کوئنز لینڈ: انسانی بال میں موجود قدرتی اجزا کی بنا پر اب ایسے سولر(شمسی) سیلوں کو مضبوط اور بہتر بنایا جاسکتا ہے جو روایتی سلیکان سیل کے مقابلے میں زیادہ بجلی خارج کرتے ہیں۔ انہیں پرووسکائٹ شمسی سیل کہا جاتا ہے۔
گزشتہ عشرے سے میں روایتی مونوکرسٹلائن سلیکان شمسی سیل کی بجائے پرووسکائٹ شمسی سیلوں کی افادیت سامنے آئی ہے۔ لیکن پرووسکائٹ شمسی سیل بہت نازک اور غیرپائیدار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب تک پرووسکائٹ شمسی سیل تجارتی پیمانے پر تیار نہیں کیے جاسکے ہیں۔ لیکن اب انسانی بالوں میں اس کا حل سامنے آیا ہے۔
اس سے قبل یونیورسٹی آف کوئنزلینڈ کے سائنسداں انسانی بال سے اخذ کردہ اجزا سے اوایل ای ڈی بناتے رہے ہیں۔ اب پرووسکائٹ شمسی سیلوں میں انہیں استعمال کیا جارہا ہے۔ انسانی بال میں کاربن اور نائٹروجن کی بڑی مقدار موجود ہوتی ہے جو روشنی خارج کرنے والے انجینیئرنگ نظاموں کےلیے بہت ضروری ہوتی ہے۔ پہلے انسانی بالوں کو 240 درجے سینٹی گریڈ پر جلایا گیا تاکہ وہ مزید سادہ اجزا میں تقسیم ہوجائیں اور ان سے نائٹروجن اور کاربن کو الگ کرلیا جائے۔
اب کوئنز یونیورسٹی کی ٹیم نے انسانی بالوں سے کاربن نینو ڈاٹس حاصل کیے ہیں اور انہیں شمسی سیلوں پر لگایا ہے۔ انہوں نے شمسی سیلوں پر اس کی باریک تہہ چڑھائی جو ایک لہردار صورت اختیار کرگئی۔ لیکن اسی پرت نے سولر سیل کو مضبوطی اور تحفظ فراہم کیا۔
پروفیسر ہونگشیا وینگ نے کہا کہ اس طرح کی پرت ایک حفاظتی دیوار کی طرح کام کرتی ہے جو پرووسکائٹ کو نمی اور دیگر ماحولیاتی اثر سے بچا کر اس کی ٹوٹ پھوٹ کو روکتی ہے۔ سائنسدانوں نے دیکھا کہ انسانی بال سے بنے کاربن نینوڈاٹس سے نہ صرف پرووسکائٹ شمسی سیل مضبوط ہوئے بلکہ دھوپ سے بجلی بنانے میں ان کی افادیت بھی بڑھ گئی۔
اس طرح وہ دن دور نہیں جب حجام کی دکان سے جمع شدہ بال شمسی سیل کی تیاری میں عام استعمال ہونے لگیں گے۔ انسانی بالوں سے اگلی نسل کے مؤثر شمسی سیل بنانا ممکن ہوں گے۔ واضح رہے کہ گزشتہ 20 برس سے پرووسکائٹ شمسی سیلوں کی تیاری میں ان کی نزاکت ہی مرکزی رکاوٹ تھی۔
توقع ہے کہ اگر یہ تدبیر کارگر رہتی ہے تو نہایت مؤثر پرووسکائٹ شمسی سیلوں کی تجارتی پیمانے پر تیاری کی راہ ہموار ہوسکے گی۔
Comments are closed.