جےشنکر اور بلنکن ملاقات: طالبان اور چین کے لیے کیا اشارے ہیں؟
- دلنواز پاشا
- بی بی سی ہندی، نئی دہلی
دہلی میں جمعرات کو اگرچہ انڈیا اور امریکہ کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں کووڈ کی وبا اور دوطرفہ دلچسپی کے دیگر عالمی امور پر تبادلہ خیال بھی ہوا لیکن جے شنکر اور بلنکن کی گفتگو میں افغانستان کی سلامتی کی صورتحال سب سے اہم مسئلہ تھا۔
انڈین وزیر خارجہ ایس جے شنکر کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے کہا کہ پر امن اور مستحکم افغانستان امریکہ اور انڈیا کے مشترکہ مفاد میں ہے۔
بلنکن نے کہا کہ ’انڈیا خطے میں امریکہ کا قابل اعتماد حلیف ہے اور انڈیا نے افغانستان میں استحکام اور ترقی لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور امید ہے کہ آئندہ بھی انڈیا اس کردار کو ادا کرتا رہے گا۔‘
انڈین وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے افغانستان میں جمہوریت کے استحکام اور مضبوطی پر بھی زور دیا۔ امریکی وزیر خارجہ سے ملاقات کے بعد انھوں نے کہا کہ انڈیا اور امریکہ دونوں کو یقین ہے کہ افغانستان میں بحران کا فوجی حل نہیں ہو سکتا۔
امریکی فوجی اگست کے آخر تک مکمل طور پر افغانستان سے چلے جائیں گے۔ سکیورٹی کی نئی صورتحال میں طالبان نے افغانستان میں تیزی سے پیش قدمی کی ہے اور وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انھوں نے ملک کے آدھے سے زیادہ حصے پر قبضہ کر لیا ہے۔
طالبان کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے بلنکن نے کہا: ’طالبان عالمی سطح پر پہچان چاہتے ہیں، وہ افغانستان کے لیے عالمی حمایت اور پابندیوں سے فرار چاہتے ہیں، لیکن ملک کو طاقت کے ساتھ حاصل کرنا اور لوگوں کے حقوق پامال کرنا ان مقاصد کے حصول کا راستہ ہے۔ ایسا نہیں ہوسکتا۔‘
’طالبان کے لیے ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے بیٹھ کر تنازع حل کرنے کے لیے بات کرنا۔‘
امریکہ کی پریشانی
بلنکن نے کہا کہ ‘جیسے جیسے طالبان شہروں کی طرف بڑھ رہے ہیں، ان کی سرگرمیاں پریشان کن ہوتی جا رہی ہیں۔ ہم افغان حکومت اور افغانستان کی سکیورٹی فورسز کی حمایت کرتے ہیں۔ ایک ایسا ملک جو اپنے ہی شہریوں پر ظلم کرتا ہے وہ قابلِ قبول نہیں ہے۔‘
بلنکن نے کہا کہ اگر طالبان نے طاقت کے ذریعے افغانستان پر قبضہ کر لیا تو افغانستان ایک ناکام ریاست بن جائے گا۔
انھوں نے کہا کہ اگرچہ امریکی فوجی افغانستان سے نکل رہے ہیں، امریکہ افغانستان میں متحرک رہے گا۔ بلنکن نے کہا کہ امریکہ کا کابل میں ایک مضبوط سفارتخانہ ہے اور امریکہ افغانستان میں ترقیاتی پروگراموں کو جاری رکھے گا اور سکیورٹی کی مدد فراہم کرے گا۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس گفتگو میں امریکہ نے انڈیا کو یقین دلایا ہو گا کہ افغانستان میں اس کے مفادات کا خیال رکھا جائے گا۔
امریکہ انڈیا تعلقات پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار ہرش پنت کا کہنا ہے کہ، ’انڈیا یہ نہیں سمجھ سکتا تھا کہ امریکہ افغانستان میں کیا کر رہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس گفتگو میں امریکہ نے انڈیا کے سامنے اپنا موقف واضح کیا ہو گا اور کہا ہو گا کہ امریکہ انڈیا میں سرگرم رہے گا اور اسے انڈیا کے مفادات کی پرواہ ہے۔’
ہرش پنت کا کہنا ہے کہ ’امریکہ یقیناً افغانستان چھوڑنا چاہتا ہے لیکن امریکہ کبھی بھی نہیں چاہتا کہ 1990 کی دہائی کی طرح افغانستان دہشت گردی اور انتہا پسندی کا گڑھ بنے۔‘
’امریکہ کو انڈیا کو یقین دہانی کرانی ہو گی کہ وہ افغانستان کے حوالے سے انڈیا کے مفادات کا تحفظ کرے گا۔ انڈیا کی سب سے بڑی تشویش یہ ہے کہ افغانستان ایک بار پھر دہشت گردی کا گڑھ نہیں بننا چاہیے۔’
بلنکن نے کواڈ پر بھی بات کی
پریس کانفرنس کے دوران بلنکن نے کواڈ کے بارے میں بھی بات کی۔ جاپان، آسٹریلیا، امریکہ اور انڈیا کی اس گروہ بندی کے مقاصد ابھی واضح نہیں ہیں۔ تاہم بلنکن نے اپنے بیان میں اشارہ کیا کہ کواڈ فوجی اتحاد نہیں ہو گا۔
انھوں نے کہا کہ ’کواڈ کیا ہے؟ یہ اتنا آسان اور اتنا اہم ہے۔ چار ہم خیال ممالک اکٹھے ہو رہے ہیں تاکہ وہ ہمارے لوگوں کی زندگی کو متاثر کرنے والے اہم ترین امور پر متحد ہو کر کام کرسکیں۔ انڈو پیسیفک کا علاقہ کھولیں۔’
یہ بھی پڑھیے
آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن سے وابستہ کاشیش پارپیانی کا کہنا ہے کہ اس گفتگو میں انڈیا اور امریکہ نے عملی امور پر تبادلہ خیال کیا۔ پارپیانی کا کہنا ہے کہ ‘یہ بات چیت عملی بنیادوں پر کی گئی ہے اور اس میں دونوں ممالک کے مابین اختلافات کو حل کرنے پر زور دیا گیا ہے۔’
پارپیانی کا کہنا ہے کہ’دونوں رہنماؤں نے اپنے بیانات میں جمہوریت، کواڈ، صحت اور افغانستان کے بارے میں عملی خیالات کا اظہار کیا ہے۔
بلنکن نے کھلے عام کہا کہ ’کواڈ ایک فوجی اتحاد نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ کوڈ کا مقصد فوجی اتحاد بننا نہیں ہے بلکہ یہ معاشی تعاون اور عالمی امور کے لیے ہے۔’
انھوں نے کہا ’دونوں ممالک نے یہ واضح کر دیا ہے کہ امریکہ اور انڈیا کے مابین افغانستان کے بارے میں زیادہ فرق نہیں ہے۔ انڈیا نے کہا ہے کہ اگر 20 سال بعد امریکہ افغانستان سے نکل رہا ہے تو یہ اس کا پالیسی فیصلہ ہے اور اس پر بحث کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ چاہے یہ فیصلہ صحیح ہے یا نہیں۔’
پرپیانی کا کہنا تھا کہ ’جے شنکر نے اس بات پر زور دیا کہ وہ حالیہ صورتحال سے کس طرح نمٹنا چاہیے۔ اسی وقت بلنکن نے بھی اس بات کا اعادہ کیا کہ افغانستان میں ایک جمہوری حکومت ہونی چاہیے، انڈیا کا مقصد بھی یہی ہے۔’
تبت کے نمائندے سے بلنکن کی ملاقات
اس گفتگو سے قبل بلنکن نے ہندوستانی قومی سلامتی کے مشیر اجیت دووال سے بھی ملاقات کی۔ بلنکن نے انڈیا میں شہری گروپوں کے ساتھ مختصر ملاقاتیں بھی کیں۔ تبتی مذہبی رہنما دالائی لامہ کے نمائندے بھی اس میں شامل تھے۔
انڈین وزیر خارجہ جے شنکر سے بات چیت کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس میں بلنکن نے کہا ’انڈیا کے عوام اور امریکہ کے عوام انسانی وقار اور مواقع کی برابری، قانون کی حکمرانی اور بنیادی آزادیوں پر یقین رکھتے ہیں۔ اس میں مذہبی آزادی بھی شامل ہے۔’
اس آزادی کو جمہوریت کی اساس بتاتے ہوئے بلنکن نے میڈیا میں جاری ایک بیان میں کہا کہ انڈیا اور امریکہ دونوں ہی ‘بڑھتی جمہوریتیں’ ہیں جنھوں نے ان امور پر دوستانہ گفتگو کی۔
اسی دوران تبتی نمائندے سے ملاقات کو چین کے لیے ایک اشارے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
دالائی لامہ کے نمائندے کے ساتھ بلنکن کی ملاقات سے چند دن قبل، انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے ان کی سالگرہ کی مبارکباد دالائی لامہ کو بھیجی۔
ماہرین کا خیال ہے کہ یہ امریکہ اور انڈیا کی طرف سے چین کی طرف اشارہ ہے کہ آنے والے وقت میں تبت کے معاملے کو اٹھایا جا سکتا ہے۔
بین الاقوامی امور کے ماہر برہما چیلانی نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ ‘دالائی لامہ کے نمائندے سے ملاقات کی جھلک اور مودی دالائی لامہ کو اپنا مبارکبادی پیغام پہنچا رہے ہیں۔‘
’دالائی لامہ اور مودی کے درمیان ملاقات بھی ممکن ہے۔ یہ سب اس وقت ہوا جب شی جن پنگ تبت کا دورہ کیا اور اپنی جارحانہ پالیسیوں کا اظہار کیا۔ یہ انڈیا اور امریکہ کے تبت کے معاملات اٹھانے کا اشارہ ہے۔’
اسی دوران چین کے سرکاری اخبار گلوبل ٹائمز کے ایڈیٹر ہو ژی جن نے بلنکن کی دالائی لامہ کے نمائندے سے ملاقات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ‘بلنکن کی کارکردگی سے چین پر امریکی دباؤ پر کوئی اضافی اثر نہیں پڑے گا، صرف اس سے عوام کو مدد ملے گی۔ چینی عوام امریکہ کی چین سے دشمنی کے بارے میں زیادہ پر اعتماد ہوں گے۔ امریکہ یہ غلط کارڈ کھیل رہا ہے، یہ شرمناک ہے۔’
طالبان رہنما نے چینی وزیر خارجہ سے ملاقات کی
بلنکن اور جے شنکر کی ملاقات کے ساتھ ہی طالبان رہنما ملا برادر نے چین کا دورہ کیا ہے اور وزیر خارجہ وانگ یی سے ملاقات کی ہے۔ چین اس وقت افغانستان میں سرمایہ کاری نہیں کر رہا لیکن مستقبل میں چین افغانستان میں بھی اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔
ہرش پنت کہتے ہیں’اگر چین افغانستان کو ایک مستحکم ملک بنانے میں مدد کرتا ہے تو یہ انڈیا کا نقصان نہیں ہے۔ انڈیا کے مفادات زیادہ متاثر نہیں ہوں گے چاہے افغانستان میں چین کا اثر و رسوخ بڑھ جائے۔ لیکن طالبان کے چین سے بات کرنے میں فینٹیسی زیادہ ہے۔’
ہرش پنت کہتے ہیں کہ ‘یہاں تک کہ جب پچھلے 20 سالوں کے دوران افغانستان میں مستحکم حکومت تھی، چین یہ کہتا تو رہا کہ ہم افغانستان میں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں، لیکن چین نے وہاں کوئی سرمایہ کاری کی ہی نہیں۔‘
’چین نے وہاں کان کنی کی صنعت بنانے اور بی آر آئی کو بڑھا کر افغانستان تک لے جانے کی بات کی لیکن اس حوالے سے کبھی بھی کچھ نہیں کیا۔’
ان کا مزید کہنا تھا اب سوال یہ ہے کہ چین کو کیوں لگتا ہے کہ اس کی سرمایہ کاری طالبان کے وقت میں منافع دے سکتی ہے۔ ایسا نہیں لگتا کہ چین وہاں اقتصادی سرمایہ کاری کرنا چاہے گا۔
’افغانستان صرف چین کے لیے اہم ہے کیونکہ وہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتا ہے کہ سنکیانگ افغانستان کی صورتحال سے متاثر نہ ہو۔ وہ طالبان سے یہ اعتماد چاہتا ہے اسی لیے وہ ان سے بات کر رہا ہے۔‘
Comments are closed.