بلوچستان میں خشک سالی نے ایک بار پھر خطرے کی گھنٹیاں بجادی ہیں، صوبے کے خشک سالی سے متاثرہ اضلاع میں چاغی ،خاران ،واشک ،آواران ، اورمکران کے علاقے ہیں جہاں زیر زمین پانی کی سطح گرنے سے خشک سالی کے سائے گہرے ہونے لگے۔
ان اضلاع میں ایک بار پھر قدرتی چراہ گاہوں میں پانی، خوراک اور چارہ ناپید ہوتاجارہا ہے، اس سے قبل 1997سے 2002 میں صوبے کے متعدد اضلاع خشک سالی کی لپیٹ میں رہے ہیں۔
دنیا میں آنے والی موسمیاتی تبدیلیوں سے بلوچستان کی سرزمین بھی متاثر ہو رہی ہے، ماہرین ارضیات کا کہنا ہے کہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں ڈیمز کی تعمیر اور جنگلات اگانے سے ہی صوبے کی زمین کو سر سبز و شاداب کیا جاسکتا ہے۔
اس حوالے سے رکن بلوچستان اسمبلی ثنا اللہ بلوچ کا کہنا ہے کہ خشک سالی سے بلوچستان بہت زیادہ متاثر ہوگا، بلوچستان میں آٹھ نو سال پہلے بھی خشک سالی کا ایک بہت بڑا اسپیل گزرا جس نے بلوچستان کی معشیت ،مالیات اور تجارت کو بہت نقصان پہنچا یا۔
وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے موسمیاتی تبدیلی ملک امین اسلم کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں بلوچستان میں ایک طرف بارشیں کم ہورہی ہیں تو دوسری جانب مناسب تعداد میں ڈیمز نہ ہونےسے برساتی پانی ضائع ہوجاتاہے ۔
انہوں نے کہا کہ صوبائی اور وفاقی حکومتوں کے دعوے ہیں کہ بلوچستان میں خشک سالی کے مسئلے پر قابو پانے کیلئے سو ڈیمز کی تعمیر کے منصوبے پر کام جاری ہے۔
ملک امین اسلم نے کہا کہ بلوچستان میں پہاڑی نالے ہیں چٹیل پہاڑوں پر ہونے والی بارش کا پانی آتا ہے مگر وہ اسٹور نہیں ہوتا ہے وہ پانی بہہ جاتا ہے اس پانی کو اسٹور کرنے کیلئے ری چارج پاکستان منصوبہ لارہے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بلوچستان سے خشک سالی کے اثرات کم کرکے بنجر ہوتی زمین کو دوبارہ لہلہاتے کھیت کھلیانوں میں تبدیل کرنے کے لیے ڈیمز کی تعمیر اور جنگلات اگانے ہوں گے مگر اسے رقبے کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے کی بدقسمتی کہیں کہ وفاقی حکومت کے بلین ٹری سونامی میں سب سے کم درخت بلوچستان میں لگائے جا رہے ہیں۔
Comments are closed.