حماس کو ‘دہشت گرد تنظیم’ قرار دینا انڈیا کے لیے کتنا مشکل اور پیچیدہ معاملہ ہے؟
،تصویر کا ذریعہGetty Images
- مصنف, پریرنا
- عہدہ, نمائندہ بی بی سی، دہلی
فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس نے رواں ماہ 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حملہ کیا اور اسے ‘آپریشن الاقصیٰ فلڈ’ کا نام دیا۔ انڈین وزیر اعظم نریندر مودی سمیت دنیا بھر کے رہنماؤں نے حماس کے اس حملے کی مذمت کی ہے۔
جہاں مغربی ممالک نے کھلے عام اسے ‘دہشت گردانہ حملہ’ قرار دیا ہے وہیں مودی نے بھی اس حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے ٹویٹ کیا تھا۔ انھوں نے بھی اسے ‘دہشت گردانہ’ حملہ قرار دیا۔ تاہم پی ایم مودی کے ٹویٹ میں کہیں بھی حماس کا ذکر نہیں تھا۔
انڈیا نے باضابطہ طور پر حماس کو ابھی تک ‘دہشت گرد تنظیم’ قرار نہیں دیا ہے۔ یورپی یونین اور امریکہ اس حملے سے پہلے ہی حماس کا دہشت گرد تنظیم میں شمار کرتے ہیں۔
انڈیا میں اسرائیل کے سفیر ناؤر گیلون نے بدھ کے روز مودی حکومت سے حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کی اپیل کی جس کے بعد یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ کیا انڈیا حماس کو ‘دہشت گرد تنظیم’ قرار دے سکتا ہے؟
حماس پر دنیا بھر کی رائے منقسم ہے۔ عرب اسلامی ممالک حماس کے بارے میں ایک الگ نظر سے سوچتے ہیں اور مغربی ممالک کچھ اور سوچتے ہیں۔ ایشیا میں بھی حماس کے حوالے سے اتفاق رائے نہیں ہے۔
بدھ کو ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے یہاں تک کہا کہ حماس دہشت گرد تنظیم نہیں ہے بلکہ وہ اپنی سرزمین اور لوگوں کی آزادی کے لیے لڑ رہی ہے۔
،تصویر کا ذریعہANI
انڈیا میں اسرائیل کے سفیر ناؤر گیلون
اسرائیلی سفیر نے کیا کہا؟
انڈیا میں اسرائیل کے سفیر ناؤر گیلون نے بدھ کو میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انڈیا پوری دنیا میں ایک اہم ‘آواز’ ہے۔
گیلون نے کہا: ‘وزیر اعظم مودی دہشت گردانہ حملے کی مذمت کرنے والے پہلے عالمی رہنماؤں میں سے ایک تھے۔ انڈیا اسرائیل کا قریبی اتحادی ہے اور جب دہشت گردی کی بات آتی ہے تو انڈیا خود اس کا شکار رہا ہے۔۔۔ وہ اس کی سنگینی کو سمجھتا ہے۔ اس لیے اب وقت آگیا ہے کہ انڈیا حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دے۔’
اسرائیلی سفیر نے کہا کہ بیشتر جمہوری ممالک حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دے چکے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ‘ہم نے اس بارے میں متعلقہ حکام سے بات کی ہے۔ یہ پہلی بار نہیں ہے جب ہم نے اس بارے میں بات کی ہے۔ ہم دہشت گردی کے خطرات کے مسئلے کو سمجھتے ہیں۔۔۔ ہم (انڈیا پر) دباؤ نہیں ڈال رہے ہیں۔ ہم صرف پوچھ رہے ہیں۔’
،تصویر کا ذریعہANI
انڈین وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی
انڈیا کا جواب
7 اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی نے اسے دہشت گردانہ حملہ قرار دیا تھا۔ لیکن انڈیا نے ابھی تک سرکاری طور پر حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار نہیں دیا ہے۔
ایسے میں اسرائیلی سفیر کی اس اپیل کے بعد نیوز ویب سائٹ ‘دی پرنٹ’ نے انڈین وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی سے رابطہ کیا۔
‘دی پرنٹ’ سے بات کرتے ہوئے ارندم باگچی نے کہا کہ کسی بھی تنظیم کو دہشت گرد تنظیم قرار دینا ‘قانونی معاملہ’ ہے۔
انھوں نے کہا: ‘کسی کو دہشت گرد تنظیم کے طور پر نامزد کرنا انڈین قوانین کے تحت ایک قانونی مسئلہ ہے۔ میں آپ کو مشورہ دوں گا کہ اس معاملے میں متعلقہ حکام سے بات کریں۔ میرا خیال ہے کہ ہم بہت واضح ہیں کہ ہم اسے دہشت گردانہ حملے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ لیکن دہشت گرد تنظیم کے سوال پر صرف متعلقہ افراد ہی صحیح جواب دینے کے مجاز ہیں۔’
اس سے قبل 12 اکتوبر کو وزارت خارجہ کی پریس کانفرنس کے دوران ایک صحافی نے باگچی سے سوال کیا کہ کیا انڈیا نے حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے؟
اس وقت بھی باگچی نے اس کا کوئی واضح جواب نہیں دیا تھا۔ انھوں نے کہا تھا کہ اس طرح کے فیصلے لینا وزارت خارجہ کی ذمہ داری نہیں ہے۔ ‘ہمارا فوکس اپنے شہریوں کی مدد کرنا ہے’۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
حماس کے جنگجو
انڈیا حماس کو دہشت گرد تنظیم کیوں نہیں مانتا؟
یورپی یونین، امریکہ، برطانیہ، کینیڈا جیسے مغربی ممالک حماس کو دہشت گرد تنظیم سمجھتے ہیں۔ لیکن انڈیا نے حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار نہیں دیا ہے۔
اس بات کو سمجھنے کے لیے ہم نے دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی میں سینٹر فار ویسٹ ایشین سٹڈیز کی پروفیسر ڈاکٹر سجتا ایشوریہ اور انڈین کونسل آف ورلڈ افیئرز کے سینیئر فیلو اور مشرق وسطیٰ کے ماہر ڈاکٹر فضل الرحمان سے بات کی۔
سجاتا ایشوریہ کا کہنا ہے کہ یہ سوالات پہلے بھی اٹھائے گئے ہیں اور انڈیا کے سابق وزرائے اعظم کو بھی ان سوالات کا سامنا رہا ہے۔
سجاتا کہتی ہیں: ’انڈیا کی خارجہ پالیسی میں حماس اور حزب اللہ جیسی تنظیموں کو دہشت گرد تنظیمیں قرار نہیں دیا گیا ہے۔ اس کی تین بنیادی وجوہات ہیں۔ پہلی یہ کہ حماس یا حزب اللہ نے کبھی انڈیا کو براہ راست نقصان نہیں پہنچایا۔
’انڈیا نے ان دیگر تنظیموں کے خلاف اقوام متحدہ میں آواز اٹھائی جنھوں نے ہندوستانی سرحد کے اندر دہشت گردی کی کارروائیاں کیں اور انھیں دہشت گرد تنظیمیں قرار دینے کی اپیل کی۔ جیسے جیش محمد وغیرہ۔’
حماس نے سنہ 2006 میں فلسطینی اتھارٹی کے انتخابات میں حصہ لیا تھا۔ تب تمام غیر ملکی طاقتوں نے انھیں انتخابی حریف تسلیم کیا تھا۔ چنانچہ حماس سیاسی طور پر سرگرم رہی ہے اور فلسطینی انتظامیہ کا ایک حصہ ہے۔
لیکن مغربی ممالک انتخابی نتائج سے ناخوش تھے۔ انھوں نے حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا۔ اس کے ساتھ ہی اسرائیل نے غزہ پر کئی پابندیاں عائد کر دیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ فلسطینیوں نے ہی حماس کا انتخاب کیا تھا۔
سنہ 2006 سے پہلے انڈین قونصل خانہ بھی غزہ-جیریکو پلان کے تحت غزہ میں کام کر رہا تھا۔ اس لیے انڈیا حماس کو فلسطینی انتظامیہ کا حصہ سمجھتا ہے۔ حالانکہ حماس کے ساتھ انڈیا کا کوئی سرکاری تعلق نہیں ہے۔
سجاتا کہتی ہیں کہ ایسا نہ کرنے کی اخلاقی وجہ بھی ہو سکتی ہے۔ انڈیا نے خود اپنی آزادی کی جنگ لڑی ہے۔ انڈیا کی تحریک آزادی میں ایسی قوتیں بھی تھیں جنھوں نے تشدد کا سہارا لیا تھا۔
‘جسے برطانیہ نے دہشت گرد تنظیموں کے طور پر نامزد کیا وہ عام طور پر تمام قومی تحریکوں میں ایک شدت پسند قوت رہی ہیں۔ حتیٰ کہ 1940 کی دہائی میں یہودی تحریک میں متشدد قوتیں بھی شامل تھیں۔ جیسے سٹرگ گینگ اور ارگن۔ یہ سب دہشت گرد تنظیمیں تھیں۔ اس لیے اگر انڈیا کے تناظر میں دیکھیں تو اخلاقی دباؤ بھی اس کی وجہ ہو سکتی ہے۔’
ڈاکٹر فضل الرحمان فاس کے پس پشت انڈین خارجہ پالیسی کے مزاج کو ایک اہم وجہ سمجھتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں: ’انڈیا کی خارجہ پالیسی ہمیشہ غیر جانبدار رہی ہے۔ ہم نے ہمیشہ درمیانی راستہ چنا ہے۔ ہم امریکہ، یورپی یونین، برطانیہ کی طرح جارحانہ نہیں ہیں۔ انڈیا کبھی بھی کسی دوسرے ملک کی داخلی سیاست میں اپنے حکم نہیں چلاتا اور فلسطین کے ساتھ اس کے تعلقات اسرائیل سے بھی پرانے ہیں۔
’اس لیے ایک پرانے ساتھی کے طور پر انڈیا نہ صرف فلسطین بلکہ دیگر ممالک کی داخلی سیاست کا احترام کرتا ہے اور اس میں مداخلت نہیں کرتا۔’
،تصویر کا ذریعہGetty Images
دہشت گرد تنظیم قرار دینے کا طریقہ کار کیا ہے؟
سجاتا ایشوریہ کہتی ہیں کہ اس کے دو طریقے ہو سکتے ہیں۔ ملکی سطح پر آپ تمام حقائق اور وجوہات کا خاکہ پیش کر کے پالیسی بنا کر کسی مخصوص تنظیم کو دہشت گرد تنظیم قرار دے سکتے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ اگر کسی تنظیم کو بین الاقوامی سطح پر دہشت گرد تنظیم قرار دینا ہے تو اس کے لیے اقوام متحدہ موجود ہے۔
اقوام متحدہ فیصلہ کر سکتی ہے کہ کوئی تنظیم دہشت گرد ہے یا نہیں۔ باقی رکن ممالک اس پر اپنی رائے کا اظہار کرسکتے ہیں اور اسے ویٹو کرسکتے ہیں۔
مسٹر رحمان کا کہنا ہے کہ ذاتی طور پر اور میری معلومات کے مطابق کسی بھی ملک کے پاس ایسا کوئی اصول یا معیار نہیں ہے جس کے ذریعے وہ یہ فیصلہ کر سکے کہ کوئی مخصوص تنظیم دہشت گرد ہے یا نہیں۔
ایک مخصوص تنظیم کسی خاص ملک کے لیے دہشت گرد ہو سکتی ہے اور دوسرے ملک کے لیے دہشت گرد نہیں ہو سکتی۔ اس کے لیے کوئی خاص معیار نہیں ہے۔
ایسی صورت حال میں جن ممالک میں یہ تنظیمیں سرگرم ہیں یا کوئی نقصان پہنچاتی ہیں تو انھیں دہشت گرد تنظیمیں قرار دینے کا حق ہے۔
مثال کے طور پر فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) ہے جس کی اسرائیل آج بہت تعریف کر رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ ہم فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ ہیں، ابتدائی دنوں میں اسرائیل اسی تنظیم کو ‘فلسطینی قومی دہشت گرد تنظیم’ کہا کرتا تھا۔
مصر، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب جیسے ممالک حماس کو دہشت گرد تنظیم سمجھتے ہیں لیکن اسی جی سی سی (خلیج تعاون کونسل) کا حصہ ہونے کے باوجود قطر حماس کو دہشت گرد تنظیم نہیں مانتا۔ درحقیقت حماس کا قطر میں ہی ایک بیورو بھی ہے۔
،تصویر کا ذریعہAFP
خالصتان حامی سکھ تنظیم کو انڈیا دہشت گرد تنظیم کہتا ہے
کسی تنظیم کو دہشت گرد قرار دینے کے بعد کیا ہوتا ہے؟
فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے ان کے مالیاتی ذرائع چیک کیے جاتے ہیں۔ پھر اس بات پر نظر رکھی جاتی ہے کہ اس تنظیم کے کن کن دیگر اداروں سے رابطے اور تعلقات ہیں۔
یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ کون سے ممالک تنظیم کے سیاسی مقاصد کی حمایت کر رہے ہیں اور کون سے ممالک اس کے مخالف ہیں۔
مثلاً خالصتان کے حامی جن کے خلاف انڈیا نے مقدمات درج کر رکھے ہیں وہ برطانیہ میں پناہ لے رہے ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ اس لیے ان ممالک نے انھیں جگہ دی ہے اور ان سے رابطے میں ہیں۔ وہ کسی نہ کسی طریقے سے مالی امداد حاصل کرتے ہیں۔ ان تمام سرگرمیوں کی نگرانی کی جاتی ہے۔
،تصویر کا ذریعہAFP
حماس کیا ہے؟
حماس فلسطین کا ایک مسلم شدت پسند گروپ ہے۔ یہ گروپ سنہ 1987 میں پہلے انتفادہ (مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں اسرائیل کی موجودگی کے خلاف بغاوت) کے بعد وجود میں آیا۔
یہ گروپ اسرائیل کے وجود کے حق کو تسلیم نہیں کرتا اور اوسلو سمجھوتے کے اس عمل کی مخالفت کرتا ہے جس میں دو ریاستی حل کا وعدہ کیا گیا ہے۔
تنظیم کا طویل مدتی مقصد فلسطین میں اسلامی ریاست کا قیام ہے۔
حماس سیاست میں سرگرم ہے اور انتخابات بھی لڑ چکی ہے۔
تنظیم کا ایک سیاسی اور عسکری ونگ ہے۔ اس کے دو اہم کام ہیں:
ایک، مغربی کنارے اور غزہ پٹی میں سکولوں اور ہسپتالوں کی تعمیر۔ سماجی اور مذہبی طریقوں سے کمیونٹی کی مدد کرنا۔ اسماعیل ھنیہ حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ اور دسویں فلسطینی حکومت کے وزیر اعظم ہیں۔
دوسرے، حماس کے عسکری ونگ قاسم بریگیڈز نے اسرائیلی اہداف پر کئی خونریز حملے کیے ہیں۔ محمد ضیف اس وقت اس بریگیڈ کے سربراہ ہیں۔
2006 میں حماس نے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔
غزہ پر 2007 سے حماس کی حکومت ہے۔ وہاں کے تمام محکمے صرف حماس کے زیر انتظام ہیں۔ اس کے کئی سینیئر لیڈر میڈیا میں اپنے چہرے ڈھانپے ہوئے نظر آتے ہیں۔
2017 میں حماس نے بالواسطہ طور پر اسرائیل کے وجود کو تسلیم کیا اور دو ریاستی حل پر رضامندی ظاہر کی۔
Comments are closed.