حماس کی قید میں اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے لیے قطر کی ثالثی کتنی اہم ہے؟

قطر

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES

  • مصنف, فرینک گارڈنر
  • عہدہ, سکیورٹی نامہ نگار، بی بی سی

قدرتی گیس کے ذخائر سے مالا مال ایک چھوٹی سی خلیجی ریاست قطر کا نام اُس وقت ایک مرتبہ پھر شہ سُرخیوں میں نظر آنے لگا جب سات اکتوبر کو حماس کے جنوبی اسرائیل پر حملے کے نتیجے میں 200 سے زیادہ افراد کو یرغمال بنایا گیا۔ اہم بات یہ ہے کہ ان یرغمالیوں کی قسمت کسی حد تک قطر کے ہاتھ میں ہے۔

مگر یہ کیوں؟ سادہ سی بات یہ ہے کہ قطر اسرائیل اور اس کے مخالف حماس کے درمیان اہم ثالث کا کردار ادا کر رہا ہے۔

امریکی صدر جو بائیڈن اور برطانوی وزیر اعظم رشی سونک دونوں اب تک چار یرغمالیوں کی رہائی میں کردار ادا کرنے پر قطر اور اس کے امیر کا شکریہ ادا کر چکے ہیں۔ بدھ کے روز اسرائیل کے قومی سلامتی کے مشیر نے بھی یرغمالیوں کی رہائی اور قطر کے ثالثی کے کردار کو سراہا۔

قطر کو یقین ہے کہ مناسب وقت، صبر اور مسلسل ترغیب کے عمل کی مدد سے آنے والے دنوں میں مزید درجنوں یرغمالیوں کی رہائی کے لیے بات چیت کر سکتا ہے۔ تاہم غزہ میں اسرائیل کی کسی بھی زمینی مداخلت سے یہ سلسلہ مزید مشکل ہو سکتا ہے۔

قطری حکام کا کہنا ہے کہ یہ یرغمالی ممکنہ طور پر دہری شہریت کے حامل اور غیر اسرائیلی ہوں گے۔

اس بات کا غالب امکان ہے کہ حماس اغوا کیے جانے والے اسرائیلی فوجیوں کو اپنی حراست میں رکھنا چاہتے ہیں تاکہ اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینی قیدیوں کے لیے ان کا تبادلہ کیا جا سکے۔

لیکن اس نازک معاملے میں قطر کو بھی شدید خطرات لاحق ہیں۔

مواد پر جائیں

ڈرامہ کوئین

ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

حماس کے اسرائیل پر حملے کی تفصیلات سامنے آنے کے بعد کچھ لوگ اس سوال کا جواب جاننا چاہتے ہیں کہ یہ بڑا مغربی اتحادی – جو امریکی فوجی اڈے کی میزبانی کرتا ہے – برطانیہ، امریکہ اور دیگر کی جانب سے دہشت گرد قرار دی گئی تنظیم کے سیاسی ونگ کو گھر یا محفوظ مقام کیوں فراہم کرتا ہے؟

اگر قطر کی کوششیں بڑی حد تک بے نتیجہ ثابت ہوتی ہیں تو مغرب میں اس کی ساکھ متاثر ہوسکتی ہے اور قطر پر ان تنظیموں کے دفتر کو بند کرنے کا دباؤ بڑھ سکتا ہے۔

قطر کی اس کوشش سے متعلق صرف یہ کہنا کہ ’یہ معاملہ نازک ہے‘ ناکافی ہوگا۔

اسرائیل اب بھی سات اکتوبر کے بعد سے حماس کے حملوں کا سامنا کر رہا ہے، اور جوابی کاروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ دونوں جانب سے جاری ایک دوسرے پر حملوں کے نتیجے میں قریب آٹھ ہزار افراد جان کی بازی ہار چُکے ہیں۔

غزہ 23 لاکھ فلسطینیوں کا گھر ہے اور حماس کی 2007 سے اس پر حکمرانی ہے۔

غزہ میں حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے مطابق اسرائیل کی جانب سے دو ہفتوں سے زائد عرصے سے کیے جانے والے فضائی حملوں میں اب تک سات ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ تاہم اقوام متحدہ کی جانب سے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

اسرائیل نے حماس کو تباہ کرنے کا عہد کیا ہے جسے برطانیہ، امریکہ اور دیگر ممالک نے دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ دونوں فریقوں کو ایک ثالث کی ضرورت ہے۔

یرغمالی

،تصویر کا ذریعہEPA

،تصویر کا کیپشن

رہائی پانے والی 85 سالہ یرغمالی یوچیوڈ لیفشٹز (سی) اپنی بیٹی شیرون کے بغل میں میڈیا سے بات کر رہی ہیں

تو یرغمالیوں کی رہائی کے لیے مذاکرات کیسے ہوتے ہیں؟

قطر حماس کی سیاسی قیادت کا گھر ہے، اور 2012 سے دوحہ میں حماس کا مرکزی دفتر قائم ہے جس کے سربراہ رہنما اسماعیل ہانیہ ہیں۔

شیشے اور سٹیل سے جگمگاتی جدید طرزِ تعمیر پر بنی بلند و بالا عمارتوں کے مرکز دوحہ میں حماس کے نمائندے قطری وزارتِ خارجہ کے حکام کے ساتھ یرغمالیوں کی رہائی کے پیچیدہ معاملے پر بات چیت جاری رکھے ہوئے ہیں۔

مجھے یہ بتایا گیا ہے کہ قطر کی جانب سے ثالثی کرنے والوں کے لیے یہ کام کوئی نئی بات نہیں۔

ثالثی کرنے والوں کا تعلق قطر کے ایک خاص حکومتی محکمے یا ادارے سے ہے، جو غزہ میں حماس کے ساتھ تعلقات کی نگرانی کرتا ہے، اور نہ صرف یہ بلکہ وہ قطر کی جانب سے غزہ کے بنیادی ڈھانچے اور سول سروس کو فعال رکھنے کے لیے سالانہ کروڑوں ڈالر ادا کرنے کے لیے اپنی سفارشات بھی قطری انتظامیہ کے سامنے رکھتا ہے۔

بہت سے قطری حکام غزہ جا چکے ہیں اور حماس کے سینیئر رہنما انھیں اچھی طرح جانتے ہیں۔

اپنے خلیجی ہمسایہ ممالک بحرین اور متحدہ عرب امارات کے برعکس قطر کے اسرائیل کے ساتھ کوئی باضابطہ سفارتی تعلقات نہیں ہیں حالانکہ 1990 کی دہائی میں اس نے ایک اسرائیلی تجارتی دفتر کی میزبانی کی تھی۔

لیکن بیک چینل پر بات چیت ہوتی ہے اور یرغمالیوں سے بات چیت کے دوران اہم لمحات میں قطری حکام اپنے اسرائیلی مذاکرات کاروں سے فون پر بات کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔

یہاں کام کرنے میں بہت سارے عوامل کار فرما ہیں۔

حماس کو اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی سے بہت کم فائدہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے، لیکن اس تنظیم کو پہلے ہی خواتین اور بچوں کے اغوا پر تنقید کا نشانہ بنایا جا چکا ہے اور بنایا جا رہا ہے۔ سعودی عرب کے ایک سینیئر شہزادے ترکی الفیصل حماس پر تنقید کرتے ہوئے یہاں تک کہ چُکے ہیں کہ ’یہ اسلامی احکامات اور تعلیمات کے خلاف ہے۔‘

بعض تجزیہ کاروں کا یہ خیال ہے کہ حماس ان یرغمالیوں سے جتنا جلدی مُمکن ہو اپنی جان چھڑوانا چاہتا ہے۔ سٹریٹجک تھینک ٹینک سیبلائن سے تعلق رکھنے والے جسٹن کرمپ کا کہنا ہے کہ ‘یہ ان کے لیے درست نہیں۔‘

جسٹن کرمپ نے اس بات کی جانب اشارہ کیا اور نشاندہی کی کہ بہت سارے یرغمالیوں کے ٹھکانے کو اسرائیل سے خفیہ رکھنے کے ساتھ ساتھ جنگ کے دوران ان یرغمالیوں کو کھانا کھلانا اور ان کی دیکھ بھال کرنا حماس کے بس کی بات نہیں اور یہ اُن کے لیے ایک بڑا لاجسٹک چیلنج ہے۔

اسرائیل اور دیگر جگہوں پر بہت سے خاندان پرامن طریقوں سے اپنے پیاروں کی رہائی کے لیے بے چین ہیں اور اسرائیلی حکومت پر دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ غزہ میں زمینی حملے کو مؤخر کرے۔ یہ خیال بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ اگر اسرائیل کی جانب سے زمینی کارروائی کا آغاز ہوتا ہے تو نہ صرف یرغمالیوں کی رہائی کے لیے قطر کی ثالثی میں جاری مذاکرات متاثر ہوں گے بلکہ یرغمالیوں کی جانوں کو بھی شدید نوعیت کے خطرات لاحق ہو جائیں گے۔

تو پھر رہائی کا طریقہ کار یہ ہوگا؟

یہ توقع کی جا رہی تھی حماس کی جانب سے یرغمالیوں کو زیر زمین رکھا جائے گا، اور حماس نے انھیں زیر زمین سرنگوں میں چھپا کر رکھا ہے۔ جن چند افراد کو رہا کیا گیا ہے انھیں بین القوامی امدادی تنظیم ریڈ کراس کے حوالے کر دیا گیا۔

لیکن 50 یا اس سے زیادہ افراد کی منتقلی کو تقریباً مسلسل فضائی حملوں میں ایک وقفے کی ضرورت ہوگی۔ حماس اس تعطل کو جنگ بندی میں تبدیل کرنا چاہتی ہے۔

لیکن بنیامن نتن یاہو کی اسرائیلی حکومت نے اس جنگ کے خلاف اس وقت تک کارروائی کرنے کا عہد کیا ہے جب تک حماس کو تباہ نہیں کر دیا جاتا اور اسی وجہ سے وہ حماس کو سانس لینے کے لیے کسی بھی قسم کی جگہ دینے سے گریزاں ہے۔

یرغمالی

،تصویر کا ذریعہEPA

،تصویر کا کیپشن

اسرائیلی یرغمالیوں کے رشتہ داروں نے لندن میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے رہائی میں مدد کی اپیل کی

یہ پہلا موقع نہیں جب قطر ایک مفید ثالث کے طور پر ابھرا ہے۔

کئی سالوں تک اس نے طالبان کے لیے ایک سفارت خانے کی میزبانی کی جب وہ افغانستان میں اقتدار سے باہر تھے۔ مجھے یاد ہے کہ 2013 میں اس کی رپورٹنگ کی گئی تھی جب طالبان نے دوحہ میں اپنے کمپاؤنڈ کے اندر اپنا سفید پرچم لہرا کر کابل میں افغان حکومت کو مشتعل کر دیا تھا۔

اگرچہ امریکہ اور اس کے اتحادی طالبان کے ساتھ جنگ کر رہے تھے لیکن درحقیقت یہ واشنگٹن کے لیے موزوں تھا کہ انھیں ایک ایسا مقام یا جگہ ملے جہاں وہ ان سے بات کر سکیں، جس کے نتیجے میں 2020 کا متنازع امن معاہدہ ہوا اور اگلے سال کابل سے مغربی ممالک کا انخلا ہوا۔

شلوار قمیض میں ملبوس داڑھی والے طالبان کمانڈر اپنی بیویوں کو دوحہ کے اے سی مالز میں خریداری کے لیے لے جایا کرتے تھے جس پر دوحہ کے رہائشی تبصرے کرتے تھے۔

قطر

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES

،تصویر کا کیپشن

دوحہ نے 2020 میں مذاکرات کے لیے طالبان کی میزبانی کی

عراق اور شام میں، قطریوں نے شدت پسند تنظیم نام نہاد دولت اسلامیہ (داعش) کے زیر حراست کچھ یرغمالیوں کی رہائی کے لیے اپنے مربوط انٹیلیجنس رابطوں کو استعمال کیا۔

حال ہی میں قطر نے یوکرین کے چار بچوں کے اہل خانہ کو واپس کرنے کے لیے بات چیت کی، جنھیں مبینہ طور پر روس نے اغوا کر لیا تھا۔ یوکرین کی جانب سے قطر کو اس معاملے میں روس کے ساتھ ثالث کا کردار ادا کرنے کی درخواست کی گئی۔

یہ سب کچھ قطر کو بہت سے ممالک کے لیے ایک قابل قدر شراکت دار بناتا ہے، جن میں سے کچھ اپنے لوگوں کو غزہ سے نکالنے کے لیے اس کے دروازے پر دستک دیتے ہیں۔

قطر اس تنازع میں ثالث کے طور پر اپنا کردار ادا کرنے میں کامیاب ہوتا ہے یا نہیں، اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آیا وہ غزہ میں جنگی حالات ختم کرنے میں کامیاب ہوتا ہے جس کی بدولت زیادہ سے زیادہ یرغمالیوں کی رہائی ممکن ہوگی۔

BBCUrdu.com بشکریہ