سپریم کورٹ نے حمزہ شہباز کا بطور وزیر اعلیٰ یکم جولائی کا اسٹیٹس بحال کر دیا، آج سے حمزہ شہباز ایک مرتبہ پھر عبوری وزیر اعلیٰ ہوں گے، کیس کے فیصلے تک ایک ٹرسٹی کے طور پر کام کریں گے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب، ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے خلاف پرویز الہٰی کی درخواست پر سماعت ملتوی کردی گئی۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کا دفاع کس بنیاد پر کررہے ہیں؟
جس کے جواب میں عرفان قادر نے کہا کہ ہم الیکشن کمیشن کے فیصلے کی بنیاد پر دفاع کر رہے ہیں، سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا تھا کہ منحرف اراکین کےووٹ شمارنہیں ہوں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم 17 مئی کے فیصلے پر نظر ثانی نہیں کریں گے، ہمارے پاس17 مئی والا آرڈر ابھی یہاں چیلنج نہیں ہوا ہے، ڈپٹی اسپیکر نے سپریم کورٹ آرڈر کی آڑ لے کر ووٹ شمار نہیں کیے، وہ حصہ بتائیں کہاں ہے؟
عدالت نے پوچھا کہ آپ بڑےسینئر وکیل ہیں آپ کو پتہ ہوگا اسپیکر نے فیصلہ کہاں سے اخذ کیا؟
عرفان قادر نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نےسپریم کورٹ فیصلے کی روشنی میں ووٹ شمارنہ کرنا درست سمجھا، ڈپٹی اسپیکر کے پاس 2 چوائسسز تھیں، ڈپٹی اسپیکر یا تو کہتے ووٹ شمار نہیں ہوں گے یا ووٹ شمارہوگا، سپریم کورٹ نے کہا تھا پارلیمنٹری پارٹی کی ہدایت کے خلاف ووٹ شمار نہیں ہوگا۔
اس سے قبل وقفے کے بعد دوبارہ سماعت کا آغاز ہوا تھا، جس میں چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سماعت اب ویڈیو لنک پر ہوگی۔
سماعت کے دوران کمرہ عدالت میں رش کی وجہ سے سماعت کچھ دیر کے لیے ملتوی کردی گئی۔
سماعت کے دوبارہ آغازکے موقع پر کمرہ عدالت وکلا اور لوگوں سے کھچا کھچ بھر گیا، دلائل کیلئے وکلا کے کھڑے ہونے کی جگہ کم پڑگئی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کمرۂ عدالت سے کچھ لوگ باہر چلے جائیں،کیس کی سماعت اب ویڈیو لنک کے ذریعے ہوگی۔
سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں ویڈیو لنک والا کمرہ کھول دیا گیا، بینچ کے روبرو صرف وکلا پیش ہوں گے، ویڈیو لنک کا فیصلہ لوگوں کے رش کی وجہ سے کیا گیا ہے۔
وقفے کے بعد دوبارہ سماعت کے موقع پر ڈپٹی اسپیکر سپریم کورٹ میں پیش نہیں ہوئے عرفان قادر ایڈووکیٹ نے بتایا کہ میں ان کی طرف سے پیش ہوا ہوں۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا آپ کے پاس ڈپٹی اسپیکر کا وکالت نامہ ہے؟ عرفان قادر ایڈووکیٹ نے کہا کہ جی میرے پاس دوست محمد مزاری کا وکالت نامہ ہے۔
اس سے قبل سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کو 2 بجے طلب کیا تھا، چیف سیکرٹری اورحمزہ شہباز کو بھی نوٹس جاری کیا گیا، چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ ڈپٹی اسپیکر کو ذاتی طور پر سننا چاہتے ہیں۔
وزیراعلیٰ پنجاب کے الیکشن کے معاملے پر پرویز الہٰی کی سپریم کورٹ رجسٹری میں درخواست پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ تشکیل دیا گیا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال،جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب پر مشتمل بینچ کی جانب سے درخواست پر سماعت کی گئی۔
درخواست کی سماعت کے آغاز پر پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ کل پنجاب اسمبلی میں وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے لیے دوسرا راؤنڈ ہوا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال کیا کہ اسمبلی میں کتنے ارکان موجود تھے؟ بیرسٹرعلی ظفر نے جواب دیا کہ ایوان میں 370 ارکان تھے، پرویز الہٰی کو 186ووٹ، حمزہ کو 179ووٹ ملے، آئینی طور پر پرویز الہٰی وزیر اعلیٰ کا الیکشن جیت گئے۔
بیرسٹر علی ظفر نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے ق لیگ کے 10 ووٹ مسترد کردیے، آئینی طور پر پرویز الہٰی وزیراعلی پنجاب ہیں۔
علی ظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں آرٹیکل 63 اے کے تحت پارلیمانی پارٹی کی ہدایت پر ہی ارکان ووٹ ڈال سکتے ہیں، پارلیمانی پارٹی کے ارکان نے پرویز الہٰی کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیا، 21جولائی کو لیٹر بھی جاری کیا۔
بیرسٹر علی ظفر نے اپنے دلائل میں کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے اپنی رولنگ میں سپریم کورٹ کا فیصلہ پڑھا، ڈپٹی اسپیکر نے پارٹی صدر کے خط کو جواز بنا کر 10ووٹ مسترد کیے، پارلیمانی پارٹی کے کردار کو نظر انداز کیا گیا۔
چیف جسٹس عمرعطابندیال نے ریمارکس دیے کہ ڈپٹی اسپیکر کو ذاتی طور پر طلب کر لیتے ہیں، دیگر فریقین کو بھی نوٹس جاری کر دیتے ہیں اور ایڈووکیٹ جنرل کو بھی معاونت کے لیے طلب کر لیتے ہیں۔
عدالت نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر ہی بتا سکتے ہیں کہ انہوں نے کس پیراگراف کا حوالہ دیا۔
چیف جسٹس عمرعطابندیال نے بیرسٹر علی ظفر سے سوال کیا کہ بتائیں کتنی دیر میں ڈپٹی اسپیکر کو طلب کریں، بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر کو 2 گھنٹے میں بلوا لیں۔
سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر کو 2 بجے طلب کر لیا اور ریمارکس دیے کہ ڈپٹی اسپیکر کو ذاتی طور پر سننا چاہتے ہیں، عدالت نے چیف سیکرٹری اور حمزہ شہباز کو بھی نوٹس جاری کر دیے، عدالت نے ایڈوکیٹ جنرل پنجاب کو بھی طلب کر لیا ساتھ ہی کہا کہ اگر اٹارنی جنرل نہیں ہیں تو ایڈیشنل اٹارنی جنرل پیش ہوجائیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ایسے معاملات غیر تجربہ کاری سے پیش آتے ہیں،یہ معاملہ تشریح سے زیادہ سمجھنے کا ہے، عدالت نے کیس کی سماعت 2 بجے تک کے لیے ملتوی کردی۔
کیس کی سماعت کے آغاز سے قبل تحریک انصاف کے وکیل بیرسٹر علی ظفر بھی سپریم کورٹ لاہور رجسٹری پہنچے، انہوں نے بتایا کہ پرویز الہٰی کی درخواست سماعت کے لیے مقرر ہوچکی ہے۔
بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ میری اطلاعات کے مطابق جج صاحبان درخواست کی سماعت کے لیے آ رہے ہیں۔
اس موقع پر بیرسٹر علی ظفر سے سوال کیا گیا کہ کیا باضابطہ طور پر مطلع کر دیا گیا ہے کہ درخواست پر سماعت ہوگی؟ جواب میں انہوں نے بتایا کہ میرے کولیگز کے مطابق ساڑھے9 یا پونے10بجےسماعت شروع ہوگی۔
اس کے علاوہ سپریم کورٹ میں مسلم لیگ ق اور پی ٹی آئی کی درخواست کی سماعت کے لیے پی ٹی آئی کے مختلف رہنما بھی سپریم کورٹ کی لاہور رجسٹری پہنچنا شروع ہو گئے ہیں۔
تحریک انصاف کےرہنما اسد عمر اور عمر ایوب سپریم کورٹ لاہور رجسٹری پہنچ گئے ہیں۔
گزشتہ روز پرویز الہٰی کی دائر درخواست میں حمزہ شہباز، ڈپٹی اسپیکر اور چیف سیکرٹری کو فریق بنایا گیا ہے۔
پرویز الہٰی نے درخواست کی آج سماعت کی استدعا کی ہے۔
دوسری جانب نو منتخب وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز نے آج عہدے کا حلف اٹھا لیا ہے ۔
گورنر ہاؤس لاہور میں حمزہ شہباز سے گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن نے عہدے کا حلف لیا۔
حلف برداری کی تقریب میں پارٹی رہنماؤں، کارکنوں اور اہم شخصیات نے شرکت کی۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز حمزہ شہباز 3 ووٹوں کے فرق سے پنجاب کے وزیراعلیٰ برقرار رہے تھے۔
ڈپٹی اسپیکر دوست مزاری نے نتیجے کا اعلان کرنے سے پہلے چوہدری شجاعت کا خط ایوان میں پڑھ کر سنایا، جس کی بنیاد پر مسلم لیگ (ق) کے کاسٹ کیے گئے تمام 10 ووٹ منسوخ کردیے تھے۔
یوں 10 ووٹ منسوخ ہونے کے بعد پرویز الہٰی کے ووٹوں کی تعداد 176 ہوگئی تھی جبکہ حمزہ شہباز کے ووٹوں کی تعداد 179 رہی۔
Comments are closed.