حمید بلوچ: وہ نوجوان جس نے ’کرائے کے سپاہیوں‘ کی بھرتی کے لیے آئے عمانی کرنل پر گولی چلائی

حمید بلوچ

  • مصنف, ریاض سہیل
  • عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی

صبح نو یا دس بجے کا وقت تھا۔ نوجوان قطار میں کیمپ کے باہر موجود تھے جن کو ایک عمانی فوجی افسر نے منتخب یا مسترد کرنا تھا۔

مکران ریجن میں یہ کوئی پہلی بار نہیں ہو رہا تھا۔ اس سے قبل بھی اسی طرح نوجوانوں کا انتخاب کیا جاتا رہا تھا۔

اچانک دو فائر ہوئے اور وہاں موجود پولیس نے ایک نوجوان کو گرفتار کر لیا۔ یہ نوجوان سمندر پار عمان میں انقلابی تحریک سے یکجہتی ظاہر کرنے آیا تھا۔ اس مزاحمت کا انجام 11 جون 1981 کو پھانسی کے پھندے پر ہوا۔

یہ 22 سالہ نوجوان حمید بلوچ تھا جس نے عمانی فوج کے لیے بھرتی کیمپ پر حملہ کیا تھا۔ وہ بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) کا رہنما تھا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ایک مقامی اقدام تھا یا یہ خطے میں جاری انقلابی تحریکوں کا تسلسل تھا۔

کیچ سے کابل تک نظریاتی اثرات

حمید بلوچ کی پیدائش ڈسٹرکٹ کیچ کے گاؤں کنچتی میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم نودز میں حاصل کی، اس کے بعد ہائی سکول تربت سے میٹرک کیا اور کوئٹہ کالج سے انٹر کے بعد وہ 1978 میں افغانستان چلا گیا جہاں اس نے کابل یونیورسٹی کے شعبے انجینیئرنگ میں داخلہ لیا۔

ثور انقلاب کے بعد افغانستان کے کچھ حصوں میں کمیونسٹ حکومت قائم ہو چکی تھی، جو روس کے زیر اثر تھی۔ پاکستان میں بائیں بازو کی ترقی پسند اور قوم پرست جماعتوں کے لیے افغانستان تربیت گاہ اور پناہ گاہ بن گیا تھا جہاں کئی انقلابی ان دنوں اکٹھا ہوئے۔

حمید بلوچ، بی ایس او سے وابستہ تھے۔ انھوں نے دیگر قومی انقلابی پارٹیوں کا بھی مطالعہ کیا تھا۔ بلوچستان میں چند سال قبل ہی نیپ (نیشنل عوامی پارٹی) کی منتخب حکومت برطرف کی گئی تھی جس کے وزیر اعلیٰ عطااللہ مینگل اور گورنر غوث بخش بزنجو تھے۔ اس کے نتیجے میں شورش کی ایک نئی لہر نے جنم لیا تھا۔

ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے نیپ کی قیادت کو گرفتار کر لیا اور ان پر مقدمہ چلایا جو تاریخ کے ابواب میں حیدر آباد سازش کیس کے نام سے موجود ہے۔

سنہ 1977 میں جب جنرل ضیاالحق نے مارشل لا نافذ کیا تو انھوں نے حیدر آباد سازش کیس کو ختم کر کے تمام بلوچ رہنماؤں کو رہا کر دیا۔

ادبی علمی گھرانے سے تعلق رکھنے والے حمید بلوچ نے جب جوانی اور شعور کی دہلیز پر قدم رکھا تو بلوچستان میں یہ سیاسی تبدیلیاں رونما ہو چکی تھیں۔

حمید بلوچ

عمان میں مسلح مارکس وادی قوم پرست تحریک

عمان کے صوبے ظفار میں 1960 کی دہائی میں مسلح انقلابی تحریک کا آغاز ہوا۔ مارکس وادی نظریے کی پیروکار اس تنظیم کا مقصد بادشاہت کا خاتمہ اور عوامی راج کا نفاذ تھا۔ یہ تحریک عرب قوم پرستی سے بھی سرشار تھی جو خلیج سے برطانوی تسلط کا خاتمہ چاہتی تھی۔

ظفار کے لوگ مصر میں جمال ناصر کی عرب انقلابی تحریک سے متاثر تھے جو اقتدار پر قابض ہو گئے تھے اور ان کا جھکاؤ روس کی طرف تھا۔

’عمان میں مون سون انقلاب: ریپبلکن، سلطان اور سلطنتیں‘ نامی کتاب کے مصنف عبدالرزاق تکریتی لکھتے ہیں کہ جمال ناصر نے ظفار کی انقلابی آزادی کی تحریک کی حمایت کا فیصلہ کیا لیکن سوئس کینال کا تنازع کھڑا ہو گیا جس وجہ سے تعطل آگیا۔ تاہم بعد میں 1964 میں نوجوان انقلابیوں پر مشتمل ظفار لبریشن آرمی بنائی گئی جنھیں تربیت کے ساتھ ساتھ اسلحہ و بارود بھی فراہم کیا گیا۔

عمان کے شمال میں متحدہ عرب امارات، مغرب میں سعودی عرب اور جنوب مغرب میں یمن واقع ہے۔

والٹر سی لیڈ وگ آکسفورڈ یونیورسٹی کے مقالے میں لکھتے ہیں اس وقت خلیج اہمیت کا حامل تھا جہاں سے دنیا کا 30 فیصد تیل نکل رہا تھا۔ ان دنوں روایتی حکمرانوں کو عرب قوم پرست اور مارکس وادی چیلنج کر رہے تھے۔

سنہ 1967 میں برطانیہ کے علاقے سے نکل جانے کے بعد یمن میں پیپلز ڈیمو کریٹک ریپبلکن اقتدار میں آگئی جس کو بیک وقت روس اور چین دونوں کی حمایت حاصل تھی۔ اس نے اپنا انقلاب خطے میں پھیلانا شروع کیا تاکہ تمام بادشاہتوں کا خاتمہ کیا جائے۔

برٹینیکا انسائیکلو پیڈیا کے مطابق مزاحمتی تحریک نے پاپولر فرنٹ فار دی لبریشن آف عمان کا نام اختیار کیا جو مارکسسٹ عرب قوم پرست جماعت تھی۔ اس کو عوامی جمہوریہ چین، سوویت یونین، مارکسسٹ جنوبی یمن جس نے 1967 کے آخر میں برطانیہ سے آزادی حاصل کی تھی اور عراق کی مدد حاصل تھی۔

عمان کی فوج کے لیے کرائے کے سپاہی

’مون سون انقلاب‘ عمان پر عبدالرزاق تکریتی لکھتے ہیں کہ 1921 تک مسقط کے بادشاہوں کے پاس اپنی فوج نہیں تھی، وہ قبائلی لیویز اور مشرقی افریقی غلاموں پر انحصار کرتے تھے۔

وپ بحران کے وقت میں مکران کے بلوچ اور یمنی لوگوں کو بطور کرائے کے فوجی بھرتی کر لیتے تھے۔ برطانوی فوج بھی انھیں تحفظ فراہم کرتی تھی۔

والٹر سی لیڈ وگ آکسفورڈ یونیورسٹی کے مقالے میں لکھتے ہیں کہ عسکری تربیت اور تعلیم کے فقدان کی وجہ سے عمان کا انحصار غیر ملکی فوج پر رہتا تھا۔

’برطانوی افسران انفینٹری بٹالین کی قیادت کرتے تھے، سپلائی، ٹرانسپورٹ، کلریکل کام جونیئر کمیشنڈ افسر دیکھتے تھے جو پاکستان فوج سے ہوتے تھے، انٹیلی جنس کے لیے ٹیکنیکل سپورٹ، مکنیکل سپلائی برطانوی اور پاکستان کے نان کمیشنڈ افسر فراہم کرتے تھے۔‘

عمان کے سلطان سعید بن تیمور کے صرف امریکہ، برطانیہ اور پاکستان سے تعلق تھے۔ ملک میں باغیوں کے اثرات بڑھنے لگے کیونکہ نیشنل ڈیمو کریٹک فرنٹ فار لبریشن آف عمان اینڈ عربین گلف سٹیٹس نے کئی شہروں پر حملے کر دیے۔

23 جولائی کو سلطان کے اکلوتے بیٹے قابوس بن سعید نے برطانوی فوجی افسران کی مدد سے ایک خونی بغاوت کے بعد والد کو سبکدوش کر کے اقتدار پر قبضے کر لیا۔ سلطان قابوس نے اپنی ابتدائی تعلیم عمان میں حاصل کی تھی اور بعد میں مشہور برطانوی رائل ملٹری اکیڈمی سینڈہرسٹ سے پاس ہوئے تھے۔

سلطان قابوس نے اپنی فوج کو منظم کیا اور فضائیہ اور بری افواج میں جدت لائے۔

عبدالرزاق تکریتی بلوچ ان سپاہیوں کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’یہ کرائے کے سپاہی ہیں۔ جوائنگ کے وقت سلطان سے وفاداری کا حلف لیتے ہیں اور زیادہ پیسے بچانے کے لیے فوج میں شامل ہوتے ہیں۔ جب وہ اتنی رقم جمع کر لیتے ہیں جس سے ایک اچھی گھڑی لے سکیں، اونٹ خرید سکیں یا شادی کر سکیں تو وہ ریٹائرمنٹ لے لیتے ہیں۔‘

حمید بلوچ پر کتاب لکھنے والے بی ایس او کے سابق رکن خوریشد نگوری بتاتے ہیں کہ بلوچستان کے علاقوں گوادر، تربت اور پنجگور میں بھرتی کیمپ بنائے گئے اور وہاں بکرا منڈی کے مویشیوں کی طرح بلوچ نوجوانوں کو قطاروں میں کھڑا کر کے ان میں تندرست و توانا نوجوانوں کا انتخاب کیا جاتا تھا تاکہ ایک طرف سلطنت آف عمان میں موجود ظفاری تحریک کو کچلا جاسکے تو دوسری جانب بلوچ جوانوں کو بلوچ سیاسی جدوجہد سے الگ کر کے ایک تیر سے دو شکار کیے جاسکیں۔

عمان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

بلوچ عسکریت پسندوں اور ظفاریوں میں نظریاتی تعلق

عمان میں جاری انقلاب کی تحریک اور بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن میں کیا کوئی براہ راست رابطہ یا تعلق تھا؟

بی ایس او کے اس وقت کے رہنما اور بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کہتے ہیں کہ تنظیمی سطح پر کوئی رابطہ نہیں تھا تاہم اس وقت جو بھی قومی انقلابی تحریکیں تھیں ان کا نظریاتی تعلق تھا۔

’عمان میں مون سون انقلاب‘ کے مصنف عبدالرزاق تکریتی لکھتے ہیں کہ ’1970 میں ظفاری انقلابیوں نے ایک پمفلٹ شائع کیا جس میں بلوچ اور عرب سپاہی دونوں کو مخاطب کر کے کہا گیا کہ یہ جنگ آپ اپنے مفاد میں نہیں لڑ رہے بلکہ برطانیہ اور بادشاہ کے مفاد میں لڑ رہے ہیں لیکن آپ یہ جنگ نہیں جیتیں گے کیونکہ یہ عوامی جنگ ہے۔‘

شیر محمد مری عرف جنرل شیروف کی قیادت میں مارکسسٹ لیننسٹ قوم پرست جماعت، بلوچستان پیپلز لبریشن فرنٹ جو اس وقت مسلح جدوجہد میں تھی، نے اپنے تنظیمی پرچے جبل میں عمان میں جاری تحریک کی حمایت اور حکومت پاکستان کی مذمت کی تھی۔

اس پرچے میں ’بلوچستان میں انسانی خون کا سودا‘ کے عنوان سے تحریر میں لکھا گیا تھا کہ بلوچستان کے علاقے کی بدحالی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مسقط کے سلطان اور برطانیہ کے نو آبادیاتی مفادات کی حفاظت اور ظفاری عوام کی آزادی کی منصفانہ جدوجہد کو کچلنے کے لیے بلوچوں کو کرائے پر استعمال کیا جا رہا ہے۔

’ان کی غربت اور معاشی پسماندگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے استحصال کی یہ خاص شکل انسان کی تجارت کے سوا کچھ نہیں۔ تاریک دور میں انسانوں کو بازاروں میں نیلام کیا جاتا تھا، اب یہ تجارت دفاعی معاہدے کی آڑ میں کی جاتی ہے۔‘

اس جریدے کا کہنا تھا کہ حکومت پاکستان اس اقدام سے بلوچستان کی تحریک کو کمزور کرنا چاہتی ہے کیونکہ نوجوانوں کی بڑی تعداد اس میں شمولیت اختیار کر رہی ہے۔ یہ عالمی دنیا میں بلوچستان کی قومی آزادی کی تحریک کو مسخ کرنا چاہتی ہے۔ ’یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ کفار کمیونسٹوں کے خلاف جنگ ہے لیکن وہ دن دور نہیں جب انقلابی قوتیں کامیاب ہوں گی۔‘

سلیگ ایس ہریسن اپنی کتاب ’ان افغانستانز شیڈو، بلوچ نیشنل ازم اینڈ سوویت ٹیمپٹیشن‘ میں لکھتے ہیں کہ ’بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن دھڑے بندی کا شکار رہی۔ 1978 میں جب غوث بخش بزنجو ضیا سے مذاکرات چاہتے تھے، بی ایس او کے کنونشن میں بغاوت ہوگئی اور لبریشن فرنٹ کے حمایتی رازق بگٹی اور حبیب جالب کامیاب ہوگئے۔ جون 1978 میں روس کی تعاون سے ہوانا میں ہونے والی طلبہ کانفرنس میں انھیں مدعو کیا گیا لیکن حکومت پاکستان نے انھیں جانےکی اجازت نہیں دی۔‘

عمانی کرنل پر حملہ اور گرفتاری

9 دسمبر 1979 کا دن تھا۔ تربت میں سرکٹ ہاؤس کے ساتھ میدان میں عمان کی شاہی فوج میں بھرتی کے لیے کیمپ لگایا گیا تھا۔ لائنوں میں کھڑے ہوئے نوجوانوں کا معائنہ کیا جا رہا تھا۔

عمانی فوج کے کرنل خلفان ناصر اس بھرتی کے لیے تربت آئے ہوئے تھے۔ ایڈووکیٹ مبشر قیصرانی، جو حمید کے وکیل تھے، کے مطابق اس بھرتی کے لیے پاکستان حکومت کی مکمل معاونت حاصل تھی۔

ایک فائر ہوا اور پولیس نے ایک نوجوان کو گرفتار کر لیا جس کی شناخت 22 سالہ حمید بلوچ کے طور پر کی گئی جو کابل یونیورسٹی کا طالب علم تھا اور حال ہی میں واپس آیا تھا۔

قیصرانی کے مطابق حمید عمان میں ظفار کی انقلابی تحریک سے یکہجتی کا اظہار کرنا چاہتا تھا، اس نے پستول لیا اور کہا کہ ’میں کرنل کو ماروں گا۔‘ اس نے فائر کیا لیکن نشانہ خطا ہوا اور اس حملے میں کوئی زخمی یا ہلاک نہیں ہوا۔

نوجوان حمید بلوچ کو گرفتار کر کے قتل کا مقدمہ درج کیا گیا۔ ان دنوں ملٹری کورٹس قائم کی گئی تھیں۔ یہ مقدمہ بھی وہاں منتقل کردیا گیا۔

یہ بھی پڑھیے

اسداللہ بلوچ اس روز بھرتی کیمپ میں موجود تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ وہ تیسری قطار میں موجود تھے اور اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔

وہ یاد کرتے ہیں کہ ’تین فائر کی آواز آئی اور ایک بندہ گر گیا جس کے بعد بھگدڑ مچ گئی۔‘ وہ بھی اپنی موٹر سائیکل پر نکل کر واپس روانہ ہوگئے۔

قاضی نور احمد اپنی یادداشتوں ’گرے پتے‘ میں لکھتے ہیں کہ اس واقعے میں ایک شخص زخمی ہوا تھا جو مقامی تھا۔

ملٹری کورٹ سے سزائے موت

تربت میں وکیل نہ ہونے کی وجہ سے حمید بلوچ کے خاندان نے مبشر قیصرانی کی کراچی سے خدمات حاصل کیں جن کے حمید بلوچ کے خاندان سے دیرینہ تعلقات تھے۔

مبشر قیصرانی، جو موجودہ وقت نوے سال کی عمر کو پہنچ چکے ہیں، نے بی بی سی کو بتایا کہ ایف آئی آر میں ہلاک ہونے والے کا نام نہیں تھا جبکہ علامات بھی نہیں لکھی گئی تھیں جو کسی نامعلوم کی صورت میں ہوتی ہیں۔

’فوجی کورٹ میں جب چالان پیش کیا گیا تو اس میں بتایا گیا کہ غلام رسول نامی شخص مارا گیا تھا۔ مقدمہ ابھی زیر سماعت ہی تھا تو پولیس نے موقف تبدیل کیا کہ غلام رسول نہیں عبدالرزاق مارا گیا ہے اور چارج شیٹ میں نام تبدیل کر دیا گیا۔ عبدالرزاق کے ورثا آگئے، انھوں نے کہا کہ ہمارا بیٹا زندہ ہے۔ پولیس نے ایک بار پھر موقف اور نام تبدیل کیا کہ نہیں غلام رسول مارا گیا ہے۔‘

ایڈووکیٹ مبشر قیصرانی بتاتے ہیں کہ جس ڈاکٹر نے مبینہ ہلاک شخص کا پوسٹ مارٹم کیا اس سے انھوں نے سوال کیا کہ ’پوسٹ مارٹم رپورٹ کہاں تیار کی تو اس نے کہا گھر پر۔ میں نے پوچھا لاش کہاں تھی تو اس نے جواب دیا ہسپتال میں۔ تو میں نے کہا کہ آپ وکیل نہیں لیکن اتنی بات تو عام سمجھ کی ہے کہ اگر لاش ہسپتال میں ہے تو گھر سے رپورٹ کیسے بنائی جا سکتی ہے۔‘

تربت میں قائم اس ملٹری کوٹ نے مبشر قیصرانی کے دلائل سے اتفاق نہیں کیا اور 24 اکتوبر 1980 کو حمید بلوچ کو سزائے موت سنا دی۔

ایڈووکیٹ مبشر قیصرانی

ہائی کورٹ کے جج معزول کر دیے گئے

حمید بلوچ کی فیملی نے ملٹری کورٹ کی سزا کے خلاف بلوچستان ہائی کورٹ سے رجوع کیا جہاں جسٹس خدا بخش مری چیف جسٹس تھے۔

ایڈووکیٹ مبشر قیصرانی کے مطابق ایف آئی آر و چالان میں تضاد اور ناقص پوسٹ مارٹم رپورٹ کی وجہ سے عدالت نے سٹے آرڈر جاری کر دیا۔

بلوچستان کے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور گورنر لیفٹیننٹ جنرل رحیم الدین خان نے بیان دیا کہ فوجی عدالت کے حکم پر عملدرآمد کرایا جائے گا۔

ایڈووکیٹ مبشر قیصرانی کے مطابق جسٹس مری نے واضح کیا کہ اگر سزا پر عملدرآمد ہوا تو مچھ جیل کے حکام کو قانون کے کٹھرے میں کھڑا ہونا پڑے گا۔

جنرل ضیاالحق نے مارچ 1981 میں ایک عبوری آئینی حکم جاری کیا جس میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججز کے اختیارات سلب کر دیے گئے اور منتخب کردہ ججوں سے دوبارہ حلف لیا گیا جن میں جسٹس خدا بخش مری شامل نہیں تھے۔

اس عبوری آئینی حکم کے بعد فوجی عدالت کے فیصلے پر عملدرآمد کے لیے راہ ہموار ہوئی اور صرف تین ماہ کے بعد 11 جون 1981 کو حمید بلوچ کو مچھ جیل میں تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔

’جنرل بی ایس او کی طاقت دیکھنا چاہتے ہیں‘

حمید بلوچ کی رہائی کے لیے بی ایس او کی جانب سے مظاہرے بھی کیے گئے جبکہ فیملی نے بھی حکومتی سطح پر رابطے کیے۔

قاضی نور احمد اپنی یادداشتوں کی کتاب ’گرے ہوئے پتے‘ میں لکھتے ہیں کہ وہ حمید بلوچ کے ماموں کریم بخش دشتی کے ساتھ نال (خضدار کا علاقہ) میں قوم پرست رہنما میر غوث بخش بزنجو سے ملاقات کے لیے گئے۔

’میر نے بتایا کہ انھوں نے جنرل ضیاالحق کے پاس یوسف مستی خان (ان کی جماعت کے کراچی میں رہنما) کو بھیجا تھا کہ حمید بلوچ نو عمر ہے، جذبات میں آکر بہکاؤے میں یہ قدم اٹھا چکا ہے اور ملٹری کورٹ سے اس کو سزائے موت ہوئی ہے، اس کو بدل دیں اور سات سال قید کر دیں۔‘

میر غوث بخش نے انھیں مزید بتایا کہ ’جنرل صاحب نے کہا تھا کہ وہ جنرل رحیم مارشل لا ایڈمنسٹریٹر و گورنر بلوچستان سے بات کریں گے، کچھ عرصے کے بعد پیغام آیا کہ جنرل رحیم نہیں مان رہے ہیں وہ (جنرل ضیاالحق) اپنی کوشش کر چکے ہیں لیکن گورنر بضد ہے وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ بی ایس او کتنی جنگی صلاحیت رکھتی ہے۔‘

قاضی نور احمد لکھتے ہیں ’میر غوث بخش نے کہا کہ وہ بچے کو پھانسی دیں گے، جیل توڑ کر قربانی دے کر حمید کو چھڑاؤ وہ ابھی نو عمر ہے جوان ہے، اس کے مرنے کے دن نہیں۔‘

ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ جو اس وقت میر غوث بخش بزنجو کے فکر کی پیروکار جماعت کے سربراہ ہیں سے جب میں نے پوچھا کہ کیا جنرل ضیاالحق سے رابطہ کیا گیا تھا تو انھوں نے جواب دیا کہ ’شہید حمید کی رہائی کے لیے میر صاحب نے تمام کوششیں کی تھیں۔‘

jail

جیل توڑنے کی کوششیں

قاضی نور احمد اپنی کتاب ’گرے ہوئے پتے‘ میں لکھے چکے ہیں اور بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بھی انھوں نے بتایا کہ ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ تربت پہنچے اور کہا کہ حمید بلوچ کی رہائی بی ایس او کا مسئلہ ہے، وہ اس سے خود نمٹے گی۔

’ایک منصوبہ بنایا گیا کہ جب پولیس وین حمید بلوچ کو لے کر ہسپتال جائے گی تو وین پر حملہ کر کے حمید کو چھڑا لیا جائے گا۔ لیکن چند دنوں کے بعد ڈاکٹر مالک واپس چلے گئے اس کے بعد جبیب جالب چیئرمین بی ایس او کو یہ ذمہ داری دی گئی جن کا خیال تھا کہ تربت جیل کی دیوار پھلانگ کر جیل میں جائیں گے لیکن اس پر بھی عمل نہیں ہوا۔ ایک منصوبہ دھماکہ خیز مواد سے جیل کی دیوار کو اڑانا بھی تھا، جس کے تحت دھماکہ کیا گیا دیوار بھی ٹوٹی لیکن حمید کو نہیں نکال پائے اور اس کو سینٹرل جیل مچھ منتقل کر دیا گیا۔‘

ڈاکٹر عبدالمالک نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ حمید بلوچ کو چھڑانے کی متعدد کوششیں کی گئیں تھیں لیکن وہ کامیاب نہیں ہوسکی تھیں۔

بی ایس او نے حمید بلوچ کی لاش کو مچھ جیل سے ان کے آبائی گاؤں کینچنی جلوس کی صورت میں لانے کا اعلان کیا تاہم پھانسی کے بعد لاش ہیلی کاپٹر کے ذریعے کیچ منتقل کی گئی اور ورثا کے حوالے کی گئی۔

ایڈووکیٹ مبشر قیصرانی نے کہا کہ پاکستان میں حمید بلوچ کی مزاحمت کے علاوہ ایسی کوئی اور مثال نہیں ملتی جس میں کسی سیاسی کارکن نے کیس اور ملک کی آزادی کی جدوجہد کے لیے اپنے ملک میں جان دی ہو۔

BBCUrdu.com بشکریہ