتہ پانچ برس سے ’آتم نربھر بھارت‘ پروگرام کے تحت پرائیوٹ کمپنیوں کے ساتھ ملک کے اندر ہی مختلف اقسام کے ہتھیار بنانے کی مہم شروع کی ہے۔ پرائیوٹ کمپنیاں غیر ملکی کمپنیوں کے اشتراک سے ہتھیار اب ملک میں بھی بنا رہی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

حکومت نے رواں برس کے دفاعی بجٹ میں تقر یباً 12 ارب ڈالر ملک میں بننے والے ہتھیاروں کی خریداری کے لیے مختص کیے ہیں۔ حکومت کی کوشش ہے کہ وہ آنے والے برسوں میں بیرون ملک بننے والے ہتھیاروں پر انحصار کم کر سکے۔

گذشتہ پیر کو اجے بھٹ نے راجیہ سبھا میں ایک تحریری جواب میں بتایا تھا کہ دوسرے ممالک سے ہتھیاروں کی خریداری پر ہونے والے اخرات 46 فیصد سے کم ہو کر 37 فیصد پر آ گئے ہیں لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ انڈیا کی فوج بہت بڑی ہے اور انڈیا کو ابھی مزید کئی برس دوسرے ممالک سے جنگی ساز وسامان درآمد کرنا پڑے گا۔

انڈیا، ہتھیار

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

انڈین حکومت کی کوشش ہے کہ وہ آنے والے برسوں میں بیرون ملک بننے والے ہتھیاروں پر انحصار کم کر سکے

دفاعی تجزیہ کار راہل بیدی نے ایک دفاعی ماہر کا حوالہ دیتے ہوئے بی بی سی کو بتایا کہ انڈیا اپنی فضائیہ کے لیے 114 جنگی طیارے خریدنے کی تیاری کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ حال میں سمندر میں اتارے گئے اور انڈیا میں بنائے گئے طیارہ بردار جہاز ’آئی این ایس وکرانت‘ کے لیے بحریہ کو بھی 26 طیاروں کی ضرورت ہے۔ ان کی مجموعی مالیت تقریباً 45 ارب ڈالر کے قریب ہے۔

راہل بیدی نے مزید بتایا کہ انڈیا اس کے علاوہ امریکہ سے 18 پریڈیٹر آرمڈ ڈرون خریدنے کے لیے بھی بات چیت کر رہا ہے۔

راہل بیدی کا کہنا ہے ہتھیاروں کی خریداری میں انڈیا کا انحصار روس پر بہت زیادہ رہا لیکن پچھلے کئی برس سے وہ اس انحصار کو کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن روسی ہتھیاروں کو بڑی حد تک ہٹانے میں ایک طویل عرصہ درکار ہو گا۔

ان کے خیال میں انڈیا میں جو ساز و سامان بنائے جا رہے ہیں ان میں دیسی ٹیکنالوجی کا استعمال بہت کم ہے۔ اس کے بیشتر آلات باہر سے آتے ہیں یا پھر یہ ساز وسامان لائسنس لے کر انڈیا میں بنائے جا رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے:

انڈیا، ہتھیار

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

گزشتہ پانچ برس میں انڈیا نے امریکہ، روس، فرانس، اسرائیل اور سپین سے تقر یباً 24 ارب ڈالر کے جنگی جہاز، ہیلی کاپٹر، میزائل، راکٹ، سالٹ رائفلز اور گولہ بارود خریدے ہیں

انڈیا اتنے ہتھیار کیوں خرید رہا ہے؟

انڈیا آخر اتنے ہتھیار کیوں خرید رہا ہے؟ کیا وہ اقتصادی ترقی کے ساتھ ساتھ ایک فوجی طاقت بھی بننا چاہتا ہے؟

اس بارے میں تحزیہ کار راہل بیدی کہتے ہیں کہ ’سیپری نے بھی اپنی رپورٹ میں ذکر کیا کہ ہتھیاروں کی مانگ چین اور پاکستان سے بڑھتی ہوئی کشیدگی کے سبب زیادہ ہو گئی ہے اور یہی اصل وجہ ہے۔ انڈیا میں جکومتی سطح پر یہ سوچ ضرور ہے کہ اگر آپ کے پاس طاقت نہیں تو آپ کی کوئی نہیں سنے گا۔‘

’اس لیے موجودہ حکومت فوجی طاقت بننے کی کوشش ضرور کر رہی ہے لیکن انڈیا کی عسکری پالیسی بنیادی طور پر دفاعی نوعیت کی ہے جس کا مقصد محض اپنی سرحدوں کا دفاع کرنا ہے۔ ملک میں ایک قوم پرست حکومت ہونے کے باوجود تینوں افواج کی جو پالیسی اور فلسفہ ہے وہ کسی پر حملے کا نہیں بلکہ اپنا دفاع کرنے کا ہے۔‘

دفاعی جریدے ’فورس‘ کی شریک مدیر غزالہ وہاب نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’لداخ میں 2020 میں انڈیا اور چین کے فوجیوں کے درمیان ٹکراؤ کے بعد ارونا چل پردیش سے لے کر لداخ تک چین ہند سرحد پر شدید کشیدگی ہے۔ ہتھیاروں کی بڑے پیمانے پر خریداری کا سبب یہی بدلی ہوئی صورتحال ہے۔‘

’ساتھ ہی انڈیا میں فوج بھی وسیع پیمانے پر جدیدکاری کے مرحلے سے گزر رہی ہے۔ اس کی پالیسی بنیادی طور پر اپنی سرحدوں کا دفاع کرنا ہے۔ اس میں جارحیت کا پہلو نظر نہیں آتا۔ کسی ملک پر حملہ کرنے کے لیے بہت بڑی فوجی قوت ہونی چاہیے۔ ساتھ ہی جوابی حملے کا جواب دینے کا سارا انتظام ہونا چاہیے۔ انڈیا میں اس طرح کی تیاری نظر نہیں آتی۔‘

غزالہ وہاب کا مزید کہنا ہے کہ جی ڈی پی کے حصے کے طور پر بھی انڈیا کا دفاعی بجٹ بڑے ملکوں کے مقابلے بہت کم ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ