جسٹس قاضی فائز عیسٰی نظرثانی کیس میں سپریم کورٹ کا تحریری فیصلہ جاری کردیا گیا ہے۔
جسٹس فائز عیسیٰ نظرثانی کیس کی تمام درخواستیں چھ، چار کے تناسب سے منظور کر لی گئیں، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی انفرادی درخواست 5 ججز نے منظور جبککہ 5 نےخارج کی۔
جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 10 رکنی لارجر بینچ نے فیصلہ سنایا، جسٹس مقبول باقر، جسٹس منظور احمد ملک، جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل، جسٹس سجاد علی شاہ، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحیٰی آفریدی، جسٹس قاضی محمد امین اور جسٹس امین الدین خان لارجر بینچ کا حصہ تھے۔
تحریری حکم نامے کے مطابق معاملہ ایف بی آر کو بھیجنے کا حکم کالعدم قرار دیا گیا ہے، جبکہ ایف بی آر کی تحقیقات بھی کالعدم قرار دے دی گئی۔
تحریری فیصلے کے مطابق جسٹس یحیٰ آفریدی نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی انفرادی درخواست خارج کی، جسٹس یحیٰ آفریدی نے دیگر تمام نظرثانی درخواستوں کی حمایت کرتے ہوئے اضافی نوٹ لکھا۔
فیصلے کے مطابق جسٹس یحیٰ آفریدی نے لکھا کہ 19جون اور 23 اکتوبر 2020 کے سپریم کورٹ کےفیصلوں پر تحقیقات غیر قانونی ہیں، ایف بی آر کے تمام اقدامات، تحقیقات، رپورٹس غیرقانونی قرار دی جاتی ہیں۔
تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ایف بی آر رپورٹ کی بنیاد پر سپریم جوڈیشل کونسل بھی کارروائی نہیں کرسکتی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظرثانی کیس کے اکثریتی فیصلہ کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں تمام نظرثانی اپیلیں منظور کی جاتی ہیں۔
اکثریتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کا 19جون 2020 کا مختصر فیصلہ خارج کیا جاتا ہے، سپریم کورٹ کے 19 جون 2020 کے فیصلے کے بعد کی تمام تحقیقات کالعدم قراردی جاتی ہیں۔
تحریری فیصلے کے مطابق جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس سجاد علی شاہ نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا ہے جبکہ جسٹس منیب اختر اور جسٹس قاضی محمد امین نے بھی اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا ہے۔
تحریری فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ ایف بی آر کی تمام رپورٹس، مواد، فیصلہ اور اقدامات قانون کے دائرے سے خارج قرار دی جاتی ہیں، ایف بی آر کی رپورٹ، مواد، فیصلے یا اقدامات پر سپریم جوڈیشل کونسل یا کوئی ادارہ کارروائی نہیں کرسکتا۔
Comments are closed.