جعلی ٹیومر جس کے لیے ماں بیٹی نے لاکھوں ڈالر کے عطیات وصول کیے اور مشہور شخصیات کو بے وقوف بنایا
2020 میں برطانیہ میں بچوں کا ایک اعلیٰ سطحی خیراتی ادارہ بند کر دیا گیا۔ صرف دو سال پہلے اس کی نوجوان بانی کی پراسرار حالات میں وفات ہو گئی تھی، جس سے بہت سے سوالات کے جوابات نہیں ملے۔
کینسر کمیونٹی کی حفاظت کے لیے پرعزم والدین کے ایک گروپ کے ذریعے اب سچ سامنے آرہا ہے۔۔۔ یہ طب میں دھوکہ دہی اور مشہور شخصیات کے لیے پائے جانے والے جنون کی کہانی ہے۔
10 اگست 2015 کو مداحوں کے ایک ہجوم نے اس وقت خوشی کا اظہار کیا جب پاپ بینڈ ون ڈائریکشن کے دو اراکین نے لندن کے نیچرل ہسٹری میوزیم کے باہر کیمروں کے لیے پوز دیے، جہاں ایک فنڈ ریزنگ گالا منعقد کیا جا رہا تھا۔
مگر اندر اصلی ستارے اور ہیرو کینسر میں مبتلا بچوں کا ایک گروپ تھا، ان میں سے کچھ نگہداشت کرنے والوں کے ساتھ تھے اور کچھ ایسے تھے جو ان دنوں کیموتھراپی سے گزر رہے تھے۔
میگن اور اس کی والدہ جین کے لیے ’سنڈریلا گالا‘ ان کے خیراتی ادارے ’بیلیو ان میجک‘ کے لیے رقم جمع کرنے کا ایک اور موقع تھا۔ پچھلے دو سالوں میں انھوں نے شدید بیمار بچوں کو پارٹیوں سے لے کر ڈزنی لینڈ لے جانے تک، ان کی سینکڑوں خواہشات پوری کیں تھیں۔
ہر کوئی جانتا تھا کہ 20 سالہ میگن نے دماغی رسولی سے لڑتے ہوئے اس تقریب کا اہتمام کیا تھا۔
ون ڈائریکشن کے لوئس ٹاملنسن نے مہمانوں کو بتایا کہ بیلیو ان میجک کے ساتھ کام کرنا ایک ’ناقابل یقین اعزاز‘ ہے۔
لیکن بال گاؤن اور تھیم والے ماسک کے پیچھے، طبی پیشے کے سب سے پراسرار سنڈروم کا ایک راز شامل تھا۔
میگن
بچپن میں والدین کی علیحدگی کے بعد میگن اپنی ماں جین کے ساتھ رہتی تھیں۔ 13 سال کی عمر میں میگن کو ہائی بلڈ پریشر کی تشخیص ہوئی۔
دو سال بعد جین نے اپنے آس پاس کے لوگوں کو بتایا کہ میگن بھی برین ٹیومر کا شکار ہے ۔اس تجربے نے 16 سالہ میگن کو بیلیو ان میجک شروع کرنے اور بہت سنگین بیماریوں میں مبتلا بچوں کی زندگیوں میں امید لانے کی ترغیب دی۔
میگن کو روزانہ دی جانے والی دوائیوں کے بارے میں جین کی باقاعدہ آن لائن پوسٹس اور بار بار ہسپتال کے دوروں کے باوجود، ان دونوں نے اپنی چیریٹی کے لیے انتھک محنت کی۔ میگن، جین اور ان کا خیراتی ادارہ اپنی شاندار پارٹیوں اور ون ڈائریکشن کی حمایت سے شہرت کی بلندیوں تک پہنچ گیا۔
لوسی پیٹگین جن کی بیٹی لونا نے کئی تقریبات میں شرکت کی تھی، انھوں نے بتایا کہ ’یہ بہت ہی شاندار پارٹیاں تھیں۔ سب بچوں نے خود کو بہت اہم محسوس کیا۔‘
2015 میں میگن کو برطانیہ کے اس وقت کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کی طرف سے ایک ایوارڈ ملا جس میں ان کی ’غیر معمولی بہادری‘ کی تعریف کی گئی تھی۔
بیلیو ان میجک کے عروج پر، جین نے اعلان کیا کہ میگن کی دماغی رسولی بگڑ گئی ہے اور اسے امریکہ میں علاج کے لیے 120000 پاؤنڈ (آج کل کے حساب سے 151000 ڈالر) جمع کرنے کی ضرورت ہے۔ میگن کے حامی فوراً مدد کو آئے اور 48 گھنٹے سے بھی کم وقت میں اپنا ہدف حاصل کر لیا۔
تاہم بچوں کی کینسر کمیونٹی میں والدین کے ایک گروپ نے سوال کیا کہ کیا میگن اتنی ہی بیمار تھیں جیسا کہ اس نے دعویٰ کیا تھا؟
جاسوس والدین
جب جو ایش کرافٹ نے پہلی بار 2015 کے اوائل میں فیس بک پر میگن کی ’جسٹ گیونگ‘ اپیل دیکھی تو اس نے اپنی تکلیف یاد کروا دی جب ان کے بیٹے کو برسوں پہلے نیوروبلاسٹوما، اعصابی نظام کے کینسر کی تشخیص ہوئی تھی۔ اس وقت جو نے امریکہ میں اس کے علاج کے لیے 250000 پاؤنڈ (315000 ڈالر) جمع کیے تھے۔
میگن کی اپیل دیکھ کر جو کو محسوس ہوا کہ کچھ گڑبڑ ہے۔ اس میں کسی مخصوص ڈاکٹر یا ہسپتال کا ذکر نہیں تھا۔ وہ یاد کرتی ہیں کہ ’میں تھوڑا سا مشکوک تھی۔ میں صرف یہ یقینی بنانا چاہتی تھی کہ رقم صحیح جگہ پر جا رہی ہے۔‘
جب جو نے تین دوستوں سے بات کی جن کے بچوں میں بھی نیوروبلاسٹوما کی تشخیص ہوئی تھی، تو وہ سب اس بات پر متفق تھے کہ کچھ گڑپڑ ضرور ہے۔ لیکن انھوں نے محتاط رہنے کا فیصلہ کیا، کیونکہ کسی پر برین ٹیومر کے بارے میں جھوٹ بولنے کا غلط الزام لگانا ناقابل تصور تھا۔
جین اور دیگر حامیوں سے شائستگی سے پوچھے گئے سوالات کے جواب نہیں دیے گئے۔ جو نے اس موضوع کو چھوڑ دیا اور اپنی زندگی کو آگے بڑھایا، اپنا خاندانی کاروبار چلاتی رہیں اور اپنے تین بچوں کی دیکھ بھال کی۔
لیکن ایک سال بعد انھوں نے دیکھا کہ میگن اور جین دوبارہ فنڈ ریزنگ کر رہے ہیں۔ جین نے دعویٰ کیا کہ میگن امریکہ کے ایک ہسپتال میں شدید بیمار ہیں اور انھیں مزید رقم کی ضرورت ہے۔
جو اور دوسرے والدین سچائی کا پتہ لگانے کے لیے اس کی تہہ تک جانے کے لیے نکلے ’میں یہ برداشت نہیں کر سکتی تھی کہ لوگ دھوکہ دہی کا شکار ہوں، خاص طور پر کینسر کے مریضوں کی کمیونٹی میں۔‘
انھوں نے ایک تخلص اختیار کیا اور میگن پر ایک کہانی لکھنے والی صحافی ہونے کا بہانہ کیا، لیکن کچھ پتا نہیں چل سکا۔
تاہم گروپ کے ایک اور رکن نے اپنی کمپیوٹر کی مہارت کو یہ جاننے کے لیے استعمال کیا کہ جین اور میگن اپنی ای میلز کہاں سے کھول رہی ہیں۔
یہ کوئی ہسپتال نہیں بلکہ فلوریڈا کے اورلینڈو میں واقع ایک لگژری ڈزنی ورلڈ ہوٹل تھا۔
نجی تفتیش کار
چند ہفتوں بعد میگن اور اس کی والدہ انگلینڈ میں ساؤتھمپٹن ڈاکس میں کوئین میری ٹو سمندری جہاز سے اتریں۔جین نے واپسی کو اپنی خوش قسمتی قرار دیا۔
موسم گرما کے دوران اس نے اپنے پیروکاروں سے رقم اکٹھا کرنے میں مدد کرنے کو کہا، اور یہ دعویٰ کیا کہ میگن کو 16 قسم کے انفیکشن اور شدید سیپسس ( پیپ پیدا کرنے والے جسمیوں سے پیدا ہونے والی بیماری) ہیں۔ ایک موقع پر اس نے کہا کہ ڈاکٹروں نے کہا ہے کہ اگلے سات دنوں میں میگن کے زندہ رہنے کا 10صرف فیصد امکان ہے۔
بعد میں جین نے کہا کہ میگن کی حالت بالآخر بہتر ہو گئی تھی اور فلوریڈا کے ماہرین نے اسے طبی سامان کے پانچ ڈبوں اور ای’ک بڑے آکسیجن کنسنٹیٹر‘ کے ساتھ ر واپس آنے کی اجازت دے دی تھی۔
لیکن واپس پہنچنے پر ایک نجی تفتیش کار کروز ٹرمینل پر ان کا انتظار کر رہا تھا۔ جو سچائی کو جاننے کے لیے اتنا پرعزم تھیں کہ اس نے ان دونوں کی تصاویر لینے کے لیے اسےایک ہزار پاؤنڈ ادا کیے۔
تصاویر میں میگن اور جین کو دو خوش سیاحوں کی طرح جہاز سے نکلتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ آکسیجن کے ٹینک کہیں موجود نہیں تھے۔ تفتیش کار کے مطابق وہ ہنستی اور گپ شپ کرتی ان آپریٹرز کے ساتھ ساتھ چل رہی تھیں جو ان کے سوٹ کیسوں سے بھری ٹرالیوں کو دھکیل رہے تھے۔
ہم نے جین سے ای میل کے ذریعے پوچھا کہ وہ اور میگن ڈزنی کے ایک ریزورٹ میں کیوں ٹھہرے ہوئے ہیں جب کہ یہ دعویٰ کیا گیا کہ میگن امریکی سپتال میں شدید بیمار ہے۔ اس نے صرف اتنا جواب دیا کہ ’سوشل میڈیا پر پھیلائے جھوٹوں کے جال میں آنا آسان ہے‘۔
نئے شواہد کے ساتھ ان والدین نے حکام سے رابطہ کیا، لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ مداخلت کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے تھے۔
لہذا انھوں نے ’میگ اور جین کے بارے میں سچ‘ کے نام سے ایک فیس بک گروپ بنایا جہاں انھوں نے جو کچھ دریافت کیا تھا اسے شیئر کیا۔ دونوں کے زیادہ تر پیروکاروں نے اس پر یقین کرنے سے انکار کر دیا: بہت سے لوگوں نے اپنی آنکھوں سے میگن کی نازک حالت دیکھی تھی، اس کے بازو میں سوئیوں سے لے کر ادویات تک۔
اگرچہ ان پر نفرت انگیز پیغامات کی بمباری کی گئی تھی، جو کو یقین تھا کہ اس نے صحیح کام کیا ہے۔ پھر 2018 کے اوائل میں،اس کے فون کی گھنٹی بجی۔
میگن مر چکی تھی۔
یہ بھی پڑھیے
تفتیش
میگن کی وفات 28 مارچ 2018 کو لندن کے نیشنل ہسپتال برائے نیورولوجی اینڈ نیورو سرجری میں ہوا۔
اس کی والدہ نے فیس بک پر لکھا ’میں نے اسے صرف اتنا کہا ہنی اگر تم جانا چاہتی ہو تو جاؤ اور خوش رہو‘ جو دنگ رہ گئیں۔۔۔ ایسا کیسے ہو سکتا تھا۔
میگن کے پیروکاروں کو کوئی شک نہیں تھا کہ قصوروار کون تھا۔ ان میں سے ایک نے فیس بک پر لکھا ’اسے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔‘
لیکن جو کو یقین تھا کہ میگن کو برین ٹیومر نہیں ہے۔
جب کسی کی موت کی وجہ واضح نہیں ہوتی تو ایک کورونر کیس کی تحقیقات کرتا ہے اور 2018 کے آخر میں میگن کی موت کے بعد ایسا ہی ہوا۔
سنہ 2022 کے آغاز میں ہمیں کورونر کی عدالت میں حاضری اور اس کی ریکارڈنگ تک رسائی حاصل کرنے کی اجازت دی گئی جس پر چار سال پہلے تفتیش ہوئی تھی۔
دو گھنٹے تک ہم ڈاکٹروں کو سنتے رہے کہ انھوں نے کیا دیکھا: میگن کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی اور وہ کئی سالوں سے مختلف حالات کا شکار تھی، لیکن سب نظریاتی طور پر قابل علاج تھے۔
تحقیقات نے ان دعووں کو مسترد کر دیا جو میگن اور جین نے سالوں میں کیے تھے۔ جو ٹھیک تھیں: ٹیومر کا کوئی ذکر نہیں تھا ، اور فرانزک پیتھالوجسٹ کے مطابق، اس کا دماغ ’مورفولوجیکال طور پر نارمل‘ تھا۔
تاہم ڈاکٹروں نے دیگر تشویشناک تفصیلات کا ذکر کیا۔ ایک کو میگن کے میڈیکل ریکارڈ کی قانونی حیثیت پر تشویش تھی۔ ایک اور نے نقلی نسخے کا استعمال کرتے ہوئے مارفین حاصل کرنے کی کوشش کے ساتھ، اس کے مورفین ڈھونڈنے‘ والے رویے کو نوٹ کیا۔ میگن کئی بار میڈیکل چیک اپ کروانے نہیں گئیں اور ایک سے دوسرا ڈاکٹر تبدیل کرتی رہیں۔
یہ کوئی ٹیومر نہیں تھا جس سے میگن کی موت ہوئی تھی بلکہ دل کی تال کی خرابی (شدید کارڈیک اریتھمیا) فیٹی لیور کی بیماری سے تھی، جس کا تعلق اس نوجوان لڑکی کے ہائی باڈی ماس انڈیکس سے تھا۔
جین نے ایک انٹرویو سے انکار کیا لیکن ہمیں ای میل کے ذریعے بتایا کہ میگن کو پٹیوٹری مائیکرو اڈینوما تھا، جو ایک قسم کی بغیر کینسر والی دماغی رسولی ہے جو کہ عام طور پر کسی کی موت کا سبب نہہیں بنتی مگر نقصان دہ ہو سکتی ہے۔
بہنیں
ایک اور مرد سے پچھلی شادی سے جین کے چار بچے تھے جو میگن سے بڑے بھائی تھے۔ ان کی بہن کیٹ کہتی ہیں کہ ’میں 12 سال کی تھی جب میگ پیدا ہوئی۔ مجھے وہ بہت پیاری تھی۔‘
کیٹ کے مطابق میگھن اور جین کا بیماری سے عجیب رشتہ تھا۔ اگر اسے پتا چلتا کہ کسیی طبیعت حراب ہے تو جلد ہی وہ بھی بیمار پڑ جاتی۔
کیٹ فیملی ڈنر سے ایک خطرناک تفصیل یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں : جینکھانے کے خالی ڈیوں کے اوپر کین رکھتی جو کھانے کے کمرے کی میز پر اتنی کثرت سے لڑھکتی اور ٹکراتی تھی کہ اسے جیب سے نشان زد کیا جاتا تھا۔
کیٹ خطرے سے بھرے خاندانی عشائیے کو یاد کرتی ہے۔ جین نے کھانے کے خالی ڈبے کے اوپر ٹن کا ڈھیر لگا دیا جو لڑھک کر سیدھا نیچے کھانے کی میز سے ٹکرا جاتا تھا۔
کیٹ کا ماننا ہے کہ ’جین چاہتی تھی کہ ہم میں سے کسی کے ساتھ حادثہ ہو اور اس سے اس کا مقصد سنسنی پھیلانا ہوتا تھا۔‘
ایک اور بہن کے لیے ریچل جب نو سال کی تھی تو اسے گردے کی خرابی کی شکایت ہوئی تھی۔ اس کی حالت بگڑ گئی اور اسے ٹرانسپلانٹ کی ضرورت تھی۔
ریچل کو بچپن میں ہر وقت نمکین پیسٹ کے کپ کھلائے جانے کی یاد تھی، حالانکہ گردے کے مسائل میں مبتلا افراد کو نمک کی مقدار زیادہ کھانے سے پرہیز کرنا چاہیے۔
منچاؤسن سنڈروم
سنہ 1951 میں رچرڈ ایشر نامی ڈاکٹر نے طبی جریدے دی لانسیٹ میں ایک اہم مضمون شائع کیا۔
دماغی مشاہدے کا یونٹ چلاتے ہوئے انھوں نے ایسے مریضوں کی ایک کم لیکن مستقل تعداد دریافت کی جو مختلف علامات کی شکایت کرتے تھے لیکن جب معائنہ کیا گیا تو وہ بالکل صحت مند تھے۔
اس نے اسے Munchausen syndrome کہا۔ یہ ہائپوکونڈریا سے مختلف ہے۔ Hypochondriacs مبالغہ آرائی اور گھبراہٹ ہے، لیکن مریض واقعی یہ سمجھتے ہیں کہ وہ بیمار ہیں۔ Munchausen کے مریض جانتے ہیں کہ وہ نہیں ہیں، لیکن بہرحال علاج کی کوشش کرتے ہیں۔
پروفیسر مارک فیلڈ مین دنیا کے سب سے بڑے ماہرین میں سے ایک ہیں انسان ساختہ امراض جیسے منچاؤسن سنڈروم، اور خاص طور پر پراکسی کے ذریعے Munchausen ، ایک ایجاد شدہ یا حوصلہ افزائی کی بیماری (FII) اور بچوں کے ساتھ بدسلوکی کی نایاب شکل جس میں والدین یا سرپرست جان بوجھ کر بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ بچے میں بیماری کی علامات کا سبب بنتا ہے۔ چونکہ اس حالت میں دھوکہ دہی شامل ہے، تعلیمی ماہرین کو شبہ ہے کہ یہ لوگوں کے احساس سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔
پروفیسر مارک فیلڈمین منچاؤسن سنڈروم جیسے حقیقت پسندانہ عوارض کے دنیا کے مشہور ماہرین میں سے ایک ہیں۔ وہ پراکسی کے ذریعہ Munchausen پر تحقیق بھی کرتے ہیں، جسے اب برطانیہ میں Fabricated یا Induced Illness (ایف ٹو) کے نام سے جانا جاتا ہے، بچوں کے ساتھ بدسلوکی کی ایک نادر شکل جہاں والدین یا دیکھ بھال کرنے والا بڑھا چڑھا کر بیماری کو پیش کرتا ہے یا جان بوجھ کر بچے میں بیماری کی علامات کا سبب بنتا ہے۔ چونکہ اس میں دھوکہ دہی شامل ہے، اس لیے ان کے خیال میں لوگوں کو احساس نہیں ہے کہ یہ کتنا پھیل چکی ہے۔
فیلڈ مین نے میگن یا جین سے کبھی ملاقات نہیں کی اور نہ ہی انھوں میگن کے میڈیکل ریکارڈ دیکھے۔ لیکن ہماری معلومات سننے کے بعد انھوں نے کہا کہمیگن کا کیس ایف ٹو لگتا ہے۔
میگن کی وفات 23 سال کی عمر میں ہوا، جس سے وہ قانونی طور پر بالغ ہو گئیں، لیکن جب اس نے چیریٹی شروع کی تو
وہ ابھی بچی ہی تھیں۔ ہم کبھی بھی یقینی طور پر نہیں جان پائیں گے کہ اس کے رویے کو کون کنٹرول کر رہا تھا یا اس نوجوان عورت نے واقعی اس سب کے بارے میں کیا سوچا تھا۔
فیلڈمین وضاحت کرتے ہیں کہ رضامندی کے لحاظ سے، ایک بچے اور بالغ کے درمیان لکیر قانونی لحاظ سے واضح ہو سکتی ہے لیکن عملی طور پر ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا: ’گر آپ اپنی پوری زندگی میں یہ سیکھتے ہیں کہ کچھ ایسی چیزیں ہیں جو آپ کہہ اور سوچ سکتے ہیں، تو آپ تعاون کرنے والے بن جاتے ہیں۔
پیسہ اور مشہور شخصیات
لوگ مختلف وجوہات کی بنا پر یا تو اپنے آپ میں یا دوسروں میں بیماری کا دعویٰ کرتے ہیں۔ کچھ پیسے کے لیے کرتے ہیں۔ بعض اوقات یہ خواہش ہوتی ہے کہ اسے سنا جائے یا اس پر توجہ دی جائے۔ والدین کے لیے یہ ہیرو کی دیکھ بھال کرنے والا ہونے کا بہانہ ہو سکتا ہے ۔ بعض اوقات یہ مندرجہ بالا سب کا مجموعہ ہوتا ہے۔
میگن اور جین کے لیے مقصد ایک بہت مشہور خیراتی ادارہ چلانا ہو سکتا تھا: میگن کو جان لیوا برین ٹیومر ہونے سے بیلیو ان میجک کو مزید بچوں تک پہنچنے میں مدد مل سکتی تھی۔ ٹاور آف لندن میں بیلیو ان میجک ایونٹ میں، ایک سابق دوست نے جین کی کہی بات یاد کرتے ہوئے کہا ’میگ جتنی بیمار ہوتی ہے، ہم جتنی زیادہ توجہ حاصل کرتے ہیں، اتنا ہی زیادہ پیسہ کماتے ہیں ۔”
پروفیسر فیلڈمین نے ایک نیا اور تازہ ترین رجحان دیکھا ہے: لوگ مشہور شخصیات سے ملنے کے لیے طبی حالات کو جعلی بنا رہے ہیں جو کہ ایک سنگین بیماری ہے۔”
میگن کی بہن کیٹ کا خیال ہے کہ برین ٹیومر اور بیلیو ان میجک جزوی طور پر مشہور شخصیات کے ساتھ گھومنے کی خواہش کی وجہ سے تھے۔ ون ڈائریکشن کے اراکین پر بار بار ٹویٹ کرنے کے بعد، بینڈ چیریٹی کا حامی بن گیا، جس سے میگن اور جین کو اپنے ستاروں سے ملنے کی اجازت ملی۔
کنگسٹن رپورٹ
سنہ 2017 میں، میگن کی موت کے ایک سال پہلے چیریٹی کمیشن نے جو کی جانب سے دی گئی معلومات کے بعد چیریٹی کمیشن نے بیلیو ان میجک کے بارے میں تحقیقات شروع کیں۔
اس نے دریافت کیا کہ ایک لاکھ پاؤنڈز سے زیادہ رقم غائب تھی اور عطیات کی رقم جین کے ذاتی بینک اکاؤنٹ میں منتقل کر دی گئی تھی۔ 2020 میں چیریٹی کو تحلیل کر دیا گیا اور جین نے پانچ سال تک کسی خیراتی ادارے کے ساتھ ٹرسٹی نہ بننے یا اعلیٰ انتظامی عہدہ رکھنے پر اتفاق کیا۔
بیلیو ان میجک کو بند کرنے کے صرف چند ماہ بعد، جین عوام کی نظروں سے غائب ہو گئی۔ وہ پچھلے سال برطانیہ واپس آنے سے پہلے کچھ عرصے کے لیے فرانس چلی گئی تھی۔
لیکن یہ کہانی کا اختتام نہیں۔
نومبر 2022 میں کنگسٹن کونسل، جہاں میگن رہتی تھیں، نے ’بالغوں کے تحفظ سے متعلق ایک رپورٹ‘ شائع کی۔ ان غیر معمولی فراڈ کی تحقیقات میں ہمیشہ کی طرح، تمام نام تبدیل کر دیے گئے، لیکن جو کچھ ہمیں اس کیس کے بارے میں معلوم ہوا، ہمیں اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ میگن ہی تھی۔
متن یہ تجویز نہیں کرتا ہے کہ ایف ٹو میگن کی موت کا سبب بنی۔ کورونر کی تفتیش میں موت کی وجہ جگر کے پھیلنے کی بیماری کارڈیک اریتھمیا ہے۔ تاہم وہ نوٹ کرتے ہیں کہ میگن کے معاملے میں ایف ٹو کو نظرانداز کیا جا سکتا تھا۔
ایف ٹو بچوں کو بھی لاحق ہو سکتی ہے کیونکہ والدین میڈیکل چیک اپ میں شریک ہوتے ہیں اور علاج کے لیے رضامندی کے ذمہ دار ہوتے ہیں، لیکن اس بات کی بہت کم سمجھ ہے کہ بالغ افراد اس کا شکار کیسے ہو سکتے ہیں۔ چونکہ میگن بالغ تھی، اس لیے ڈاکٹروں اور سماجی کارکنوں کے پاس اس کی صورت حال کو ایف ٹو کے طور پر شناخت کرنے کے لیے تربیت اور آلات کی کمی تھی۔
ہم نے جین سے کنگسٹن رپورٹ کے نتائج کا جواب دینے کو کہا۔ اس نے براہ راست نتائج کی طرف اشارہ نہیں کیا، لیکن کہا: ’میں اپنی بیٹی سے پیار کرتی تھی اور اس کی دیکھ بھال کرتی تھی۔ یہ بتانا کہ میں اسے کسی بھی طرح سے نقصان پہنچا سکتی ہوں، بہت ناگوار ہے۔‘
میگن کے معاملے میں تو بہت دیر ہو چکی ہے مگر ایف ٹو کی ماہر ڈاکٹر دانیہ گلیزر کے مطابق اس کیس کی دستاویز اسی طرح کے معاملات کو سمجھنے اور ہینڈل کرنے کے طریقے کو بدل سکتی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’کنگسٹن کا جائزہ انتہائی اہم ہے۔ یہ لوگوں کی توجہ اس حقیقت کی طرف لاتا ہے کہ ایف ٹو بیماری جوانی تک چلتی رہ سکتی ہے۔‘
رپورٹ کے بارے میں جاننے کے چند دن بعد، ہم کیٹ اور ریچل کو اس کے بارے میں بتانے کے لیے ملتے ہیں۔ یہاں تک کہ میگن کی بہنوں کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ کیا ہوا ہے۔ انھوں نے کئی سالوں سے اپنی ماں سے بات نہیں کی۔ جب انھوں نے میگن اور بیلیو ان میجک کے بارے میں سوالات پوچھے تو جین نے ان سے رابطہ ختم کر دیا۔
رپورٹ پڑھتے ہوئے ریچل کہتی ہیں ’یہ بہت اچھی بات ہے۔ سب صاف ہو کر سامنے آ گیا ہے۔۔۔ ہمیں لگا تھا سب بھول گئے ہوں گے۔۔۔‘ وہ اپنے گردے کے ٹرانسپلانٹ کے بارے میں سوچتی ہیں اور جاننا چاہتی ہیں کہ اس رپورٹ کا اس کے اپنے لیے کیا مطلب ہے۔
وہ دونوں امید کرتی ہیں کہ اس سے کچھ ایسا ہی ہونے سے روکنے میں مدد ملے گی۔
کیٹ کا کہنا ہے کہ ’میگن ایک شکار تھی۔ انھوں نے اسے اس کے لیے تیار کیا۔
Comments are closed.