دانیال حسین: نوجوان جس نے ’لاٹری‘ جیتنے کی خاطر دو بہنوں کا قتل کیا
- ہیری فارلے
- بی بی سی نیوز
دانیال حسین نے وعدہ کیا تھا کہ وہ لاٹری جیتنے کے بدلے خواتین کی ‘قربانی’ دیں گے
دانیال حسین ابھی اٹھارہ برس کے ہوئے ہی تھے کہ انھوں نے دو بہنوں نکول سمالمین اور بلبا ہنری کو ایک پارک میں حملہ کر کے ہلاک کر دیا تھا۔ دونوں بہنیں وہاں برتھ ڈے پارٹی منا رہی تھیں۔ مگر دانیال حسین نے ایسا وحشیانہ جرم کیوں کیا؟
یکم جولائی 2020 کو جب پولیس لندن کے علاقے بلیک ہیتھ کے ایک گھر کا دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوئی تو انھیں ایک تحریر ملی جس میں دانیال حسین نے ’کسی شیطان کے ساتھ ایک معاہدہ کر رکھا تھا۔‘
بچگانہ انداز میں لکھی گئی تحریر میں دانیال حسین نے یہ عہد کیا کہ وہ جب تک آزاد ہیں اور جسمانی طور پر اس قابل ہیں تو وہ چھ ماہ میں چھ عورتوں کی ’قربانی دیں گے۔‘
اس معاہدہ کی ہیڈلائن تھی: ’فار دی مائیٹی کنگ لوسیفیوج روفوکال۔‘ شیطانی مسلکوں کے مطابق لوسیفیوج روفوکال جنہم کی حکومت کے خزانے کا انچارج ہے۔
اس قربانی کے ثمرات میں دانیال حسین کو میگا لاٹری جیتنا تھی اور طاقت اور دولت سے مالا مال ہونا تھا۔
اس معاہدے کے اختتام پر دانیال حسین نے اپنے خون سے دستخط کیے اور لوسیفیوج روفوکال کے دستخط کی جگہ خالی چھوڑ دی۔
،تصویر کا ذریعہMet Police
دانیال حسین نے ’شیطان کے ساتھ معاہدے پر اپنے خون سے دستخط کیے‘
دانیال حسین جنوب مشرقی لندن کے علاقے بلیک ہیتھ میں بڑے ہوئے۔ وہ چار بہن بھائیوں میں سے سب سے بڑے ہیں۔ دانیال حسین نے تھامس ٹالس سکول میں تعلیم حاصل کی اور پھر او لیول کے لیے اورپنگٹن کالج میں داخلہ لیا لیکن وہ وہاں کبھی کبھار ہی جاتے تھے۔
ان کے پڑوسیوں کا کہنا ہے کہ دانیال کا تعلق ایک مشکلات کا شکار خاندان سے تھا جہاں سے اکثر چیخنے چلانے کی آوازیں آتی تھیں اور جب ان کی عمر 14 برس تھی تو ان کے والدین میں علیحدگی ہو گئی۔
ان کے ایک پڑوسی نے بی بی سی کو اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ دو تین بار ان کے گھر پولیس اور ایمبولینس بھی آئی تھی۔
دانیال حسین ایک تنہائی پسند نوجوان تھے جو اکثر غائب رہتے۔ ان کے ایک پڑوسی نے بتایا کہ دانیال حسین کے والد کمال حسین پریشان تھے کہ ان کا بیٹا غلط لوگوں کی صحبت میں چلا گیا ہے۔ ’انھوں نے کہا کہ میں دانیال کے بارے میں پریشان ہوں کیونکہ اسے غلط راہ پر لے جایا جا رہا ہے۔‘
بلبا ہنری (بائیں جانب) اپنی بہن نکول سمالمین کے ساتھ اپنی چھیالیسویں سالگرہ منا رہی تھیں جب ان پر حملہ ہوا
یہ واضح نہیں ہے کہ دانیال حسین کے والد کے خدشات کیا تھے۔
اکتوبر 2017 میں جب دانیال کی عمر پندرہ برس تھی تو انھیں انسداد شدت پسندی کے پروگرام میں رپورٹ کیا گیا۔ تھامس ٹیلس سکول کی جانب سے انھیں رپورٹ کرنے کی وجہ سکول کے کمپیوٹر سے انتہائی دائیں بازو کے نظریات سے متعلق مواد تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش تھی۔
یہ بھی پڑھیے
دانیال حسین کو ایسا شخص تصور کیا گیا جس کے رجحانات خطرناک ہیں۔ وہ ایک ایسے پینل کے سامنے بھی پیش ہوئے جہاں ایسے لوگوں کے ذہنی رجحانات کو پرکھا جاتا ہے جو دہشتگردی کی سمت میں جا رہے ہوں۔
دانیال حسین کو مئی 2018 میں اس پروگرام سے خارج کر دیا گیا لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شدت پسندی کے نظریات ان میں موجود رہے۔
پولیس نے دانیال حسین کی گرفتاری کے بعد جب ان کے ٹیبلٹ کمپیوٹر کا جائزہ لیا تو انھیں معلوم ہوا کہ وہ کچھ ایسی ویب سائٹس پر بھی جاتے تھے جہاں ’شیطانی نظریات‘ پر بات ہوتی تھی۔ انھوں نے کچھ جادوئی دوا بنانے کے بارے میں بھی تحقیق کی تھی۔ پولیس کو یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ وہ انتہائی دائیں بازو کے نظریات کے بارے میں ریسرچ کر رہے تھے۔
وہ خود کو بظاہر آریائی نسل سے سمجھتے تھے۔
شیطانی اور انتہائی دائیں بازو کے نظریات
تجزیہ: ڈینیل ڈی سمیونے
بی بی سی ہوم آفیئر نامہ نگار
شیطان پرستی اور انتہائی دائیں بازو کے نظریات کے کچھ دھاروں کا آپس میں ملاپ ہوتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ دانیال حسین کا نظریاتی سفر اتنا انوکھا نہیں جتنا یہ لگتا ہے۔
ان دونوں نظریات میں عورتوں سے نفرت ایک مشترکہ دھارا ہے جس سے بہت ہی زہریلے نظریات جنم لیتے ہیں۔
2019 سے چھ نوجوان جن میں سے پانچ کی عمریں 13 سے 19 برس کے درمیان تھیں وہ انتہائی دائیں بازو کے ایسے دہشتگردانہ جرائم کی پاداش میں سزا پا چکے ہیں جو شیطانیت کی پُرتشدد شکل سے جڑے ہوئے تھے۔
دو نیو نازی دہشتگرد گروپ جن پر پابندی عائد کی گئی ہے وہ بھی ان نظریات کا پرچار کرتے رہے ہیں۔
ایک نوجوان جسے 2019 میں دہشتگردانہ حملے کی منصوبہ بندی کے جرم میں سزا سنائی گئی ہے اس نے بھی جنگل میں عورتوں کی تلاش کے بارے میں کچھ تحریر کیا تھا اور اس تحریر میں بھی ایسے جرائم کی نشانیاں تھیں جو دانیال حسین کی تحریر میں ملتی ہیں۔
ماہرین کے مطابق بعض لوگ مخصوص آن لائن پلیٹ فارمز پر انتہائی دائیں بازو کے نظریات کے ساتھ ساتھ پُرتشدد خیالات سے متاثر ہوتے ہیں جن میں انسانی فطرت کے بدترین عناصر کی طرف مائل کیا جاتا ہے۔
پولیس کو حسین کے بیڈروم میں ایک ہاتھ سے لکھا خط ملا جس میں ’خون نکال کر سکول میں ایک لڑکی کو اپنی محبت میں مبتلا کرنے‘ کی تجویز دی گئی ہے۔
اس پر ’دانیال‘ کے دستخط ہیں اور اس میں کوئین بیلتھ کو مخاطب کیا گیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ لڑکی ’یہ دیکھ کر جان جائے گی کہ میں اس لیے واحد شخص ہوں‘ اور وہ ’خواتین کے لیے رومانوی طور پر زیادہ پُرکشش بن جائیں گے۔‘
اس کے بدلے انھوں نے وعدہ کیا کہ وہ ’ان کے نام پر لوبان جلائیں گے، میٹھے مشروب، چاکلیٹ اور کچھ خون کی پیشکش کریں گے۔‘
پولیس کو حسین کے بیڈروم میں لاٹری کی ٹکٹیں ملیں
ڈپٹی چیف انسپیکٹر سائمن ہارڈنگ نے اس تحقیقات کی سربراہی کی۔ ان کا کہنا ہے کہ ہاتھ سے لکھے ان خطوط میں ’حیرت انگیز جرم کی طرف مائل کیا گیا۔‘ انھوں نے دانیال کو ایک ’بہت، بہت خطرناک اور شریر شخص‘ قرار دیا ہے۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’مجھے یقین ہے کہ وہ مزید لوگوں کو قتل کرتے۔ اس رات اندھیرے میں دانیال حسین نے جس سطح کا تشدد اور وحشیانہ پن دکھایا اس سے آپ سہم جاتے ہیں۔‘
اس رات حسین مزید خواتین کو قتل نہیں کرسکے کیونکہ ہنری اور سمالمین پر وحشیانہ حملے میں ان کے دائیں بازو پر زخم آیا تھا۔
اس زخم اور جائے وقوعہ پر ڈی این اے کی مدد سے پولیس نے انھیں ٹریس کر لیا۔
حملے کے دوران 19 سالہ حملہ آور حسین کے ہاتھ پر زخم آیا تھا جس کی مدد سے پولیس نے انھیں ٹریس کیا
دونوں بہنوں کی لاشیں ملنے کے قریب ایک ماہ بعد حسین کے گھر پر چھاپہ مارا گیا جو شمال مغربی لندن کے علاقے ویمبلی میں فریئنٹ کنٹری پارک میں واقع ہے۔
جائے وقوعہ پر بڑی تعداد میں ایک مرد کا ڈی این اے ملا تھا جو کسی متاثرہ شخص کا نہیں تھا۔ قتل کے 23 دن بعد پولیس کے ڈیٹا بیس میں اس سے ملتا جلتا ڈی این اے ڈھونڈ لیا گیا۔
اس ڈی این اے کو پہلے ’نامعلوم‘ قرار دیا گیا مگر پھر یہ تصدیق ہوگئی کہ یہ دانیال حسین کا ہے۔ یکم جولائی کی صبح ان کے گھر پر چھاپہ مارا گیا۔
حسین کے بیڈ روم میں جادو ٹونے کی علامات ملیں
پولیس کو ایسا کوئی شواہد نہیں ملے کہ جرم میں کوئی اور بھی ملوث تھا۔ حسین ڈارک ویب پر بہت زیادہ وقت گزارتے تھے اور انھوں نے اب تک اپنے آئی پیڈ تک رسائی کے لیے تفتیش کاروں سے تعاون نہیں کیا۔
ہارڈنگ کہتے ہیں کہ افسران یہ نہیں جان سکے کہ حسین نے کس سے بات کی تھی۔
’اگر حسین اپنے سے ملتے جلتے خیالات والے کسی شخص سے رابطے میں تھے تو ہم جاننا چاہتے ہیں کہ وہ کس سے بات کر رہے تھے۔ ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ کون لوگ ایسا کرنے کے لیے مائل کررہے ہیں۔‘
’کسی قتل کی تحقیقات اس طرح کرنا کہ آپ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہوں کافی پریشان کن ہوسکتا ہے۔‘
تاہم ان کا کہنا ہے کہ یہ تاثر ملا ہے کہ حسین خود سے اس جرم کے مرتکب ہوئے۔
ہارڈنگ کے مطابق ’ہمیں اب تک کسی ایسے شخص کا علم نہیں ہوا جس نے دانیال حسین کو متاثر کیا ہو۔ انھوں نے ہی اپنے خون سے لکھے اس معاہدے کو تشکیل دیا اور اس پر دستخط کیے۔ وہ وہاں تنہا گئے اور ان دو خواتین کو قتل کیا۔‘
تاہم پولیس تسلیم کرتی ہے کہ ٹیکنالوجی کمپنیوں یا حسین کی جانب سے مدد کے بغیر وہ مکمل کہانی نہیں جان سکیں گے۔
Comments are closed.