سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی نظرثانی درخواست منظور کرلی۔
سپریم کورٹ کا سات تین کا فیصلہ چھ چار سے قاضی فائز عیسی کے حق میں آگیا، جسٹس عمرعطا بندیال، جسٹس سجاد علی شاہ ، جسٹس منیب اختر اور جسٹس قاضی امین نے فیصلے سے اختلاف کیا۔
نظرثانی درخواستوں میں19جون 2020 ء کے فیصلے پر نظرثانی کی استدعا کی گئی تھی، نظرثانی اپیل میں کہا گیا تھا کہ لندن جائیدادوں کی تحقیقات ایف بی آر کو بھیجنے کا فیصلہ واپس لیا جائے۔
سپریم کورٹ میں آج جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی فل کورٹ بینچ نے سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظرثانی کیس کی سماعت کی۔
سماعت مکمل ہوجانے کے بعد بینچ کے سربراہ جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس میں کہا تھا کہ بینچ کو مشاورت کیلئے وقت درکار ہے، آدھے گھنٹے بعد بتائیں گے فیصلہ آج سنانا ہے یا کل سنایا جائے۔
سماعت میں حکومتی وکیل عامر رحمٰن نے عدالت کو بتایا کہ فروغ نسیم بیماری کے باعث آج نہیں آسکےوہ کل ذاتی حیثیت میں دلائل دینا چاہتے ہیں، اس پر سپریم کورٹ نے کہاکہ فروغ نسیم تحریری دلائل جمع کرادیں۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے سماعت میں استفسار کیا کہ ہماراسوال یہ ہے کہ ایف بی آر کو بھیجنے کا حکم دیا بھی جاسکتا تھا یا نہیں،ہم کیس میں ایف بی آر رپورٹ کی قانونی حیثیت نہیں دیکھ رہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاکہ میں ان سوالات کو کلئیر کر دیتا ہوں، جسٹس عمرعطا بندیال کیس میں نیا پنڈورا باکس کھولنا چاہتے ہیں، بار بار یاد دہانی کراچکا وقت کم ہے، بینچ کے ایک ممبر کو 4 دن میں ریٹائر ہو جانا ہے،بلاوجہ عدالت کا وقت ضائع کیا جا رہا ہے۔
حکومتی وکیل عامر رحمٰن نے کہا کہ میں ان سوالات کے جوابات دے رہا ہوں جوعدالت نے مجھ سے کیے، جبکہ درخواست گزار بار بار کہہ رہے ہیں کہ میں عدالت کا وقت ضائع کر رہا ہوں۔
جسٹس مقبول باقرنے اپنے ریمارکس میں کہاکہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ عدالت ایف بی آر رپورٹ نہیں دیکھے گی۔
حکومتی وکیل ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمٰن نے آج کی سماعت میں دلائل دیتے ہوئے کہاکہ جسٹس منصورعلی شاہ نےحق دعویٰ نہ ہونے کا سوال اٹھایا تھا،وفاقی حکومت کیس میں باضابطہ فریق ہے، عدالت نےوفاقی حکومت کونوٹس جاری کرکے جواب مانگا تھا۔
وکیل وفاقی حکومت نے کہاکہ وفاقی حکومت نے ریفرنس کالعدم ہونے پر نظرثانی نہیں کی، عدالت نے ریفرنس قانونی نکات میں بےاحتیاطی برتنے پر کالعدم کیا تھا،عدالت نے کہا تھا سرینا عیسیٰ کو وضاحت کا موقع دیے بغیر ریفرنس دائر کیا گیا۔
وکیل عامر رحمٰن نے کہاکہ عدالت کیس ایف بی آر کو نہ بھجواتی تو وفاقی حکومت نظرثانی اپیل دائر کرتی، حکومت کیس ایف بی آر کو بھجوانے کا دفاع کرنے میں حق بجانب ہے،وفاق کو یہ حق بھی حاصل ہے کہ وہ عدالتی احکامات کا دفاع کرے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ ایک سوال جسٹس منیب اختر صاحب کی طرف سے پوچھا گیا تھا کہ نظرثانی درخواست منظور ہوگئی تو بھی کیاایف بی آر رپورٹ پر کارروائی ہوسکتی ہے؟ اس پر کہنا یہ ہے کہ اگر کسی فیصلے پر عملدر آمد ہوجائے تو نظرثانی کے باوجود وہ فیصلہ واپس نہیں ہوسکتا۔
وکیل عامر رحمٰن نے دلائل میں کہا کہ جسٹس عمر عطا بندیال کی طرف سے سوال پوچھا گیا تھا کہ کیا سپریم کورٹ سپریم جوڈیشل کونسل کو دستیاب معلومات کا جائزہ لینے سے روک سکتی ہے؟ اس پر جواب میں کہنا ہے کہ معلومات کےحصول کے بعد سپریم کورٹ سپریم جوڈیشل کونسل کو ہدایات جاری نہیں کرسکتی۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ آرٹیکل 211 کے تحت جوڈیشل کونسل کی کارروائی پر سوال نہیں اٹھایا جاسکتا۔
جسٹس یحیٰ آفریدی نے ریمارکس میں کہا کہ آپ اپنے پہلے دیے گئے دلائل کے خلاف دلائل دے رہے ہیں، سپریم کورٹ نےاکثریتی فیصلے میں سپریم جوڈیشل کونسل کو ہدایات جاری کیں،لگتا ہے آپ اپنے ہی کیس کےخلاف دلائل دے کر درخواست گزار کو فائدہ پہنچا رہے ہیں۔
جسٹس یحیٰ آفریدی نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ میں کہاکہ آپ محتاط انداز میں دلائل دیں، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ میری دلیل یہ ہےکہ سپریم کورٹ نے تو سپریم جوڈیشل کونسل کو ہدایات جاری ہی نہیں کیں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمٰن نے کہاکہ عدالتی فیصلے میں کسی غلطی کی نشاندہی نہیں کی جاسکتی، فیصلے میں قانونی غلطی ہو تو بھی نظر ثانی نہیں ہوسکتی، سپریم کورٹ کاکوئی حکم ایف بی آر پر اثرانداز نہیں ہوا۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے دلائل کے دوران جسٹس فائز عیسیٰ کی مداخلت کی کوشش کی تو جسٹس منظور احمد ملک نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے دلچسپ مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ قاضی صاحب میں نے متعدد بار آپ سے انگریزی زبان میں درخواست کی، قاضی صاحب کئی بار اردو زبان میں بھی آپ سے درخواست کی، اب لگتا ہے پنجابی زبان میں آپ سے درخواست کرنا پڑے گی، قاضی صاحب مہربانی فرمائیں، اپنی نشست پر بیٹھ جائیں، حکومتی وکیل کو دلائل دینے دیں۔
جسٹس فائز عیسٰی نے کہاکہ جسٹس منظور ملک نے پنجابی میں نہیں روکا، اس بات کا گلہ ہے،پنجابی میں کہوں گا تو ونج تے میں آیا، اس پر جسٹس منظور ملک نے کہاکہ آپ نے غلط پنجابی بولی، یہ ویسے سرائیکی زبان ہے، جسٹس فائز عیسیٰ نے کہاکہ میرے استاد نے مجھے غلط پنجابی سکھائی ہے۔
سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل پر اظہار ناراضگی کرتے ہوئے کہاکہ سپریم کورٹ نے 3 سوالات پوچھے تھے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ درخواست گزارجج کا جواب دینا لازم ہے یا نہیں اس کا جواب قانون شہادت میں ہے،قانون شہادت کے آرٹیکل 122 کے تحت جس پر الزام لگایا ہے اسے جواب دینا پڑتا ہے،جسٹس منظور احمد ملک نے کہاکہ آپ غیرمتعلقہ دلیل دے رہے ہیں۔
جسٹس مظہرعالم نے کہاکہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل صاحب قانون بھی واضح ہے اور ہمارے ذہن بھی بالکل کلئیر ہیں، جسٹس قاضی امین نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ زیر سماعت مقدمہ فوجداری یا دیوانی ٹرائل نہیں، ایسےنہ کریں، ہم نےپوری زندگی اسی قانون کو پڑھنے میں گزار دی۔
جسٹس عمرعطا بندیال نے کہاکہ جو جائیدادیں خریدی گئیں ان کے ذرائع کی تصدیق ایف بی آر کا کام ہے،موجودہ کیس میں تحقیقات سرینا عیسیٰ کے خلاف شروع ہوئیں، اس معاملے کو دبانا زبردستی ختم کرنے کے مترادف ہے، عدالتی ساکھ کا تقاضا ہے کہ اس مسئلے کو حل کیا جائے۔
جسٹس بندیال نے حکومتی وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ جسٹس فائز عیسیٰ کہتے ہیں کہ وہ سرینا عیسیٰ کی جائیدادوں کیلئے جوابدہ نہیں، اگر آپ ان3 سوالات کاجواب مثبت دیں گے تو جسٹس فائز عیسیٰ جوابدہ ہیں،اگر آپ ان 3 سوالات کے جوابات منفی دیں گے تو بات ختم، جسٹس فائزعیسیٰ نے ان 3 سوالات کے جوابات دینے سے انکار کیا۔
جسٹس فائزعیسیٰ کا جسٹس عمرعطا بندیال سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ آپ میرے منہ میں الفاظ ڈال کر بات نہ کریں، میں نے سوالات کا جواب دینے سے انکار نہیں کیا، میں نے صرف سوالات پر اعتراض اٹھایا تھا۔
سرینا عیسیٰ نے کہاکہ جسٹس عمرعطا بندیال اورجسٹس منیب اختر اپنے اہلخانہ کی جائیدادیں پبلک کریں،جسٹس عمرعطا بندیال کو ایک مشورہ ہے، جسٹس بندیال اور جسٹس منیب اختر احتساب میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں، جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس منیب اختر اپنے اور اپنی اہلیہ کے اثاثوں کی تفصیلات پبلک کریں،اس پر جسٹس عمرعطا بندیال نے کہاکہ میڈم پلیز، آپ خاموش ہوجائیں۔
جسٹس فائزعیسیٰ نے بینچ سےمکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ میری دعا ہے جو مجھ پربیتی وہ آپ میں سے کسی پر نابیتے،آج یہاں عدلیہ کی آزادی کے لیے کھڑا ہوں، انہوں نے کل سے پھر میرا میڈیا ٹرائل شروع کردیا ہے، ان سے کہنا چاہتا ہوں عزت دیں، میں آج بھی ایک جج ہوں، ہمارے بچے بیویاں تو یہاں موجود ہیں۔
عدالت نے فریقین کے دلائل سن لینے کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظرثانی درخواستوں پر سماعت مکمل کرلی۔
Comments are closed.