بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

جب پاکستان کو تخریبی کارروائی میں مطلوب ملزم نے صدام حسین کے خلاف فوجی بغاوت کی

بغداد بغاوت 1973: پاکستان میں تخریبی کارروائی میں ملوث ملزم نثار السعود جنھیں صدام حسین کے خلاف بغاوت کے الزام میں سزائے موت ہوئی

  • عمر فاروق
  • دفاعی تجزیہ کار

عرجق

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

عراقی صدر احمد حسن البکر (دائیں جانب) اور نائب صدر صدام حسین (بائیں جانب)

آج سے 48 برس قبل، جب دو جولائی 1973 کو عراقی حکومت کے خلاف ناکام فوجی بغاوت کی سازش کرنے والے چند فوجی افسران کو سزائے موت سُنائی گئی تو سزا پانے والوں میں ایک شخص وہ بھی تھا جو حکومت پاکستان کو اسلام آباد میں پیش آنے والی ایک بڑی تخریبی کارروائی کی منصوبہ بندی کے سلسلے میں مطلوب تھا۔

ناکام فوجی بغاوت کے سرغنہ کرنل کاظم سمیت اِس بغاوت میں ملوث قرار پانے والے 23 دیگر فوجی افسران کو ایک ہفتے کے اندر اندر موت کی سزا سنائی گئی۔

بغاوت کے مرتکب فوجی افسران کی گرفتاری کے بعد فوجی عدالت نے بڑی چابکدستی کے ساتھ ملوث کاروائی مکمل کی اور آٹھ جولائی 1973 کو ریڈیو بغداد سے ان کی موت کی سزا کا اعلان نشر ہوا۔

لیکن اسلام آباد میں چند ماہ قبل پیش آنے والے واقعات کا عراق میں ہونے والی ناکام فوجی بغاوت سے کیا تعلق تھا؟ اس تفصیل سے پہلے اس فوجی بغاوت کا مزید احوال جاننا ضروری ہے۔

عراقی وزرا کا اغوا اور بغاوت کی ابتدا

بغداد میں ناکامی سے دوچار ہونے والی اس فوجی بغاوت کی باقاعدہ ابتدا کرنل قظار اور ان کے حامی فوجی افسران کی جانب سے ملک کے وزیر دفاع لیفٹیننٹ جنرل حماد شہاب اور وزیر داخلہ لیفٹیننٹ جنرل سعدون غیدان کے اغوا سے ہوئی۔

ان دونوں وزیروں کو اُس وقت بندوق کی نوک پر اس وقت اغوا کیا گیا تھا جب وہ کرنل قظار کی جانب سے دوپہر کے کھانے کی ایک دعوت پر بغداد کے قریب ایک مقام پر پہنچے تھے۔

اس بغاوت کے احوال پر بیشتر کتابیں اور مضامین لکھے گئے جن میں اس بغاوت سے منسلک اہم واقعات کا تذکرہ ملتا ہے۔

یہ اغوا عراق کے صدر احمد حسن البکر کے بلغاریہ اور پولینڈ کے دورے سے وطن واپسی کے چند گھنٹے پہلے ہوا تھا۔

عراق میں کہنے کو تو صدارت احمد حسن البکر کے پاس تھی لیکن طاقت کا اصل سرچشمہ صدام حسین تھے جو اس وقت نائب صدر تھے۔

صدر احمد حسن البکر کی وطن آمد اور اس دوران ہوائی اڈے سے دونوں وزیروں اور کرنل قظار کی عدم موجودگی پر حکام کے کان کھڑے ہوئے اور مسلح افواج کے علاوہ سلامتی کے اداروں کو بھی چوکنا اور خبردار کر دیا گیا۔

وزرا کے اغوا کے بعد کرنل قظار اس انتظار میں تھے کہ سازش میں شامل دیگر افسران حکومت کے خلاف کارروائی کریں گے، مگر ایسا نہ ہوا۔ صورتحال کو دیکھتے ہوئے کرنل قظار دونوں مغوی وزیروں کے ہمراہ ایک قافلے کی صورت ایرانی سرحد کی طرف فرار ہو گئے۔

عراقی انٹیلیجنس نے بعدازاں سرکاری سطح پر دعویٰ کیا کہ بغاوت کی کوشش کے ڈانڈے بیرون ممالک سے جا ملتے ہیں، خاص طور پر انھوں نے اس میں ایران کا نام لیا۔

بغداد میں بغاوت، اسلام آباد میں اسلحہ اور تہران کی انٹیلیجنس

جنگ اخبار کا تراشہ

،تصویر کا ذریعہCourtesy Jang Newspaper

صدام حسین کے خلاف اس ناکام بغاوت کے ایک اہم کردار نثار السعود کا نام پہلے ہی پاکستان میں بازگشت کر رہا تھا اور اس ناکام فوجی بغاوت سے چار ماہ قبل وہ اسلام آباد میں ایک اور ناکام آپریشن کا بھی حصہ بن چکے تھے۔

پاکستانی میڈیا میں ان کا تعارف اسلام آباد میں واقع عراقی سفارت خانے کے سیاسی قونصلر کے طور کیا گیا تھا تاہم دیگر ذرائع انھیں سفارت خانے کا ‘ملٹری اتاشی’ بیان کرتے تھے۔ لیکن وہ دونوں عہدے اس امر کا اشارہ کرتے ہیں کہ وہ عراقی انٹیلیجنس کے لیے کام کرتے تھے۔

پاکستانی انٹیلیجنس کی بروقت کارروائی کی وجہ سے اسلام آباد میں ان کا آپریشن ناکامی سے دوچار ہوا تھا۔

پاکستانی انٹیلیجنس آپریشن کے نتیجے میں اسلام آباد میں عراقی سفارت خانے میں نثار السعود کی رہائش گاہ سے بھاری مقدار میں اسلحہ اور بارود برآمد ہوا تھا لیکن اس سے پہلے کہ اسلام آباد پولیس اور انٹیلیجنس ادارے نثار السعود کو گرفتار کرتے، وہ بغداد فرار ہونے میں کامیاب ہو چکے تھے۔

10 فروری 1973 وہ دن تھا جب اسلام آباد میں عراقی سفارت خانے پر پاکستانی انٹیلیجینس اہلکاروں نے چھاپہ مارا اور سیاسی قونصلر نثار السعود کی رہائش گاہ سے بڑی مقدار میں اسلحہ برآمد ہوا لیکن نثار السعود پراسرار طور پر منظر سے غائب ہو چکے تھے۔

یہ بھی پڑھیے

جن ڈبوں سے اسلحہ اور گولیاں برآمد ہوئی تھیں، ان پر نثار السعود کا نام ہی کنندہ تھا۔ حکومت پاکستان میں کسی کو بھی علم نہیں تھا کہ نثار السعود کو آخر زمین نگل گئی یا آسمان کھاگیا۔

پاکستانی حکومت نے اعلان کیا کہ نثار السعود ہی وہ ‘مرکزی کردار’ ہیں جو پکڑے جانے والے اسلحے کے اس ذخیرے کے پس پردہ تمام کارروائی کے ذمہ دار ہیں۔

عراقی

،تصویر کا ذریعہCourtesy Jang Newspaper

،تصویر کا کیپشن

حکومت پاکستان میں کسی کو بھی علم نہیں تھا کہ نثار السعود کو آخر زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا۔

اسلحہ برآمد ہونے کے بعد نثار السعود کی تلاش کے لیے ہر جگہ چھان ماری لیکن ان کا کچھ پتہ نہ چل سکا۔ سفارت خانے کے چپے چپے کی تلاشی لی گئی۔ ان کے دفتر اور گھر کو کھنگالا گیا۔

نثار السعود کے اہل خانہ میں ان کی اہلیہ اور دو بیٹیاں شامل تھیں جنھیں بعد میں حفاظتی نکتہ نگاہ سے دوبارہ سفارت خانے کی عمارت پہنچا دیا گیا۔

عراقی سفارت خانے کی عمارت سے بھاری اسلحہ و بارود پکڑے جانے پر عراق کے سفیر نے ذمہ داری لینے سے صاف انکار کر دیا اور سارا ملبہ نثار السعود کے سر ڈال دیا۔

وہ ایک گولی جس نے پوری سازش کا پردہ چاک کیا

عراقی سفارت خانے کی تلاشی اور اس پر چھاپے کے نتیجے میں اسلحہ کی برآمدگی کی تمام کہانی ایک گولی سے شروع ہوئی جس کے بارے میں پاکستانی انٹیلیجنس نے مخبری کی تھی۔

یہ گولی کراچی میں ایک ‘کریٹ’ (ڈبے) سے گری تھی۔ یہ اسلام آباد میں عراقی سفارت خانے کا سامان تھا جسے منتقل کرتے ہوئے ایک کریٹ میں سے گولی نیچے گری تھی۔

پاکستانی انٹیلیجنس کو اس پر شک گزرا اور کھوج شروع کر دی گئی۔ سوال یہ تھا کہ سفارت خانے کے سامان میں گولی کا کیا کام؟ یہ گولی آخر آئی کہاں سے؟ گولی بھی روسی مشین گن کی، جو پریشانی کی اصل بات تھی۔

اسلام آباد میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی نو قائم شدہ حکومت تھی جسے اس گولی اور انٹیلیجنس کی اطلاعات کے بارے میں آگاہ کیا گیا۔

اس واقعے کے بعد 10 فروری 1973 کو عراقی سفیر کو پاکستانی دفتر خارجہ طلب کر لیا گیا اور ان سے سفارت خانے کی تلاشی دینے کا تقاضا کیاگیا۔

اس موقع پر پاکستانی حکومت کے جاری کردہ ہینڈ آؤٹ (بیان) میں بتایاگیا کہ ‘عراقی سفیر نے کہا کہ بڑے کریٹس میں کتابیں سفارت خانے لائی گئی ہیں اور وہ اپنی حکومت کی منظوری کے بغیر پولیس کو عمارت میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دے سکتے۔

جواب میں سفیر کو مطلع کیا گیا کہ ’کوئی بھی حکومت اپنی سرزمین پر ایسی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دے سکتی جو اس کی سالمیت اور سلامتی کے لیے تباہ کن ہوں۔’

بھٹو

،تصویر کا ذریعہGetty Images

پولیس کو شام تک جاری رہنے والی اس تلاشی میں سفارت خانے کے دیگر حصوں سے بھی اسلحہ ملا جن میں 300 سب مشین گنز، ہزاروں گولیاں اور کمیونیکیشن آلات تھے۔ ان کریٹس پر عراقی وزارت خارجہ اور عراقی ائیر لائنز کے نشانات تھے۔

یہ کریٹس کراچی سے پی آئی اے کی پروازوں کے ذریعے اسلام آباد لائے گئے تھے۔ ان واقعات پر عراقی سفیر نے عراقی پولیٹیکل اتاشی نثار السعود کو مودالزام ٹھہرانے کی کوشش کی۔

ہینڈ آؤٹ کے مطابق سفیرکو آگاہ کیاگیا کہ پاکستان کی حکومت عراقی حکومت کی منظوری کا انتظار نہیں کر سکتی۔

صبح ساڑھے دس بجے پاکستانی وزارت خارجہ کے ڈائریکٹر جنرل عراقی سفیر کے ہمراہ عراق کے سفارت خانے کی عمارت میں داخل ہوئے جہاں انھیں بڑی تعداد میں اسلحے سے بھرے کریٹس ملے۔

یہ کریٹ سفارت خانے کے عملے کے سامنے کھولے گئے۔ حکومت نے بتایا گیا کہ عراقی سفیر کو مطلع کیاگیا تھا کہ پاکستانی حکام کو سختی سے ہدایت کی گئی ہے کہ وہ کریٹس کے علاوہ کسی اور چیز کو ہاتھ نہ لگائیں۔

حکومت پاکستان کے سرکاری بیان میں کہاگیا کہ ‘پاکستانی حکومت کو اس اسلحہ کی برآمدگی پر دھچکا لگا ہے۔ ایک مسلمان ملک کی حکومت ان داخلی اور بیرون ملک عناصر کی ساز باز سے سازش میں ملوث ہوئی ہے جو پاکستان کے امن کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔’

اس موقع پر پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان کا مؤقف تھا کہ ‘یہ خارج از امکان نہیں کہ نثار السعود عراق واپس چلے گئے ہوں کیونکہ اس کے پاس سفارتی پاسپورٹ ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ عام سفری ذرائع سے عراق لوٹ گئے ہوں۔’

اخباری خبروں میں بتایا گیا تھا کہ نثار السعود کی رہائش گاہ سے برآمد ہونے والے اسلحے میں مشین گنز، گولیاں اور کمیونیکیشن (رابطوں) کا سامان شامل ہے۔ اسلام آباد پولیس کے ہمراہ پاکستان رینجرز نے روسی ساخت کا اسلحہ بھاری مقدار میں برآمد کیاتھا جس میں مشین گنز کے علاوہ بم اور کمیونیکشن کا وہ ساز وسامان تھا جو گوریلا جنگ میں کام آتا ہے۔

سرکاری بیان کے مطابق ‘اس کا مقصد شرپسندوں کو گوریلا جنگ کی تربیت دینا اور پاکستان میں امن و اہم آہنگی کی فضا کو تباہ کرنا تھا۔’

حکومت پاکستان نے زور شور سے نثار السعود کی تلاش شروع کر دی۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کا ہدف یہ بھی تھا کہ اس کے پاکستان میں رابطوں کا سراغ لگایا جائے تاکہ یہ پتہ چل سکے کہ اس اسلحہ کو کس مقام پر تقسیم کیے جانے کا ارادہ تھا۔

اس واقعے کے بعد پاکستانی حکومت نے عراقی سفیر اور سیاسی اتاشی کو ‘ناپسندیدہ شخصیات’ قرار دے کر ملک سے نکل جانے کا کہا اور اپنا سفیر بغداد سے واپس بلا لیا۔

آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا

بعد کی تحقیقات سے پتہ چلا کہ نثار السعود عراقی سفارت خانے پر چھاپے اور اسلحہ کی برآمدگی سے ایک دن قبل اسلام آباد سے فرار ہوگئے تھے۔ وہ بغداد پہنچ گئے اور اپنے معمول کے سرکاری فرائض سنبھال لیے۔

عراق کے دارالحکومت بغداد واپس پہنچنے کے فوری بعد اس کے ساتھ کیا واقعات رونما ہوئے، اس بارے میں کم ہی معلومات میسر ہیں۔

عراق سوویت حکومت کے جابرانہ نظام کی طرز پر ایک خاموش اورگھٹے ہوئے معاشرے کی حالت میں تھا۔

ایسی کوئی معلومات دستیاب نہیں جس سے یہ پتہ چل سکے کہ نثار السعود کے بغداد پہنچنے کے بعد اس کے ساتھ کیا ہوا تاہم چند ماہ کے اندر ہی انھیں دیگر فوجی حکام کے ہمراہ صدام حسین اور انقلابی کونسل کے دیگر ارکان کے خلاف مبینہ فوجی بغاوت کی کوشش کے الزام میں گرفتار کر لیاگیا۔

بغداد میں فوجی بغاوت کی اس کوشش پر نیویارک ٹائمز کی رپورٹ میں بتایاگیاتھاکہ ‘کونسل کے نائب صدر اور عراق کے طاقتور ترین شخص صدام حسین کے بیان کے مطابق ‘قظار ٹولے’ کو پبلک سیفٹی ڈیپارٹمنٹ (عوامی تحفظ کے محکمے) تک محدود کر دیاگیا تھا اور ان کی مسلح افواج میں نہ ہی حکمران بعث پارٹی میں کوئی حمایت تھی جو سوشلسٹ ہے۔’

مزید پڑھیے

جنوبی ایشیا پر گہری نظر رکھنے والی صحافی اور محقق سیلِگ ہیریسن نے اپنی کتاب ’ان افغانستان شیڈو‘ میں لکھا کہ ‘السعود پاکستان میں بے نقاب ہونے سے تین دن پہلے لاپتہ ہوگئے تھے اور پھر صدام حسین کے خلاف بغاوت کی کوشش سے تعلق ہونے پر دو جولائی 1973 کو عراقی چیف ناظم قظار کے ساتھ اس کو پھانسی دے دی گئی۔’

بلوچستان

،تصویر کا ذریعہCarnegie Endowment for International Peace

بلوچ قوم پرستی اور عراقی سفارت خانے سے اسلحہ کی برآمدگی

عراقی ایمبیسی سے اسلحہ کی برآمدگی کے تیسرے دن پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت میں وفاق میں قائم حکومت نے عطا اللہ مینگل کی سربراہی میں چلنے والی بلوچستان کی صوبائی حکومت کو ‘غداری’ کا الزام لگا کر برطرف کر دیا تھا۔

تاہم وزیر اعظم بھٹو نے خود کو محض اس الزام تک ہی محدود نہیں رکھا تھا کہ وزیراعلی مینگل کی حکومت نے اپنی مختصر مدت کے دوران کئی مرتبہ اپنی آئینی ذمہ داریوں سے تجاوز کیا بلکہ انھوں نے یہ عالمی اہمیت پیدا کرنے والے الزامات بھی وزیراعلی مینگل اور گورنر بزنجو پر عائد کیے کہ سویت یونین اور عراقی حکومت کی ملی بھگت سے انھوں نے پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوشش کی۔

اور حقیقت یہی ہے کہ عراقی سفارت خانے سے اسلحہ کی برآمدگی کے بیک وقت ہونے والے واقعہ نے بھٹو کے الزامات کو تقویت دی۔

یہ وہ وقت تھا جب عراق اور ایران میں فوجی مخاصمت اپنے عروج پر تھی۔ دونوں ممالک کی انٹیلیجنس ایک دوسرے کے ملک میں باغیانہ رجحانات کو پروان چڑھانے میں مصروف عمل تھیں۔ عراقی انٹیلی جنس ایرانی بلوچستان میں بلوچ باغیوں کی مدد کر رہی تھی جبکہ ایرانی انٹیلیجنس عراقی کردستان میں باغیوں کو اکسانے پر کاربند تھی۔

بعض پاکستانی مصنفین کی رائے میں عراقی سفارت خانے سے پکڑے جانے والا اسلحہ ایرانی بلوچستان کے لیے تھا تاکہ وہاں مشکلات کو بڑھایا جائے لیکن یہ بات اسلام آباد سے ایرانی بلوچستان کے درمیان طویل فاصلے کو مدنظر رکھتے ہوئے بعید از قیاس معلوم ہوتی ہے۔

اس کی آخری توضیح سیلِگ ہیریسن نے دی ہے۔ امریکی صحافی نے بلوچستان اوراس کے مسائل کا قریب سے مشاہدہ کیا تھا۔

انھوں نے اپنی کتاب میں لکھا کہ عراقی سفارت خانے سے برآمد ہونے والا اسلحہ پاکستانی اور ایرانی انٹیلیجنس سروسز کا شاخسانہ ہو سکتا ہے تاکہ صدام حسین حکومت کو شرمندگی سے دوچار کیا جائے اور عراقی سفارت خانے سے اسلحہ کی برآمدگی میں عراقی سفارت کار نے ایرانی اور پاکستانی انٹیلی جنس کا ساتھ دیا ہو۔

سیلِگ ہیریسن اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ‘پاکستان میں حکومت مخالف صحافی جو بغداد میں فوجی بغاوت کی کوشش کو ایرانی انٹیلیجنس ایجنسی ساواک سے جوڑتے ہیں، کہتے ہیں کہ السعود نے ایرانی اور پاکستانی ایجنٹس کے اشتراک عمل سے اسلام آباد میں اسلحہ کی برآمدگی کا انتظام کیا تھا۔’

مگر سوال یہ ہے کہ عراقی سیاسی اتاشی نثار السعود ایرانی اور پاکستانی انٹیلیجنس کے اشتراک عمل سے کام کر رہے تھے تو یہ سرگرمیاں عراق کی انٹیلیجنس سے کیسے پوشیدہ رہ سکتی تھیں، خاص طور پر سفارت خانے سے اسلحہ کی برآمدگی کے بعد۔

مگر ایک چیز تو واضح ہے: سازشوں، ایک دوسرے کو زیر کرنے کی تہہ در تہہ چالوں اور انٹیلیجنس کے کھیل کے اس جال کے بارے میں شاید ہمیں حتمی حقائق کا کبھی پتہ نہیں چلےگا کیونکہ اس میں شامل وہ تینوں ممالک، ، عراق، ایران اور پاکستان، شاید کبھی بھی سرکاری دستاویزات کو سامنے نہیں لائیں گے اور ممکنہ طور پر سچائی دن کے اجالے سے مخفی ہی رہے گی۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.