سپریم کورٹ آف پاکستان نے وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے انتخاب میں ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کے خلاف پرویز الہٰی کی درخواست منظور کرتے ہوئے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کالعدم قرار دیدی اور پرویز الہٰی کو پنجاب کا وزیراعلیٰ قرار دیدیا۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے پرویز الہٰی کی درخواست پر محفوظ فیصلہ سنادیا۔
عدالتِ عظمیٰ نے حمزہ شہباز کی نئی کابینہ کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دے دیا جبکہ گورنر پنجاب کو آج ہی رات ساڑھے گیارہ بجے پرویز الہٰی سے وزارتِ اعلیٰ کا حلف لینے کی ہدایت کردی۔
عدالت نے 11 صفحات پر مشتمل اس مختصر فیصلے میں قرار دیا کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کا کوئی قانونی جواز نہیں، پنجاب کابینہ بھی کالعدم قرار دی جاتی ہے۔
عدالتِ عظمیٰ نے فیصلے میں کہا کہ حمزہ شہباز اور ان کی کابینہ فوری طور پر عہدہ چھوڑیں، آج رات 11:30 تک پرویز الہٰی بطور وزیراعلیٰ پنجاب حلف لیں۔
سپریم کورٹ ہدایت کی کہ گورنر اگر پرویز الہٰی سے حلف نہ لیں تو صدر مملکت وزیراعلیٰ پنجاب سے حلف لیں گے۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا کہ عدالتی فیصلے پر فوری یقینی بنایا جائے۔
عدالت نے فیصلے کی کاپی فوری طور پر گورنر پنجاب، ڈپٹی اسپیکر اور چیف سیکریٹری کو بھیجنے کی ہدایت کردی۔
مختصر فیصلے میں کہا گیا کہ حمزہ شہباز نے بطور وزیراعلیٰ جو بھی تقرریاں کیں وہ کالعدم قرار دی جاتی ہیں۔
خیال رہے کہ عدالت نے پرویز الہٰی کی درخواست پر محفوظ فیصلہ سنانے کے لیے 5:45 کا وقت دیا، تاہم تاخیر کے بعد پھر ساڑھے 7 بجے کا وقت دیا گیا تھا۔
تاہم بعد میں اس میں مزید تاخیر ہوئی اور اس کے بعد 9 بجے یہ محفوظ فیصلہ سنایا گیا۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے درخواست پر سماعت کی تھی، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر بھی بینچ میں شامل تھے۔
آج دورانِ سماعت چیف جسٹس نے وکیل علی ظفر سے کہا تھا کہ قانونی سوالات پر معاونت کریں یا پھر ہم اس بینچ سے الگ ہو جائیں، جو دوست مجھے جانتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ اپنے کام کو عبادت کا درجہ دیتا ہوں۔
ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی دوست مزاری کے وکیل عرفان قادر نے کہا کہ میرے مؤکل کی ہدایت ہے کہ عدالتی کارروائی کا حصہ نہیں بننا، فل کورٹ کی استدعا مسترد کرنے کے خلاف پاکستان میں مثالی بائیکاٹ ہوا، فل کورٹ سے متعلق فیصلے پر نظرِ ثانی کی درخواست دائر کریں گے۔
پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے عدالت کو کارروائی کے بائیکاٹ سے آگاہ کر دیا۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے فاروق نائیک سے کہا کہ آپ تو کیس کے فریق ہی نہیں، ہمارے سامنے فل کورٹ بنانے کا کوئی قانونی جواز پیش نہیں کیا گیا، عدالت میں صرف پارٹی سربراہ کی ہدایات پر عمل کرنے سے متعلق دلائل دیے گئے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ موجودہ کیس میں فل کورٹ بنانے کی ضرورت نہیں، اصل سوال تھا کہ ارکان کو ہدایات کون دے سکتا ہے، آئین پڑھنے سے واضح ہے کہ ہدایات پارلیمانی پارٹی نے دینی ہیں، اس سوال کے جواب کے لیے کسی مزید قانونی دلیل کی ضرورت نہیں۔
چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ اس کیس کو جلد مکمل کرنے کو ترجیح دیں گے، فل کورٹ بنانا کیس کو غیرضروری التواء کا شکار کرنے کے مترادف ہے، فل کورٹ بنتا تو معاملہ ستمبر تک چلا جاتا کیوں کہ عدالتی تعطیلات چل رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے میں عدالتی فیصلوں سے واضح ہے کہ پارلیمانی پارٹی کی ہدایات پر عمل کرنا ہوتا ہے، جسٹس عظمت سعید نے فیصلے میں پارٹی سربراہ کی ہدایات پر عمل کرنے کا کہا، فریقین کے وکلاء کو بتایا تھا کہ آئین گورننس میں رکاوٹ کی اجازت نہیں دیتا۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کا کہنا ہے کہ صدر کی سربراہی میں 1988ء میں سپریم کورٹ نے نگران کابینہ کالعدم قرار دی تھی، عدالت کا مؤقف تھا کہ وزیرِ اعظم کے بغیر کابینہ نہیں چل سکتی، فل کورٹ کی تشکیل کیس لٹکانے سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ گورننس اور بحران کے حل کے لیے جلدی کیس نمٹانا چاہتے ہیں، آرٹیکل 63 اے کی تشریح میں کون ہدایت دے گا یہ سوال نہیں تھا، تشریح کے وقت سوال صرف انحراف کرنے والے کے نتیجے کا تھا۔
وکیل عرفان قادر نے کہا کہ ہم نے آئین و قانون کے مطابق مؤقف رکھا ہے، ہم نظرِ ثانی کی اپیل کا بھی حق رکھتے ہیں، نظر ثانی کی اپیل مسترد ہو گئی تو دیکھیں گے، پھر ہم نہیں چاہیں گے کہ نظرِ ثانی کی اپیل یہ بینچ سنے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا 17 میں سے 8 ججز کی رائے کی سپریم کورٹ پابند ہو سکتی ہے؟ فل کورٹ بینچ کی اکثریت نے پارٹی سربراہ کے ہدایت دینے سے اتفاق نہیں کیا تھا، آرٹیکل 63 اے کے کیس میں ہدایات کے معاملے پرکسی وکیل نے کوئی دلیل نہیں دی تھی، عدالت کو پارٹی سربراہ کی ہدایات یا پارلیمانی پارٹی ڈائریکشنز پر معاونت درکار ہے۔
چیف جسٹس نے وکیل علی ظفر سے کہا کہ قانونی سوالات پر معاونت کریں یا پھر ہم اس بینچ سے الگ ہوجائیں، جو دوست مجھے جانتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ اپنے کام کو عبادت کا درجہ دیتا ہوں، میرے دائیں بیٹھے حضرات نے اتفاقِ رائے سے عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کر دیا ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ شکر ہے کہ اتنی گریس باقی ہے کہ عدالتی کارروائی سننے کے لیے بیٹھے ہیں۔
عدالت نے پرویز الہٰی کے وکیل علی ظفر کو روسٹرم پر بلا لیا۔
پرویز الہٰی کے وکیل علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اکیسویں ترمیم کےخلاف درخواستیں فل کورٹ میں13/4 کے تناسب سے خارج ہوئی تھیں، درخواستیں خارج کرنے کی وجوہات بہت سے ججز نے الگ الگ لکھی تھیں۔
علی ظفر نے کہا کہ اکیسویں ترمیم کیس میں جسٹس جواد خواجہ نے آرٹیکل 63 اے کو خلاف آئین قرار دیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 63 اے کی کچھ شقوں کو جسٹس جواد ایس خواجہ نے آئین سے متصادم قرار دیا۔
علی ظفر کا کہنا ہے کہ جسٹس خواجہ کی رائے تھی آرٹیکل 63 اے ارکان کو آزادی سے ووٹ دینے سے روکتا ہے، انہوں نے فیصلے میں اپنی رائے کی وجوہات بیان نہیں کیں، جسٹس جواد خواجہ کی رائے سے اتفاق نہیں کرتا۔
چیف جسٹس نے علی ظفر سے سوال کیا کہ آئین کیا کہتا ہے کہ کس کی ہدایات پر ووٹ دیا جائے؟
وکیل علی ظفر نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ آئین کے مطابق ووٹ کی ہدایات پارلیمانی پارٹی دیتی ہے۔
چیف جسٹس نے پھر سوال کیا کہ کیا پارلیمانی پارٹی اور پارٹی سربراہ سے الگ ہے؟
علی ظفر نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ پارلیمانی جماعت اور پارٹی لیڈر دو الگ الگ چیزیں ہیں۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ آئین کے تحت پارٹی سربراہ پارلیمانی پارٹی کے فیصلے پر عمل درآمد کراتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمانی پارٹی اپنے طور پر تو کوئی فیصلہ نہیں کرتی، جماعت کا فیصلہ پارلیمانی پارٹی کو بتایا جاتا ہے جس کی روشنی میں وہ فیصلہ کرتی ہے۔
جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ پارٹی سربراہ کی کیا تعریف ہے؟ کیا پارٹی سربراہ صرف سیاسی جماعت کا سربراہ ہوتا ہے؟
وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ پرویز مشرف کے دور میں پارٹی سربراہ کی جگہ پارلیمانی سربراہ کا قانون آیا تھا، اٹھارہویں ترمیم میں پرویز مشرف کے قانون کو ختم کیا گیا۔
جسٹس اعجازالاحسن نے سوال کیا کہ پارلیمانی لیڈر والا لفظ کہاں استعمال ہوا ہے؟
پرویز الہٰی کے وکیل نے کہا کہ پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002ء میں سیاسی جماعتوں سے متعلق پارلیمانی پارٹی کا ذکر ہوا۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ پارلیمانی پارٹی کی جگہ پارلیمانی لیڈر کا لفظ محض حقائق کی غلطی ہے۔
جسٹس اعجاز نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ 18 ویں اور 21ویں ترامیم کے کیسز میں آرٹیکل 63 کی صرف شقوں کو دیکھا گیا، آرٹیکل 63 اے سے متعلق پارٹی لیڈر کا معاملہ ماضی میں تفصیل سے نہیں دیکھا گیا۔
علی ظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ آئین کا جائزہ لے کر قانون میں تبدیلی کا حکم دے سکتی ہے، سپریم کورٹ اپنے فیصلے میں ترمیم بھی کر سکتی ہے۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیے کہ جج کے بار بار اپنی رائے تبدیل کرنے سے اچھی مثال قائم نہیں ہوتی، جج کی رائے میں یکسانیت ہونی چاہیے، میں اپنی رائے تب ہی بدلوں گا جب ٹھوس وجوہات دی جائیں گی۔
پرویز الہٰی کے وکیل علی ظفر کے دلائل مکمل ہو گئے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمٰن نے روسٹرم پر آ کر کہا کہ عدالت کی خدمت میں چند گزارشات پیش کرنا چاہتا ہوں۔
جسٹس منیب اختر نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ کیا وفاقی حکومت حکمران اتحاد کے فیصلے سے الگ ہو گئی ہے؟
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 27 اے کے تحت عدالت کی معاونت کروں گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ فیصلے میں کوئی غلطی نہ ہوجائے اس لیے سب کو معاونت کی کھلی دعوت ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ سوال یہ ہے کہ خط پولنگ سے پہلے پارلیمانی پارٹی کے سامنے پڑھا گیا تھا یا نہیں، عدالت کے سامنے سوال یہ بھی ہے کہ فیصلے کو ٹھیک سے پڑھا گیا یا نہیں۔
پی ٹی آئی کے وکیل امتیاز صدیقی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پارٹی سربراہ کی ہدایات بروقت آنی چاہئیں، ڈپٹی اسپیکر نے کہا کے مجھے چوہدری شجاعت کا خط موصول ہوا۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ چوہدری شجاعت کے وکیل نے کہا کہ خط ارکان کو بھیجا گیا تھا۔
جسٹس اعجاز کا کہنا ہے کہ دیکھنا ہو گا کہ ڈپٹی اسپیکر نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا غلط استعمال تو نہیں کیا۔
تحریکِ انصاف کے وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ اسمبلی کی تمام کارروائی کا ریکارڈ موجود ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہر ایک کو دعوت ہے کہ عدالت کی معاونت کرے تا کہ آگے غلطی نہ ہو۔
پی ٹی آئی وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ پارٹی ہیڈ کی ہدایات اگر الیکشن سے پہلے ہوں تو کوئی تنازع نہیں، پارٹی ہیڈ کو اگر ووٹ سے متعلق ہدایت کا اختیار ہے تو ہدایات الیکشن سے پہلے آنی چاہئیں، وزیر اعلیٰ کے الیکشن میں چوہدری شجاعت کی ہدایات پولنگ کے بعد آئیں۔
اس کے ساتھ ہی پی ٹی آئی کے وکیل امتیاز صدیقی کے دلائل مکمل ہو گئے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے فاروق ایچ نائیک سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ نائیک صاحب اگر کچھ بہتری آ سکتی ہے تو عدالت سننے کے لیے تیار ہے۔
وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ ان مقدمات میں ہم پارٹی پالیسی کے پابند ہوتے ہیں، میں عدالت کی معاونت کرنے کے لیے تیار تھا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ دوسری جانب سے وکلاء کارروائی میں حصہ نہیں لے رہے مگر سن رہے ہیں، اقوامِ متحدہ میں جن ممالک کی ممبر شپ نہیں ہوتی وہ سائیڈ پر بیٹھتے ہیں، اس وقت ان کی حیثیت ایسے ہی ہے جیسے اقوامِ متحدہ میں مبصر ممالک کی ہوتی ہے۔
جس کے بعد عدالت نے ڈھائی بجے تک سماعت میں وقفہ کیا تھا۔
سپریم کورٹ میں وقفے کے بعد ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کے خلاف پرویز الہٰی کی درخواست پر دوبارہ سماعت ہوئی۔
احمد اویس نے کہا کہ سپریم کورٹ فیصلے سے قبل کچھ باتیں سامنے رکھے، 3 ماہ سے وزیرِ اعلیٰ پنجاب کا معاملہ زیرِ بحث تھا۔
انہوں نے کہا کہ ق لیگ کے تمام ارکان کو علم تھا کہ کس کو ووٹ دینا ہے، میری گزارش ہو گی کہ الیکشن سے قبل کا بھی سارا ریکارڈ دیکھا جائے، سپریم کورٹ تمام پہلوؤں کو مدِ نظر رکھے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ دوسرے فریقین نے بعض عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیا تھا۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ جن فیصلوں کا حوالہ دیا گیا ان پر کچھ گزارشات کرنا چاہوں گا، آرٹیکل 63 اے کے تحت منحرف ارکان کے خلاف ایکشن پارٹی سربراہ لے گا، پارٹی سربراہ منحرف ارکان کے خلاف ڈکلیئریشن بھیجتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ فریقِ دفاع کا کہنا ہے پارٹی سربراہ پارلیمانی پارٹی کو کنٹرول کرتا ہے۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ پارٹی کے اندر تمام اختیارات سربراہ کے ہی ہوتے ہیں، پارٹی سربراہ کے اختیارات کم نہیں ہونے چاہئیں، آرٹیکل 63 میں ارکان کو ہدایت دینا پارلیمانی پارٹی کا اختیار ہے، پارٹی سربراہ کے کردار کی کوئی نفی نہیں کر رہا، پارلیمانی پارٹی پر کس کا زیادہ کنٹرول ہے یہ مدعا زیرِ بحث نہیں۔
وکیل علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پوری دنیا میں پارلیمانی پارٹی کے اندرونی کارروائی ایک طرح چلتی ہے، برطانیہ میں بورس جانسن نے پارلیمانی پارٹی کے کہنے پر استعفیٰ دیا، پارٹی سربراہ تحریکِ عدم اعتماد، بجٹ وغیرہ پر اراکین کو اپنے اختیارات کے تحت قائل کرتا ہے، پارٹی سربراہ ممبران کو ڈکٹیشن نہیں دے سکتا۔
جسٹس اعجاز نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ واضح ہے اگر کسی ممبر کو پارٹی پالیسی کے مطابق ووٹ نہیں دینا تو استعفیٰ دے کر دوبارہ آ جائے۔
پرویز الہٰی کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ عائشہ گلالئی کیس میں عدالت پارٹی سربراہ کی ہدایات کا طریقے کار دے چکی ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ عائشہ گلالئی کیس کا فیصلہ تو آپ کے موکل کے خلاف جاتا تھا۔
علی ظفر نے جواب دیا کہ عائشہ گلالئی کیس میرے مؤکل کے خلاف لیکن آئین کے مطابق ہے، عائشہ گلالئی کیس میں بھی منحرف ہونے کا سوال ہی سامنے آیا تھا۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا عائشہ گلالئی کیس میں لکھا ہے کہ ہدایت کون دے گا؟
علی ظفر نے جواب دیا کہ عائشہ گلالئی کیس میں ارکان کو مختلف عہدوں کے لیے نامزد کرنے کا معاملہ تھا، عائشہ گلالئی کیس میں قرار دیا گیا کہ پارٹی سربراہ یا اس کا نامزد نمائندہ نااہلی کا ریفرنس بھیج سکتا ہے۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیے کہ اختیارات پارٹی ہیڈ کے ذریعے ہی منتقل ہوتے ہیں، کوئی شبہ نہیں کہ پارٹی سربراہ کا اہم کردار ہے تاہم ووٹنگ کے لیے ہدایات پارلیمانی پارٹی ہیڈ دیتا ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ منحرف اراکین میں سے کتنوں نے ضمنی انتخاب میں حصہ لیا۔
وکیل فیصل چوہدری نے کہا کہ 25 منحرف اراکین میں سے 18 نے ضمنی انتخابات لڑے اور 17 کو شکست ہوئی۔
چیف جسٹس نے فیصل چوہدری کو ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ ڈسپلن کے تحت آئندہ روسٹرم پر آ کر ہی بات کیا کریں۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے مطابق نہیں دی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ روز عدالت میں بھی الیکشن کمیشن کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا تھا، سپریم کورٹ کس قانون کے تحت الیکشن کمیشن کے فیصلوں کی پابند ہے؟
وکیل علی ظفر نے کہا کہ کوئی قانون سپریم کورٹ کو الیکشن کمیشن کے فیصلے کا پابند نہیں بناتا۔
جسٹس اعجاز نے ریمارکس دیے کہ فریقِ دفاع کے مطابق منحرف ارکان کے کیس میں ہدایات پارٹی ہیڈ عمران خان نے دی، فریقِ دفاع کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم ہوا تو 25 ارکان بحال ہوجائیں گے، فریقِ دفاع کا کہنا ہے کہ اپیل منظور ہونے سے حمزہ کے ووٹ 197 ہو جائیں گے۔
پرویز الہٰی کے وکیل نے کہا کہ منحرف اراکین کے کیس میں یہ نکتہ ممبران کو ہدایات کا نہیں شوکاز نوٹس نہ ملنے کا ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد بہت پیش رفت ہو چکی ہے۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ وزارتِ اعلیٰ کے الیکشن پر ہائی کورٹ کا فیصلہ آ چکا ہے، الیکشن کمیشن کا فیصلہ پاسٹ اینڈ کلوز ٹرانزیکشن ہو چکا ہے۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ نے یکم جولائی کو فریقین کے آپس میں اتفاقِ رائے سے فیصلہ دیا تھا، سپریم کورٹ نے کہا کہ الیکشن ہوگا جس پر کوئی اعتراض نہیں کیا گیا تھا، کیا اب دوسری جانب سے اعتراض اٹھایا جا سکتا ہے؟
علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اب دوسری جانب سے اعتراض نہیں اٹھایا جا سکتا اب معاملہ ختم ہو چکا ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ عدالت کو رضامندی دی گئی کہ ضمنی الیکشن ہونے دیے جائیں، یہ یقین دہانی بھی دی گئی کہ ضمنی الیکشن کے نتائج پر رن آف الیکشن کرایا جائے گا۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا رضا مندی دیتے وقت حمزہ شہباز عدالت میں موجود تھے؟
پرویز الہٰی کے وکیل نے جواب دیا کہ جی، حمزہ شہباز عدالت میں موجود تھے، دورانِ سماعت اس قسم کے اعتراضات کرنا بیوقوفی ہے، بہت سا پانی پل کے نیچے سے گزر چکا ہے، وزیرِ اعلیٰ اور ڈپٹی اسپیکر کے وکلاء میرٹ پر عدالتی سوالات کے جواب نہیں دے سکے۔
ایڈشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 27 اے کے تحت معاونت صرف اٹارنی جنرل کر سکتے ہیں، عدالت اجازت دے تو ہی معاونت کرسکتا ہوں۔
چیف جسٹس نے عامر رحمٰن کو ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل ملک سے باہر اور زیرِ علاج ہیں، ان کی واپسی کا انتظار نہیں کرسکتے، آپ اپنے دلائل کا آغاز کریں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہدایات پارلیمانی پارٹی یا پارٹی صدر جاری کرے گا اس کی واضح تشریح نہیں، آرٹیکل 63 اے کے فیصلے میں واضح ہے کہ ووٹ شمار نہیں ہو گا، سیاسی جماعت کے نمائندوں کی کیا ذمے داریاں ہیں؟
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 63 اے میں پارلیمانی پارٹی واضح لکھا ہے، سب کو معلوم ہے کہ پارلیمانی پارٹی سے مراد کیا ہے، آرٹیکل 63 اے کے مطابق پارلیمانی پارٹی کو اختیار دینا ضروری ہے، پارلیمانی پارٹی کو مضبوط کرنا پارلیمانی جمہوریت کو مضبوط کرنے کے مترادف ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ 2015ء کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق پارٹی سربراہ ہدایت دے سکتا ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے پر جب تک نظرِثانی نہ ہو اس پر عمل در آمد لازمی ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سپریم کورٹ کے ہر فیصلے پر عمل در آمد لازمی نہیں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ فیصلے موجود ہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے ہر عدالت کے لیے بائنڈنگ ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی دلیل عجیب و غریب ہے، وہاں اس کیس میں تو ووٹنگ کا سوال ہی نہیں تھا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اٹھارہویں اور اکیسویں ترمیم میں اکثریتی رائے کا اطلاق ہم پر لازم نہیں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ اٹھارہویں اور اکیسویں ترمیم کیس کے فیصلے کا اطلاق لازم ہے۔
جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ کیا الیکشن کمیشن کے فیصلے کا اطلاق ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی پر لازم ہے؟
ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمٰن نے کہا کہ نہیں اطلاق لازم نہیں ہے۔
جسٹس منیب اختر نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے دلائل مطابقت نہیں رکھتے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر ڈپٹی اسپیکرکے ذہن میں 21 ویں ترمیم کیس کا فیصلہ تھا تو اسے لکھنا چاہیے تھا۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ آئین کی مضبوطی چاہتی ہے، تمام وکلاء کے شکر گزار ہیں۔
قانون دان، پی ٹی آئی رہنما بابر اعوان نے سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ پی ڈی ایم نے معیشت کا، مسئلہ کشمیر کا بائیکاٹ کیا ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سوائے این آر او کے پی ڈی ایم نے دیگر سب چیزوں کا بائیکاٹ کیا ہوا ہے۔
اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الہٰی کے صاحبزادے مونس الہٰی ق لیگ کے ایم پی ایز کے ہمراہ سپریم کورٹ پہنچ گئے۔
صحافی نے مونس الہٰی سے سوال کیا کہ کوئی بڑا فیصلہ آئےگا؟ بائیکاٹ کا کیا اثر پڑے گا؟
مونس الہٰی نے کہا کہ بائیکاٹ کام شروع ہونے سے پہلے ہوتا ہے، کام شروع ہونے کے بعد کون بائیکاٹ کرتا ہے۔
تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی سپریم کورٹ پہنچ گئے۔
شاہ محمود قریشی نے سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پی ڈی ایم مسترد شدہ قیادت ہے ان کے خلاف عدالت سے رجوع کی ضرورت نہیں۔
انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم عدلیہ کو کیا مسترد کرے گی، انہیں قوم نے مسترد کر دیا ہے۔
پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کے سامنے پیش ہو کر بتائیں گے کہ کیا کررہے ہیں۔
صحافی نے فاروق ایچ نائیک سے سوال کیا کہ عدالت کو بتائیں گے کہ بائیکاٹ کر دیا؟
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ میڈیا کو نہیں بتاسکتے، عدالت کو بتائیں گے۔
سپریم کورٹ نے وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب میں ڈپٹی اسپیکر رولنگ کیس کی سماعت کا حکم نامہ جاری کر دیا۔
سپریم کورٹ کے حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ فل کورٹ کی استدعا مسترد کی جاتی ہے، فل کورٹ تشکیل نہ دینے کی تفصیلی وجوہات بعد میں جاری کی جائیں گی۔
حکم نامے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ حمزہ شہباز، ڈپٹی اسپیکر اور دیگر وکلاء کی طرف سے مزید وقت مانگا گیا، فریق دفاع کے وکلاء کی مزید وقت کی استدعا منظور کی جاتی ہے۔
سپریم کورٹ کے حکم نامے میں کہا گیا کہ تمام وکلاء 26 جولائی کو مقدمے کی تیاری کر کے آئیں۔
گزشتہ روز ہونے والی سماعت میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے فل کورٹ بنانے کی تمام درخواستیں مسترد کر دی تھیں۔
عدالت نے کہا تھا کہ فل کورٹ نہ بنانے کی تفصیلی وجوہات بعد میں جاری کی جائیں گی۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ معاملے کی بنیاد قانونی سوال ہے کہ ارکانِ اسمبلی کوہدایت پارٹی سربراہ دے سکتا ہے یا نہیں؟
دوسری جانب حکومت نے وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے انتخاب میں اسپیکر کی رولنگ کے خلاف درخواستوں کی عدالتی کارروائی کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔
حکمراں اتحاد کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے کیس میں سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ 3 ججوں کے بجائے فل بینچ سماعت کرے، تاہم عدلیہ نے غور کے بجائے مطالبہ مسترد کر دیا۔
تحریکِ انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ پی ڈی ایم رہنماؤں کی پریس کانفرنس کا ایک ایک جملہ توہینِ عدالت ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ عدالتی کارروائی مکمل ہونے کے بعد کہا گیا کہ بائیکاٹ کریں گے، ایگزیکٹو نے عدلیہ پر حملہ کیا ہے۔
Comments are closed.