سپریم کورٹ آف پاکستان میں جسٹس قاضی فائز عیسٰی نظرِ ثانی کیس کی سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے لندن جائیدادوں سے متعلق سوالات کا تحریری جواب جمع کرا دیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے جمع کرائے گئے اپنے جواب میں کہا ہے کہ ایف بی آر کی رپورٹ سے متعلق سوالات نہیں بنتے، اس رپورٹ سے متعلق جواب دینا غیر قانونی رپورٹ تسلیم کرنے کے مترادف ہے، اپنے کیس میں غیر قانونی رپورٹ کیسے تسلیم کر لیں۔
انہوں نے جمع کرائے گئے جواب میں کہا کہ میں نے چیف جسٹس سے درخواست کی کہ میرا مقدمہ سننے والے کسی جج کو میرے ساتھ نہ بٹھایا جائے، جسٹس عمر عطاء بندیال نے مجھے اپنے فارم ہاؤس کا شہد بطور تحفہ بھجوایا، میں نے شہد کی بوتل شکریئے کے ساتھ واپس کر دی، میں اور اہلیہ نے ججز کے بھیجے گئے تمام دعوت نامے لینے سے بھی معذرت کی۔
جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے جمع کرائے گئے اپنے جواب میں کہا کہ نجی محفلوں میں جانے سے ممکن تھا کہ کیس سننے والے ججز سے رابطہ ہوتا، جسٹس فیصل عرب کے الوداعی ریفرنس میں بھی شرکت نہیں کی، جسٹس عمر عطاء بندیال سے بہترین پیشہ ورانہ تعلق ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے یہ بھی کہا کہ تمام بار کونسلز اور پی ایف یو جے کا شکر گزار ہوں، بینچ میں موجود 2 مجاہدوں جسٹس مقبول باقر اور جسٹس سجاد علی شاہ جن کا بیٹا اغواء ہوا، انہیں سلام پیش کرتا ہوں۔
دورانِ سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمٰن نے دلائل دیئے کہ نظرِثانی اپیل کا دائرہ اختیارِ سماعت محدود ہوتا ہے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کے اعتراض کو طریقہ کار میں بے قاعدگی قرار دیا جا سکتا ہے، عدالتی کارروائی میں طریقہ کار کی بے قاعدگی کو بنیاد بنا کر فیصلے پر نظرِ ثانی نہیں کی جا سکتی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا کسی کو سنے بغیر فیصلہ دینے کو ریکارڈ پر غیر قانونی غلطی قرار دیا جا سکتا ہے؟
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جی بالکل ایسا کیا جا سکتا ہے۔
وفاقی حکومت کے وکیل ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمٰن نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سپریم کورٹ نے فیصلہ نہیں دیا، سپریم کورٹ نے صرف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کا معاملہ ایف بی آر کو بھیجا، سپریم کورٹ کو تحقیقات کیلئے معاملہ متعلقہ فورم پر بھیجنے کا اختیار ہے، ہمارے سامنے پاناما کیس کی مثال موجود ہے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ایف بی آر کو معاملے پر کارروائی کیلئے ٹائم فریم دیا، انکم ٹیکس قانون کی کون سی شق میں ایسا طریقہ کار لکھا ہوا ہے۔
وفاقی حکومت کے وکیل نے جسٹس یحییٰ آفریدی کے سوال پر براہِ راست جواب دینے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ درخواست گزار جج نے مرکزی کیس میں اپنی بیوی، بچوں کو عدالتی کارروائی سے دور رکھا، درخواست گزار کی اہلیہ خود عدالتی کارروائی کا حصہ بنیں، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ سرینا عیسیٰ کو فیئر ٹرائل کا حق دیا گیا۔
جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ کیس مقرر ہونے کے وقت کا تعین کر کے مطلع کر دیا جائے گا۔
Comments are closed.