جج آفتاب آفریدی کے قتل کے الزام میں گرفتار ملزمان نے عدالت کو اعترفی بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے کہا کہ انسداد دہشت گردی سوات کی عدالت کے جج آفتاب آفریدی کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی پشاور کے ایک نجی ہوٹل میں کی گئی۔
ملزمان نے جج کی گاڑی کا تعاقب کر کے صوابی انٹر چینج کے قریب آفتاب آفریدی کو ان کی اہلیہ، حاملہ بہو اور کم سن پوتے سمیت بے دردی سے فائرنگ کرکے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
انسداد دہشت گردی سوات کی عدالت کے جج آفتاب آفریدی قتل کیس میں گرفتار تین نامزد ملزمان نے عدالت میں جرم کا اعتراف کرلیا۔
جیو نیوز نے گرفتار تین ملزمان شہزاد خان، بلال آفریدی اور ذاکر شاہ کے بیانات کی کاپی حاصل کرلی۔
ملزمان کے مطابق گزشتہ ماہ 4 اپریل کو جج آفتاب آفریدی کے قتل کی باقاعدہ منصوبہ بندی پشاور کے ایک نجی ہوٹل میں کی گئی۔
ملزمان نے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے جج آفتاب آفریدی کی گاڑی کا تعاقب کیا اور موقع پاتے ہی صوابی انٹرچینج کے قریب ان کی گاڑی پر فائرنگ کردی جس سے جج آفتاب آفریدی، ان کی اہلیہ، حاملہ بہو اور کم سن پوتا جاں بحق ہوگئے تھے۔
واقعہ کی ایف آئی آر سپریم کورٹ بار کے صدر عبداللطیف آفریدی، ان کے بیٹے دانش آفریدی سمیت دس افراد کے خلاف درج کی گئی جس میں 4 نامعلوم ملزم شامل ہیں۔
پولیس نے پانچ ملزمان کو گرفتار کرلیا عبداللطیف آفریدی ایڈوکیٹ نے عبوری ضمانت کروا رکھی ہے جبکہ ان کا بیٹا دانش آفریدی تا حال گرفتار نہیں ہوسکا۔
ملزم بلال آفریدی کے مطابق ان کے چچا وزیر اکبر کو 2019 میں قتل کیا گیا جس میں جج آفتاب آفریدی ملوث تھے اس دوران جرگے بھی ہوئے لیکن ہمارے خاندان نے قتل کا بدلہ لینے کا فیصلہ کرلیا تھا۔
دوسری جانب ڈی پی او صوابی شعیب خان کے مطابق دانش آفریدی کی گرفتاری کے لیے پولیس چھاپے مار رہی ہے۔
Comments are closed.