بیجنگ: باسی کھانے، پھل، سبزیوں اور جان لیوا اعصابی گیسوں کی منٹوں میں شناخت کرنے والا ایک دستی قلم بنایا گیا ہے جس کی نِب ان گیسوں کی موجودگی میں رنگ بدلتی ہے۔
بالخصوص جنگوں یا حملوں میں اعصابی ایجنٹ گیس استعمال کی جاتی ہے جن کی بو اور رنگت نہیں ہوتی۔ اسی طرح کھانے پینے کی بہت سی اشیا خراب ہونے پر بھی گیس کے بخارات خارج کرتی ہیں جنہیں ہم سونگھ نہیں سکتے۔
اس پین کو چین مین شینزن انسٹی ٹیوٹ آف ایڈوانسڈ اسٹڈیز نے کئی اداروں کے تعاون سے تیار کیا ہے۔ اس کا اولین نمونہ (پروٹوٹائپ) دیکھنے میں سرنج کی طرح لگتا ہے اور بہت کم خرچ اور مؤثر بھی ہے۔ یہ اپنے خواص کی بنا پر مضر کیمیکل کی انتہائی معمولی مقدار بھی نوٹ کرسکتا ہے۔
اس طرح کے سینسر عام طور پر ایگریگیشن انڈیوسڈ ایمیشن فلوروجین (ایل ای جینس) استعمال کرتے ہیں اور مضر کیمیکل ان سے چپکنے کے بعد ایک طرح کی رنگ دار روشنی خارج کرنے لگتے ہیں لیکن اب سے قبل یہ سارے نظام مائعات (لیکوئیڈ) پر مبنی تھے۔
اب ژی جیاؤ، پینگفانگ زینگ، ہیاتو فینگ، بین زونگ ٹینگ اور دیگر ساتھیوں نے ایل ای جینس کو ٹھوس شکل دی ہے اور اسے ایک سوئی کی نوک پر لگایا ہے۔ جیسے ہی کوئی گیس خارج ہوتی ہے یا کسی غذا کے سڑنے سے بخارات نکلتے ہیں اس کا سرا روشن ہوجاتا ہے۔
اس کے بعد دو عدد پروٹوٹائپ پین بنائے گئے جن میں سے ایک ڈی ایتھائل کلوروفاسفائیٹ (ڈی سی پی) نامی زہریلی گیس کی شناخت کرسکتا ہے جبکہ دوسرا امائن سینسر ہے۔ دونوں نصف گھنٹے میں رنگ بدل کر زہریلی گیس کی موجودگی ظاہر کرسکتے ہیں۔ اس کے بعد مزید تحقیق کرکے امائن شناخت کرنے والے سینسر کا دورانیہ پانچ منٹ تک لایا جاچکا ہے۔
واضح رہے کہ مچھلی معمولی بھی پرانی ہوگی تو امائن سینسر اسے فوری طور پر شناخت کرلے گا۔ اگلے مرحلے میں مختلف کھانوں کی خرابی نوٹ کرنے والے مختلف سینسر تیار کیے جائیں گے۔
Comments are closed.