کیپ کیناورل: امریکی خلائی ادارے ناسا نے بین الاقوامی اشتراک سے کرہ ارض پر جھیلوں اور پانی کے ذخائر کی تحقیق کرنے والا ایک جدید ترین سیٹلائٹ خلا میں روانہ کیا تھا جس نے اب کام شروع کر دیا ہے۔
اسے سرفیس واٹر اینڈ اوشن ٹوپوگرافی (ایس ڈبلیو او ٹی) کا نام دیا گیا ہے جو بالخصوص زمینی سطح پر جھیلوں اور میٹھے پانی کے بڑے ذخائر پر تحقیق کرے گا کیونکہ فرشِ زمیں پر 20 فیصد میٹھا پانی جھیلوں کی شکل میں موجود ہے۔ اس ضمن میں فرانس کی خلائی ایجنسی اور دیگر اداروں کا تعاون بھی حاصل ہے۔
یہ سیٹلائٹ بدلتے موسم کے تناظر میں آبگاہوں، جھیلوں، پانی کے ذخائر اور سمندروں کی بلندی، معیار اور بدلتے ہوئے عوامل پر تحقیق کرے گا۔ ماہرین کے مطابق اس سیٹلائٹ کی بدولت بالخصوص جھیلوں کی نقشہ کشی سے ہماری سمجھ بوجھ یکسر بدل کر رہ جائے گی۔
منصوبے میں جامعہ مِنی سوٹا کے پروفیسر سیم کیلی بھی شامل ہیں اور انہوں نے بتایا کہ طاقتور سیٹلائٹ اتنی تفصیلی تصاویر اور ویڈیو فراہم کرے گا کہ اس سے جھیلوں اورسمندروں کے بہاؤ اور لہروں کو سمجھنے میں بہت مدد ملے گی جو اس سے قبل ممکن نہ تھی۔ ہم جان سکیں گے کہ جھیلوں میں کس طرح مضر الجی فروغ پارہی ہے اور آلودگی کہاں بڑھ رہی ہے وغیرہ۔
ماہرین نے کہا کہ یہ سیٹلائٹ ہمارے آبی ذخائر کے بجٹ سے آگاہ کرے گا کہ ہمارے پاس کتنا پانی اور ہے اوروہ کس حالت میں ہے۔ اس کے ڈیٹا سے ہر جھیل کے مقامی ماحولیات اور کلائمٹ چینج کو سمجھا جائے گا۔ اس ڈیٹا کی بنا پر خشک سالی اور سیلاب کی پیشگوئی بھی ممکن ہوسکے گی۔ یہ ڈیٹا، شہری حکومتوں، جامعات، اداروں، سول انجینیئروں اور عام افراد کےلیے مددگار ہوگا کیونکہ میٹھا پانی ایک نعمت ہے۔
سیٹلائٹ منصوبے پر ایک ارب 20 کروڑ ڈالر کی خطیر رقم خرچ ہوئی ہے۔
Comments are closed.