کراچی سے لاپتہ ہونے والی لڑکی دعا زہرہ کو سخت سیکیورٹی میں لاہور کی ماڈل ٹاؤن کچہری میں پیش کیا گیا، جہاں اس نے اپنا بیان قلم بند کرا دیا، عدالت نے حکم میں کہا کہ دعا زہرہ جہاں جانا چاہے جا سکتی ہے۔
خواتین پولیس اہلکار دعا زہرہ کو لے کر عدالت میں پیش ہوئیں۔
جوڈیشل مجسٹریٹ تصور اقبال کی عدالت میں دعا زہرہ نے اپنا بیان قلم بند کرایا۔
لڑکی کے بیان قلم بند کراتے وقت اس کے شوہر ظہیر کو کمرۂ عدالت سے باہر جانے کا کہا گیا۔
جس کے بعد پولیس اہلکار ظہیر کو لے کر کمرۂ عدالت سے باہر آ گئے۔
جوڈیشل مجسٹریٹ تصور اقبال کے روبرو قلم بند کرائے گئے بیان میں دعا زہرہ کا کہنا ہے کہ میں 18 سال کی ہوں، کراچی سے لاہور اپنی مرضی سے آئی۔
دعا زہرہ نے بیان میں کہا ہے کہ مجھے کسی نے اغواء نہیں کیا، دارالامان نہیں جانا چاہتی، میں محفوظ ہوں اور میری جان کو کوئی خطرہ نہیں۔
قلم بند کرائے گئے بیان میں دعا زہرہ نے یہ بھی کہا ہے کہ کسی نے مجھے اغواء نہیں کیا، اپنی مرضی سے نکاح کیا، خاوند کے ساتھ خوش ہوں۔
اس موقع پر پولیس نے جوڈیشل مجسٹریٹ سے استدعا کی کہ بچی کو دارالامان بھیجا جائے۔
عدالت نے حکم میں کہا کہ لڑکی جہاں جانا چاہتی ہے، جا سکتی ہے۔
پولیس کے مطابق دعا زہرہ اور ظہیر احمد کو عدالت میں پیش کرنے کے بعد جانے دیا گیا ہے۔
پولیس نے بتایا ہے کہ ظہیر احمد کی والدہ اور ایک بھائی پنجاب یونیورسٹی میں بطور کلرک کام کرتے ہیں۔
Comments are closed.