حماس کا ’طوفان الاقصیٰ‘ آپریشن: وائرل ویڈیوز جو ہمیں بتاتی ہیں کہ اسرائیلی یرغمالیوں کو آخری بار کہاں دیکھا گیا
حماس کا ’طوفان الاقصیٰ‘ آپریشن: وائرل ویڈیوز جو ہمیں بتاتی ہیں کہ اسرائیلی یرغمالیوں کو آخری بار کہاں دیکھا گیا
،تصویر کا ذریعہTwitter / X
اسرائیل میں میوزک فیسٹیول کے شرکا حماس کے حملے کے بعد صحرا میں بھاگ رہے ہیں
سنیچر کے روز حماس کے اسرائیل پر اچانک حملے کے بعد ایسی درجنوں ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہیں جن میں عسکریت پسندوں کی جانب سے اسرائیلی شہریوں اور فوجیوں کو یرغمال بناتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
یرغمال بنائے جانے والے ان شہریوں کی صحیح تعداد تو نہیں بتائی گئی، تاہم اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ ان کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ حماس کا کہنا ہے کہ یرغمال بنائے جانے والے ان اسرائیلیوں کی تعداد درجنوں سے کہیں زیادہ ہے۔
بی بی سی نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ان میں سے کچھ شہریوں کو غزہ لے جایا گیا ہے۔
ہم اسرائیل اور غزہ کی پٹی میں جگہوں کی شناخت کیسے کرتے ہیں؟
ایک وائرل ویڈیو میں میوزک فیسٹیول کے شرکا صحرا سے فرار ہوتے دکھائے گئے ہیں۔
فائرنگ کی زد سے بچنے کے لیے میوزک فیسٹیول گروپ کے افراد اسرائیلی صحرا میں بھاگ کر جان بچانے کی کوشش کر رہے ہیں
فرار کی کوشش کرنے والوں میں سے کچھ عبرانی زبان میں یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ ’پلیز، سن لیں اور مہربانی کر کے کھول دیجیے۔۔۔‘ وہ کار کے دروازے کھولنے کے لیے منت سماجت کر رہے ہیں۔
اسرائیلی میڈیا کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ کبوتز رعیم میں پیش آیا۔
بی بی سی نے اس میوزک پارٹی میں شریک عینی شاہدین سے بات کر کے اس مقام کی تصدیق کی ہے۔ ویڈیو میں نظر آنے والے اس علاقے کی تصدیق سیٹلائٹ امیجز سے بھی ہوتی ہے، جن میں اس جگہ کے قریب متعدد صحرا دکھائے گئے ہیں۔
اسرائیلی یرغمالیوں کی جگہ کا پتا چلانا
،تصویر کا ذریعہGoogle
سیٹلائٹ امیج میں ریئم کا وہ علاقہ دکھایا گیا ہے جس کے قریب میوزک پارٹی ہو رہی تھی
ایک اور ویڈیو میں اسرائیلی قصبے بئيری میں عسکریت پسند اسرائیلی شہریوں کو زبردستی گھسیٹ کر لے کر جا رہے ہیں۔
اسرائیل حماس جنگ: عسکریت پسند اسرائیلی شہریوں کو یرغمال بنا کر لے جا رہے ہیں
یرغمال بنائے جانے والوں میں ایک سیاہ لباس میں ملبوس خاتون ہیں۔ جو شخص انھیں لے کر جا رہا ہے وہ عربی میں بات کرتے ہوئے سنائی دیتا ہے اور وہ کم از کم دو اور بندوں کے نام بھی عربی میں پکار رہا ہے۔
اس علاقے کی سیٹلائٹ کی مدد سے لی گئی گئی تصویر سے بھی اس سڑک کی شناخت ہوتی ہے جو ویڈیو میں نظر آنے والی سڑک، جھاڑیوں اور عمارتوں سے مشابہت رکھتی ہے۔
اس جگہ کے قریب سے ’گوگل فوٹو سفیئر‘ پر ایسی تصاویر موجود ہیں جو اس جگہ کے قریب سے لی گئی ہیں اور ان تصاویر میں بھی ویڈیوز کے طرز کی عمارتیں دکھائی گئی ہیں۔
،تصویر کا ذریعہGoogle
گوگل فوٹو سفیئر پر لی جانے والی تصاویر ویڈیوز میں دکھائی جانے والی عمارتوں سے ملتی جلتی ہیں
یرغمال بنائے جانے والوں کی شناخت کیسے ہوئی؟
ایک بہت شیئر ہونے والی ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ ایک صحرائی علاقے سے ایک اسرائیلی خاتون کو موٹربائیک پر یرغمال بنا کر لے جایا جا رہا ہے۔
،تصویر کا ذریعہTwitter / X
نوا ارمانی کی تصاویر ۔۔ ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کیسے عسکریت پسند انھیں کھیتوں سے گھسیٹ کر لے جا رہے ہیں
اس ویڈیو میں وہ ایک شخص تک پہنچنے کی کوشش کرتی نظر آتی ہیں، جنھیں حراست میں لیا جا رہا ہے۔ بعد میں اسرائیل میں سوشل میڈیا پر اس خاتون کی تصاویر شیئر کرتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ وہ لاپتہ ہیں اور ان کا نام نوا ارمانی ہے۔
بی بی سی کو ان تصاویر کی انٹرنیٹ ریورس امیج سرچ کے ذریعے نوا ارمانی کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس تک رسائی حاصل کرنے میں مدد ملی۔
نوا کے ساتھ سوشل میڈیا پر صارفین ہمدردی اور یکجہتی کا اظہار کر رہے ہیں۔
ان کے فیس بک اکاؤنٹ پر بی بی سی نے ان کے ساتھ ایک شخص کا نام دیکھا جس کے بھائی موشے اور ان کے بوائے فرینڈ اویناتن کے نام سے شناخت ہوئی ہے۔
اپنے اغوا کی ویڈیو میں، نوا ایوناتن تک پہنچتی ہیں۔ موشے نے اسرائیلی میڈیا کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ نوا ویڈیو میں خوفزدہ دکھائی دے رہی ہیں۔
ٹیٹو کے ذریعہ شناخت
سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ایک اور ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک پک اپ ٹرک میں تقریباً برہنہ خاتون کی لاش کو لے جایا جا رہا ہے۔
بعد ازاں ایک اور ویڈیو پوسٹ کی گئی جس میں ایک ماں کا کہنا تھا کہ ’لاش ان کی بیٹی کی ہے جس کی شناخت ’شانی لوک‘ کے نام سے ہوئی ہے۔
،تصویر کا ذریعہShani Louk / Instagram
شانی لوک کی لاش کی شناخت ان کی ٹانگوں پر بنے ٹیٹو سے کی گئی ہے
اُن کی والدہ کا کہنا ہے کہ ’اُن کی جرمن بیٹی مغربی نیگیو میں ہونے والی پارٹی میں شرکت کر رہی تھیں اور ان کی شناخت ان کی ٹانگوں پر ٹیٹو کے ذریعے کی گئی تھی۔
ویڈیو میں دکھائی جانے والی خاتون کے جسم کی شناخت کی تصدیق کے لیے بی بی سی نے شانی کی ویڈیو اور تصاویر تلاش کیں اور اس نتیجے پر پہنچی کہ ویڈیو میں دکھایا گیا ٹیٹو شانی کی انسٹاگرام تصاویر سے ملتا جلتا ہے۔
ویڈیوز ہمیں یرغمالیوں کے بارے میں کیا بتاتی ہیں؟
شیئر کی گئی ویڈیوز میں یرغمالی مختلف عمر کے مرد اور خواتین دونوں ہیں۔ تاہم اس بات کی تصدیق نہیں ہوئی ہے کہ آیا ان میں بچے بھی شامل ہیں یا نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ان میں عام شہری اور فوجی دونوں ہی شامل ہیں۔
ابتدائی چھاپوں کے بعد وائرل ہونے والی پہلی ویڈیو میں سے ایک میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اسرائیل اور غزہ کے درمیان ایرز کراسنگ کے باہر تین اسرائیلی فوجی موجود ہیں۔
بعد ازاں حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈ کی جانب سے پوسٹ کی گئی ایک اور ویڈیو میں انھیں فوجیوں کو چیک پوائنٹ کی عمارت کے اندر گھسیٹتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ دونوں ویڈیوز میں فوجیوں کے کپڑے ایک جیسے ہیں۔
،تصویر کا ذریعہHamas & Twitter / X
سوشل میڈیا پوسٹ میں دکھایا گیا ہے کہ فوجیوں کو عسکریت پسندوں (بائیں) اور حماس کی ایک پوسٹ (دائیں) میں دکھایا گیا ہے کہ وہی فوجی سرحد عبور کرکے غزہ کی پٹی میں داخل ہو رہے ہیں (دھندلا پن اصل پوسٹ پر تھا اور عسکریت پسندوں کی شناخت چھپاتا ہے اور یہ ایسا بی بی سی کی طرف سے نہیں کیا گیا ہے)۔
بی بی سی نے القسام کی ویڈیو کو جیو لوکیشن کی مدد سے چیک کی ہے تا کہ اس بات کی تصدیق کی جا سکے کہ سرحد کی دیواریں، نظر آنے والے ٹاورز اور عمارتیں سیٹلائٹ تصاویر میں نظر آنے والی ترتیب سے مطابقت رکھتی ہیں۔ مشرق کی طرف دھوپ کی کرنوں سے یہ پتہ چلتا ہے کہ فوٹیج صبح سویرے کی تھی۔
یرغمالیوں کو کہاں لے جایا گیا؟
بی بی سی نے اسرائیلی یرغمالیوں کی ویڈیوز کی تصدیق کی ہے اور انھیں غزہ کے مختلف مقامات پر جیو لوکیشن کی مدد سے چیک بھی کیا ہے۔
ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک ٹرک ایسے ہجوم کے درمیان سے گزر رہا ہے جو ’اللہ اکبر‘ کے نعرے لگا رہے ہیں، جبکہ ایک شخص جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ اسرائیلی یرغمالی ہے، گاڑی کے اندر لیٹا ہوا ہے۔ بی بی سی نے اس مقام کی شناخت غزہ کی پٹی میں بنی سہیلہ کے طور پر کی ہے۔
بی بی سی نے پس منظر میں ایک قصائی کی دکان کا نام فیس بک کی موجودہ ویڈیوز سے ملایا، جس میں یہی دکان دکھائی دے رہی ہے۔
،تصویر کا ذریعہTwitter / X (left) & Facebook (right)
بی بی سی نے بائیں جانب ٹوئٹر پر اس ویڈیو کی تصدیق کی، جس میں ایک پک اپ ٹرک کو دکھایا گیا ہے جس کے اندر ایک اسرائیلی یرغمالی ہے، دکان کے نشان کا موازنہ دائیں جانب ایک پرانی فیس بک پوسٹ سے کیا جس میں اسی دکان کی نشانی یعنی اس کا نام دکھایا گیا ہے۔
ایک اور ویڈیو وائرل ہو رہی ہے جس میں ایک اسرائیلی فوجی کو سفید رنگ کی گاڑی سے گھسیٹتے ہوئے شدید زخمی یا مردہ حالت میں دکھایا گیا ہے۔
بی بی سی جیو لوکیشن کی مدد سے اس ویڈیو کی جگہ کا پتا چلایا جو غزہ میں الاودہ روڈ کے قریب واقع ہے، جس میں ویڈیو کے پس منظر میں نظر آنے والی پلمبنگ کی دکان کے نام سے مماثلت پائی گئی۔
،تصویر کا ذریعہFacebook
بی بی سی نے ایک ویڈیو کی تصدیق کی جس میں ایک شخص کو کار سے گھسیٹا جا رہا ہے اور پس منظر میں ایک پلمبنگ کی دکان پر لگے سائن کا موازنہ اسی دکان کے فیس بک پیج پر پوسٹ کی گئی ایک تصویر سے کیا گیا ہے۔
بی بی سی کے تصدیقی کام سے پتہ چلتا ہے کہ حماس کے عسکریت پسندوں نے شہریوں اور فوجیوں پر انتہائی احتیاط اور مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ حملہ کیا ہے، جس میں واضح طور پر یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیلیوں کو غزہ لے جایا جائے۔
Comments are closed.