غزہ جنگ: اقوام متحدہ کے چارٹر کا طاقتور آرٹیکل 99 جس کا آخری بار تذکرہ مشرقی پاکستان کی جنگ میں ہوا تھا

غزہ جنگ

،تصویر کا ذریعہEPA

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے غزہ میں ’انسانی بحران کے سنگین خطرے‘ سے خبردار کرتے ہوئے فوری طور پر انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔

انھوں نے اس ضمن میں بدھ کو ایک غیر معمولی اقدام اٹھاتے ہوئے اپنے پاس موجود صوابدیدی اختیار کا استعمال کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 99 کا نفاذ کیا ہے۔

انھوں نے اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 99 کے نفاذ کا جواز پیش کرتے ہوئے سلامتی کونسل کے صدر کو خط لکھا جس میں ان کا کہنا تھا کہ ’غزہ میں صورتحال تیزی سے ایک انسانی تباہی کی طرف بڑھ رہی ہے، جس کے ممکنہ طور پر فلسطینیوں اور خطے میں امن و سلامتی کے لیے ناقابل واپسی اثرات مرتب ہوں گے۔ اس نتیجے سے ہر قیمت پر گریز کیا جانا چاہیے۔‘

آرٹیکل 99 کیا ہے؟

اقوام متحدہ کے چارٹر کے باب 15 کے آرٹیکل 99 میں کہا گیا ہے کہ ’سیکریٹری جنرل سلامتی کونسل کی توجہ کسی بھی ایسے معاملے پر لا سکتے ہیں جس سے ان کی رائے میں بین الاقوامی امن و سلامتی کو خطرہ ہو۔‘

اقوام متحدہ کی وضاحت کے مطابق، یہ آرٹیکل سلامتی کونسل کی توجہ کسی بھی ایسے معاملے پر لانے کا مطالبہ کرتا ہے ’جو سیکریٹری جنرل کی رائے میں بین الاقوامی امن اور سلامتی کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔‘

محققین البرچٹ شنابیل اور ڈیوڈ کارمیٹ لکھتے ہیں کہ ’آرٹیکل 99 کا اقوام متحدہ کے چارٹر میں شمولیت ایک اہم قدم تھا جو سلامتی کونسل کو امن کو درپیش موجودہ یا ممکنہ خطرات کے بارے میں انتباہات کا فائدہ دینے کے لیے بنایا گیا تھا تاکہ یہ ادارہ مناسب یا ممکنہ طور پر احتیاطی کارروائی کر سکے۔‘

ان کے مطابق آرٹیکل 99 کا اطلاق صرف ’نئے معاملات‘ پر ہوتا ہے، یعنی ایسے معاملات جن پر سلامتی کونسل پہلے سے بحث نہیں کر رہی ہو۔

وہ مزید لکھتے ہیں ’تاہم اصل میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے آرٹیکل 99 کی بہت زیادہ وسیع پیمانے پر تشریح کی ہے، جس کی وجہ سے انھوں نے حقائق کی کھوج کی آزادانہ تحقیقات انجام دینے اور کسی بھی بحران کی روک تھام کے لیے معلومات اکٹھی کرنے کا اختیار فراہم کیا ہے۔‘

انتونیو گوتیرس

،تصویر کا ذریعہGetty Images

اسرائیل کا ردعمل

اسرائیل نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس کی جانب سے اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 99 کے نفاذ پر اسرائیل نے فوری ردعمل دیا۔ اسرائیلی وزیر خارجہ ایلی کوہن نے کہا کہ گوتیرس انتظامیہ عالمی امن کے لیے خطرہ ہے۔

انھوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ ’آرٹیکل 99 کو فعال کرنے کی آپ کی درخواست اور غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ دہشت گرد تنظیم حماس کی حمایت اور بزرگوں کے قتل، بچوں کے اغوا اور خواتین کی عصمت دری کی توثیق ہے۔‘

اسرائیلی وزیر نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ ’جو بھی عالمی امن کی حمایت کرتا ہے اسے حماس سے غزہ کی آزادی کی حمایت کرنی چاہیے۔‘

انتونیو گوتیرس

،تصویر کا ذریعہGetty Images

گوتیرس کی جانب سے آرٹیکل 99 کا پہلی مرتبہ استعمال

اپنے خط میں سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے بین الاقوامی سلامتی کو یقینی بنانے کے انچارج ادارے پر زور دیا کہ وہ جنگ بندی کی درخواست کے ذریعے انسانی تباہی کے بحران سے بچنے کے لیے مداخلت کرے جو امداد کی فراہمی میں سہولت فراہم کرتا ہے اور شہری آبادی کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔

سیکریٹری جنرل نے اپنے خط میں فلسطینیوں کی 15,000 سے زیادہ اور اسرائیل کی 1,200 ہلاکتوں، لاکھوں افراد کی جبری نقل مکانی، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جنگ کے نتیجے میں غزہ میں صحت کے نظام کی مخدوش صورتحال کے متعلق بتایا ہے۔

سنہ 2017 میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کا عہدہ سنبھالنے کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب گوتیرس نے آرٹیکل 99 کا اطلاق کیا ہے۔

سلامتی کونسل کے صدر کو لکھے گئے خط میں انھوں نے کہا کہ غزہ کی صورتحال تیزی سے خراب ہو رہی ہے جس کے فلسطینیوں اور پورے خطے کی سلامتی کے لیے ممکنہ طور پر ناقابل واپسی مضمرات ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

آرٹیکل 99 کے اطلاق کا مطلب کیا ہے؟

یہ دباؤ ڈالنے کے حربے کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔

اقوام متحدہ دو اہم اداروں پر مشتمل ہے: جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل۔

جنرل اسمبلی میں تمام رکن ممالک کی نمائندگی ہوتی ہے لیکن اس کے حکام پابند نہیں ہوتے۔ کونسل، دریں اثنا، فیصلہ ساز ادارہ ہے جس کی قراردادیں، نظریاتی طور پر تمام ممالک کے لیے لازمی ہیں۔

تاہم، اسرائیل اور حماس کے درمیان یا روس اور یوکرین کے درمیان جیسے اہم اور بڑے تنازعات پر کونسل کے پانچ مستقل اراکین (امریکہ، برطانیہ، فرانس، چین اور روس) میں سے ہر ایک کو کسی بھی قرارداد کو ویٹو کرنے کا حق حاصل ہے۔

اسرائیل اور حماس کے درمیان تنازعے میں اب تک امریکہ کا موقف یہ ہے کہ جنگ بندی کے اقدامات کو روکا جائے کیونکہ اس سے خیال میں یہ حماس کو فائدہ پہنچے گا۔

آرٹیکل 99 سیکریٹری جنرل کو معاملات سلامتی کونسل کو بھیجنے کے علاوہ کوئی اختیار نہیں دیتا۔ اس صورت میں اس کا استعمال سلامتی کونسل کو متنبہ کرنے کا کام کرتا ہے کہ غزہ کی صورت حال ایک انسانی تباہی کے دہانے پر ہے۔

اس کا مقصد ارکان پر فوری طور پر مذاکرات، مسودہ تیار کرنے اور جنگ بندی کا مطالبہ کرنے والی قرارداد منظور کرنے کے لیے دباؤ ڈالنا ہے۔

یا یہ کہ کم از کم مستقل اراکین ویٹو کا اپنا حق استعمال نہیں کرتے ہیں اگر دوسرے اراکین اس معنی میں کوئی تجویز پیش کریں۔

نیویارک میں بی بی سی کی نامہ نگار نادا توقیف کے مطابق ’انتونیو گوتیرس اس آرٹیکل کے اطلاق کے ذریعے سلامتی کونسل پر انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کی درخواست کرنے اور اس ہفتے اجلاس بلانے کے لیے دباؤ ڈالنا چاہتے ہیں۔‘

لیکن اگر ایسا ہوتا ہے اور سکیورٹی کونسل فوری طور پر جنگ بندی کے مطالبے کی ایک قرارداد منظور کرتی ہے تو اس تنازعے میں شامل فریق اسرائیل اور حماس ادارے کے اختیار کو نظر انداز کر سکتے ہیں اور ایک دوسرے پر حملے جاری رکھ سکتے ہیں۔

نادا توقیف کا کہنا ہے کہ ’اقوام متحدہ کے سربراہ کا یہ سخت اقدام سلامتی کونسل سے ان کی مایوسی کا ایک طاقتور اظہار اور ان کی ذمہ داریوں کی یاد دہانی بھی ہے۔‘

سلامتی کونسل کا اجلاس

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ماضی کی مثالیں

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس کے ’سخت اور غیر معمولی اقدام‘ کی وضاحت اس بات سے ملتی ہے کہ ماضی میں اس آرٹیکل کے اطلاق کی مثالیں بہت کم ملتی ہیں۔

ماضی میں اقوام متحدہ کے صرف تین سیکریٹری جنرلز نے چارٹر کے آرٹیکل 99 کو باضابطہ طور پر استعمال کیا ہے۔

پہلی مرتبہ اس اختیار کا استعمال 1960 میں کیا گیا تھا جب اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل ڈاگ ہیمر شولڈ انھوں نے کانگو کے بحران پر سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا تھا۔

13 جولائی 1960 کو ہیمرشولڈ نے اس وقت لکھے گئے خط میں کہا تھا کہ ’مجھے سلامتی کونسل کی توجہ ایک ایسے معاملے کی طرف مبذول کرانی ہے جو میرے خیال میں بین الاقوامی امن و سلامتی کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔‘

ان کے خط کے بعد سلامتی کونسل نے فوری ردعمل دیا تھا اور اور اس کے اگلے دن کانگو کی حکومت کی حمایت میں اقوام متحدہ کے فوجی دستوں کی تعیناتی کی اجازت دی گئی تھی۔

ہیمرشولڈ جو 1953 اور 1961 کے درمیان اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے عہدے پر فائز رہے اس حد تک آگے بڑھ گئے تھے کہ ان کے بارے میں کہا گیا کہ آرٹیکل 99 نے سیکریٹری جنرل کو ’انتظامی عہدیدار سے واضح سیاسی ذمہ داری والے شخص میں تبدیل کر دیا ہے۔‘

اس کے علاوہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 99 کا باضابطہ طور پر دو بار اور استعمال کیا گیا۔ ایک سنہ 1979 میں ایران میں امریکی یرغمالی بحران اور دوسری مرتبہ سنہ 1989 میں لبنان میں تشدد میں اضافہ۔

سنہ 1960 میں اس کے استعمال کی مثال کے برعکس ان دونوں مرتبہ میں سے کسی بھی ہنگامی صورتحال میں سلامتی کونسل نے فوجی مداخلت کی اجازت نہیں دی۔

دیگر مواقع پر اقوام متحدہ کے مختلف رہنماؤں نے آرٹیکل 99 کو استعمال کیے بغیر، کونسل پر اسی آرٹیکل کی روشنی میں زور دیا ہے کہ وہ سنگین حالات کی روک تھام کے حوالے سے کام کرے۔

گذشتہ دہائی میں اقوام متحدہ کی داخلی رپورٹوں میں باضابطہ اور موثر ابتدائی انتباہ کی کمی کو اجاگر کیا گیا، اور کئی مواقع پر ادارے نے سیکریٹری جنرل کی حوصلہ افزائی کی ہے کہ وہ سلامتی کونسل کو متنبہ کرنے کے لیے آرٹیکل 99 کے اختیار کا استعمال کریں۔

اقوام متحدہ کے ترجمان ستیفان دوجاریک نے کہا ہے کہ سیکریٹری جنرل کی جانب سے آرٹیکل 99 کا استعمال ’ڈرامائی اقدام ہے‘۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اس سے قبل آرٹیکل 99 کا ذکر دسمبر 1971 میں اس وقت کے سیکریٹری جنرل یو تھانٹ نے کیا تھا جب انھوں نے کونسل کو مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) اور برصغیر کی صورتحال کے بارے میں بتایا جس سے عالمی امن و سلامتی کو خطرہ درپیش تھا۔‘

یہ غیر واضح ہے کہ مشرقی پاکستان کی صورتحال پر اس وقت کے سیکریٹری جنرل نے آرٹیکل 99 کا استعمال کیا تھا، مگر انھوں نے اسی آرٹیکل کی روشنی میں سکیورٹی کونسل کو اپنی طرف سے کیے گئے اقدامات کے حوالے سے آگاہ کیا تھا۔

اقوام متحدہ کی دستاویزات کے مطابق 3 دسمبر 1971 کو ’مشرقی پاکستان میں سرحدی کشیدگی پر سیکریٹری جنرل نے اپنی کوششوں کے بارے میں آرٹیکل 99 کے تحت سکیورٹی کونسل کے صدر کو آگاہ کیا تھا۔‘

اس کی طرف سے کہا گیا تھا کہ ’سکیورٹی کونسل میں اس حوالے سے کوئی اقدامات فریقین یا کونسل کے رکن خود لے سکتے ہیں۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ