لاہور میں دریائے راوی پر ریت کے ٹھیکوں میں مبینہ بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔
ٹھیکیدار این او سی کے بغیر ریت نکالنے میں مصروف ہیں، ٹھیکیدار کے خلاف کارروائی کے لئے محکمہ ماحولیات اور معدنیات ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈالنے لگے۔
خصوصی مشین کے ذریعے زیر زمین ریت نکالنے سے سگیاں اور موٹر وے پل کو نقصان کا خدشہ پیدا ہوگیا۔
محکمہ معدنیات دریاؤں سے ریت نکالنے کا ٹھیکہ اوپن ٹینڈرز کے ذریعے دیتاہے، محکمہ ماحولیات ٹھیکیدار کو این او سی جاری کردے تو معدنیات ورک پرمٹ جاری کرتا ہے، جس کے بعد دریا سے ریت نکالنے کی اجازت مل جاتی ہے۔ لیکن سگیاں پل کے قریب 475 ایکڑ رقبے پر ٹھیکیدار نے ملازمین کی ملی بھگت اور این او سی کے بغیر ہی20 سے 30 فٹ گہرائی تک ریت نکالنا شروع کر دی۔
محکمہ ماحولیات کے سیکرٹری زاہد حسین کا کہنا ہے کہ تاحال کسی ٹھیکیدار نے این او سی کے لئے درخواست دی نہ کسی کو این او سی جاری کیا گیا ہے، اگر کوئی این او سی اور ورک پرمٹ کے بغیر ریت نکال رہا ہے تو محکمہ معدنیات کو کارروائی کرنی چاہیے۔
ٹرالیوں کے ذریعے ریت فروخت کرنے والے محنت کشوں کا کہنا ہے کہ انہیں دریا سے 17 سو سے 18 سو روپے میں ریت کی ایک ٹرالی ملتی ہے اور وہ اسے مارکیٹ میں تین سے چار ہزار روپے میں فروخت کرتے ہیں۔
محکمہ معدنیات کے مطابق این او سی کے بغیر ڈریجر مشین کا استعمال غیر قانونی ہے۔
محکمہ ماحولیات کا کہنا ہے کہ این او سی کے بغیر ڈریجر مشین کا استعمال رکوانا محکمہ معدنیات کی ذمہ داری ہے، وہ انہیں ٹھیکیدار کے خلاف کارروائی کا کہیں گے۔
اس حوالےسے ٹھیکیدار سے موقف کے لئے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے انکار کر دیا۔ صوبے کے پانچ دریاؤں کے ریت ٹھیکوں سے محکمہ معدنیات کو سالانہ ڈھائی ارب روپے سے زائد آمدن ہوتی ہے۔
دریائے راوی سے دن رات ریت نکالنے کا سلسلہ جاری ہے، ٹھیکیدار کہتے ہیں کہ وہ کوئی غلط کام نہیں کر رہے،انہوں نے اس کام کا ٹھیکہ لے رکھا ہے۔
Comments are closed.