جڑواں بچوں کے بارے میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ اُن میں بالکل ایک ہی جیسے جین ہیں۔ اس کا تجزیہ کرنے کیلئے کچھ جڑواں بچوں پر تجربہ کیا گیا۔ مطالعے سے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی گئی کہ آیا خاص خصلتیں ، بیماریاں یا حالات جین کی وجہ سے ہیں یا اس کے بجائے ماحولیاتی اثرات ہیں۔
یکساں جڑواں بچوں کی صحت میں کوئی فرق مختلف ماحولیاتی نمائش کی وجہ سے سمجھا جاتا تھا۔ تاہم نئی تحقیق تجویز پیش کرتی ہے کہ جینیاتی تبدیلیاں اس کی وضاحت کرتی ہیں کہ ایک جیسے جڑواں بچے حقیقتاً ایک جیسے کیوں نہیں ہوتے۔
آئس لینڈ میں محققین نے 381 جڑواں بچوں کو مطالعے کے لیے لیا۔ تب سائنس دانوں نے ہر بچے میں موجود تمام جینوں کو سمجھا۔ صرف جڑواں بچوں کے 38 جوڑے ایک جیسے جینز رکھتے تھے جبکہ زیادہ تر جڑواں جوڑے اپنے ڈی این اے میں کافی حد تک مختلف تھے۔ یہ اختلاف پیدائش سے بہت پہلے یا حمل کی تقسیم ہونے سے بالکل پہلے پیش آتے ہیں۔ یا یہ تقسیم کے فوراً بعد بھی ہوسکتے ہیں۔ کچھ جڑواں بچوں میں بہت سے جینیاتی اختلافات تھے۔ ان جنین میں 100 سے زیادہ فرق نمایاں تھے۔
جین کی تبدیلیاں ، یا تغیرات ، جو نئے مطالعے میں جڑواں بچوں میں دکھائی دیتی ہیں یہ تجویز کرتا ہے کہ جڑواں بچے بننے پر جنین آدھے حصے میں بخوبی تقسیم نہیں ہوتے ہیں۔ کچھ جڑواں بچے اس وقت پیدا ہوسکتے ہیں جب ایک خلیے یا خلیوں کا ایک چھوٹا سا گروہ جنین سے الگ ہوجائے۔ جنین کے زیادہ ناہمواری سے ٹوٹنے سے جڑواں بچوں میں جین کے فرق بہت زیادہ پیدا ہوسکتے ہیں۔
The post جڑواں بچے درحقیقت ایک جیسے نہیں ہوتے، کیسے؟ appeared first on Urdu News – Today News – Daily Jasarat News.
Comments are closed.