حماس کی میڈیا مشین کہلائے جانے والے ابو عبیدہ کون ہیں؟
،تصویر کا ذریعہGetty Images
- مصنف, ایتھر شیلابی
- عہدہ, بی بی سی نیوز عریبک
فلسطین کی عسکریت پسند تنظیم حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈ کے ترجمان اسرائیل غزہ جنگ کے دوران نمایاں شخصیات میں سے ایک ہیں۔ ان کا نام ابو عبیدہ ہے اور انھیں حماس کی میڈیا مشین کے لقب سے بھی جانا جاتا ہے۔ وہ اکثر سوشل میڈیا پر تنظیم کے پیغامات کو آن لائن پھیلاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
ان کا عرفی نام ابو عبیدہ، پیغمبر اسلام کے ساتھیوں میں سے ایک ابو عبیدہ بن الجراح کی نسبت سے ہے۔ وہ ایک مسلمان فوجی کمانڈر تھے۔ ابو عبیدہ القسام کے کمانڈر محمد الدیف کی طرف سے ’آپریشن طوفان الاقصیٰ‘ کا آغاز کرنے کے بعد ایک معروف شخصیت بن گئے۔ حماس کی طرف سے سات اکتوبر کو اسرائیل پر کیے جانے والے حملے کو حماس نے آپریشن طوفان الاقصیٰ کا نام دیا تھا۔ اس حملے میں جنوبی اسرائیل میں 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
،تصویر کا ذریعہTelegram
ابو عبیدہ ہمیشہ ٹی وی پر سرخ کوفیہ پہنے ہوئے آتے ہیں
سرخ کوفیہ
ابو عبیدہ کی صحیح شناخت کوئی نہیں جانتا۔ وہ ہمیشہ ویڈیو ریکارڈنگ میں اپنے چہرے کو سرخ کوفیہ (فلسطینی روایتی سکارف) سے ڈھانپ کر آتے ہیں۔ وہ ویڈیو میں قرآن کی ایک لکھی ہوئی آیت کے ساتھ کھڑے ہو کر حماس کی عسکری کارروائیوں کی پیشرفت اور ان کی تفصیلات کے بارے میں بتاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ابو عبیدہ اپنے ٹیلیگرام چینل کے ذریعے اپنی تقاریر شیئر کرتے ہیں، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ٹیلیگرام چینل 2020 میں شروع کیا گیا تھا۔ وہ کسی اور معروف سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر سرگرم نہیں ہے۔
ان کی ویڈیو تقریریں سوشل میڈیا پر گردش کرتی ہیں اور کئی نیوز چینلز پر نشر ہوتی ہیں۔ لندن سے شائع ہونے والے ایک مشہور عرب روزنامے الشرق الاوسط کے مطابق’ابو عبیدہ کو 2002 میں پہلی بار القسام کے فیلڈ عہدیداروں میں سے ایک کے طور پر جانا جاتا تھا۔‘
اخبار کا کہنا ہے کہ انھوں نے ہمیشہ اپنا چہرہ ڈھانپ کر میڈیا سے بات کی اور القسام بریگیڈ کے سابق رہنما عماد عقیل کے انداز کو نقل کیا گیا، جسے اسرائیل نے 1993 میں جیل بھیج دیا تھا۔
القسام بریگیڈ کے ترجمان
سنہ 2006 میں ابو عبیدہ کو القسام بریگیڈز کا باضابطہ ترجمان مقرر کیا گیا۔ وہ پہلی مرتبہ عوامی سطح پر 25 جون 2006 کو منظر عام پر آئے تھے جب حماس سمیت مسلح گروپوں نے غزہ کی سرحد کے قریب ایک اسرائیلی فوجی چوکی پر حملہ کیا تھا۔
حماس نے یہ کارروائی اس وقت کی تھی جب انھوں نے یہ دعوی کیا تھا کہ ایک اسرائیلی فضائی حملے میں فلسطینی لڑکی ہدہ غالیہ کا خاندان مارا گیا تھا جب وہ ساحل پر پکنک منا رہے تھے۔یہ ایک ایسا واقعہ تھا جس نے بین الاقوامی توجہ اپنی طرف مبذول کروائی تھی کیونکہ اس واقعے میں ایک 10 سالہ لڑکی کو غزہ کے ساحل پر پاگلوں کی طرح دوڑتے اور ’والد، والد، والد‘پکارتے دکھایا گیاتھا جو بعدازاں اپنے والد کی لاش پر روتی دیکھی گئی تھی۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
اردنی مظاہرین نے فلسطینی لڑکی ہدہ غالیہ کا پوسٹر اٹھا رکھا ہے جس کا خاندان 2006 میں اسرائیلی فضائی حملے میں مارا گیا تھا جب وہ غزہ کے ساحل پر پکنک منا رہی تھیں۔
اسرائیلی فوجی چوکی پر حماس کے حملے کے دوران اسرائیلی فوجی گیلاد شالیت کو پکڑ لیا گیا تھا جبکہ اس حملے میں دو فوجی ہلاک اور دو دیگر زخمی ہوئے تھے۔
بعدازاں سنہ 2011 میں اسرائیل اور حماس کے درمیان ایک معاہدے پر اتفاق کے بعد اسرائیلی فوجی شالیت کو رہا کیا گیا تھا۔ اس معاہدے کے تحت 1000 سے زائد فلسطینیوں کو بھی رہا کیا گیا تھا۔
سنہ 2014 میں اسرائیل غزہ جنگ کے دوران ابو عبیدہ نے ایک ٹیلی ویژن خطاب میں اسرائیلی فوجی شاول ہارون کی گرفتاری کا دعویٰ کیا تھا، حالانکہ اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ مر چکا ہے۔
،تصویر کا ذریعہIDF
اسرائیلی فوجی چوکی پر حماس کے حملے کے دوران اسرائیلی فوجی گیلاد شالیت کو پکڑ لیا گیا تھا
خفیہ شناخت
ابو عبیدہ کی اصل شناخت بہت سے لوگوں کے لیے ایک معمہ رہی ہے۔ 25 اکتوبر کو اسرائیلی فوج کے ترجمان آوچی آدرعی نے ایک ویڈیو ٹویٹ کی جس میں ایک شخص کی تصویر دکھائی گئی اور یہ دعویٰ کیا گیا کہ وہ ابو عبیدہ ہے۔ آدرعی نے ٹویٹ میں کہا کہ اس شخص کا اصل نام ’حذیفہ سمیر عبداللہ الکہلوت‘ تھا۔
حماس اور القسام بریگیڈ نے ان دعوؤں پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
اسرائیلی اخبار یدیوت اہرونوت نے رپورٹ کیا ہے کہ ابو عبیدہ نے 2013 میں غزہ کی اسلامی یونیورسٹی کے شعبہ فنڈامینٹلز آف ریلیجن سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی تھی۔ اس میں کہا گیا ہے کہ اس نے ایک تحقیقی مقالہ لکھا تھا جس کا عنوان تھا کہ ’یہودیت، عیسائیت اور اسلام کے درمیان مقدس سرزمین۔ اور اخبار نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ابو عبیدہ پی ایچ ڈی کی ڈگری کے لیے تیاری کر رہے تھے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
ابو عبیدہ
اسی اخبار کے مطابق ابو عبیدہ کا تعلق اصل میں غزہ کے گاؤں نالیہ سے ہے جس پر اسرائیل نے 1948 میں قبضہ کیا تھا۔اب اطلاعات کے مطابق وہ غزہ کے شمال مشرق میں جبالیہ میں رہتے ہیں۔
اسرائیلی اخبار کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے 2008-2012 میں اور غزہ کی پٹی میں موجودہ آپریشن میں ایک سے زیادہ بار ان کے گھر پر بمباری کی گئی۔
تاہم بی بی سی ایسی رپورٹس کی آزادانہ تصدیق نہیں کر سکا جو عرب اور اسرائیلی میڈیا میں شائع ہوئی ہیں۔
Comments are closed.