بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

جب نازیوں نے ’آریائی نسل کی برتری ثابت کرنے‘ اپنے سائنسدانوں کو ہمالیہ بھیجا

جب نازیوں نے ’آریائی نسل کی برتری ثابت کرنے‘ اپنے سائنسدانوں کو ہمالیہ بھیجا

جرمن ٹیم تبت کے لوگوں کے ساتھ

،تصویر کا ذریعہullstein bild Dtl/Getty Images

سنہ 1935 میں جرمنی کی نازی پارٹی اور ہولوکاسٹ کے ایک اہم معمار ہینرخ ہیملر نے پانچ اراکین پر مشتمل سائنسدانوں کی ایک ٹیم تبت بھیجی تاکہ آریائی نسل کی ابتدا کے بارے میں پتہ لگایا جا سکے۔ مصنف ویبھو پرندارے نے اس سفر کی داستان تحریر کی ہے۔

عالمی جنگ شروع ہونے سے کوئی ایک برس پہلے جرمن شہریوں کا ایک گروپ خفیہ طور پر انڈیا کی مشرقی سرحدوں پر پہنچا۔ وہ ’آریائی نسل کی ابتدا کا ذریعہ‘ دریافت کرنے کے مشن پر تھے۔

جرمنی کے سربراہ ہٹلر کا ماننا تھا کہ آریان نسل کے لوگ 1500 برس قبل شمال کی جانب سے انڈیا میں داخل ہوئے اور اس نسل کے لوگوں نے مقامی لوگوں کے ساتھ ملنے جلنے کا ’گناہ‘ کیا اور اپنی ان تمام صفات کو کھو دیا جنھوں نے انھیں زمین پر دوسرے تمام لوگوں سے نسلی طور پر برتر بنا دیا تھا۔

ہٹلر نے اپنی تقریروں، تحریروں اور مباحثوں میں اپنے جذبات کو بیان کرتے ہوئے ہندوستانی عوام اور ان کی جدوجہد آزادی کے لیے باقاعدگی سے گہری دشمنی کا اظہار کیا۔

لیکن ہٹلر کے ایک اعلیٰ لیفٹیننٹ اور خفیہ سروس ایس ایس کے سربراہ ہیملر کے مطابق اس سب کے باوجود برصغیر پھر بھی قریب سے دیکھنے کے قابل تھا۔

اور یہاں سے ہی تبت اس منظر نامے میں سامنے آیا۔

خود کو سفید فام نورڈک کی اعلیٰ نسل سمجھنے والے لوگ گمشدہ شہر اٹلانٹس پر بھی یقین رکھتے تھے جہاں ان کے مطابق سب سے عظیم اور ’خالص خون‘ کے لوگ ایک وقت میں رہا کرتے تھے۔

مانا جاتا تھا کہ یہ افسانوی شہر بحر اوقیانوس میں انگلینڈ اور پرتگال کے درمیان کہیں واقع ہے اور یہ افسانوی جزیرہ مبینہ طور پر آسمانی بجلی سے تباہ ہو کے بعد میں ڈوب گیا۔

ہٹلر اور ہینرچ ہیملر

،تصویر کا ذریعہKeystone/Getty Images

مانا جاتا ہے کہ زندہ بچ جانے والے تمام آریائی محفوظ مقامات پر منتقل ہو گئے تھے۔ ہمالیہ کا علاقہ ایک ایسی ہی پناہ گاہ سمجھا جاتا تھا، خاص کر کے تبت کیونکہ یہ علاقہ ’دنیا کی چھت‘ کے طور پر مشہور تھا۔

سنہ 1935 میں ہیملر نے پانچ جرمن باشندوں پر مشتمل ایک ٹیم تیار کی تاکہ یہ پتا لگایا جا سکے کہ اٹلانٹس سے لوگ کہاں گئے اور اس عظیم نسل کے نشانات کہاں اب بھی باقی ہیں اور انھیں دریافت کیا جا سکتا ہے۔

سنہ 1938 میں اس ’سرچ آپریشن‘ پر ایک ٹیم تبت بھیجی گئی۔ اس ٹیم میں شامل دو افراد باقی ٹیم سے نمایاں تھے۔

ان میں ایک 28 برس کے ماہر حیاتیات ارنسٹ شیفر تھے جو اس سے پہلے بھی دو بار انڈیا اور چین کی تبت سرحد پر جا چکے تھے۔

شیفر نے سنہ 1933 میں نازی پارٹی کی کامیابی کے بعد جرمن خفیہ سروس ایس ایس میں شمولیت اختیار کی تھی۔

شیفر کو شکار کا بے حد شوق تھا۔ ایک بار اپنی بیوی کے ساتھ ایک کشتی میں سوار ایک بطخ کا شکار کرتے ہوئے وہ پھسل گئے اور گولی ان کی بیوی کو جا لگی اور وہ ہلاک ہو گئیں۔

دوسرے اہم شخص نوجوان برونو بیجر تھے، جو ماہر بشریات تھے اور انھوں نے سنہ 1935 میں ایس ایس میں شمولیت اختیار کی تھی۔

ان کا کام تبت کے لوگوں کی کھوپڑیوں اور چہرے کے خدوخال کی پیمائش کرنا اور ماسک بنانا تھا تاکہ اس خطے میں نورڈک نسل کے تناسب، ابتدا، اہمیت اور ترقی کے بارے میں مواد جمع کیا جا سکے۔

یہ بھی پڑھیے

جرمن ٹیم

،تصویر کا ذریعہullstein bild Dtl/Getty Images

،تصویر کا کیپشن

سنہ 1935 میں ہیملر نے پانچ جرمن باشندوں پر مشتمل ایک ٹیم تیار کی تاکہ پتہ لگایا جا سکے کہ اٹلانٹس سے لوگ کہاں گئے

اس ٹیم کو لے کر جانے والا جہاز مئی سنہ 1938 میں سری لنکا کے شہر کولمبو پہنچا۔ جہاں سے وہ ایک اور جہاز پر مدراس (اب چنائی) اور وہاں سے ایک اور جہاز کے ذریعے کلکتہ(اب کولکتہ) پہنچے۔

انڈیا میں برطانوی حکام اس سفر سے آگاہ تھے اور انھوں نے سمجھا کہ یہ جاسوس ہیں۔ انھوں نے ابتدا میں اس ٹیم کو انڈیا سے گزرنے نہیں دیا اور اس وقت کے اخبار ’ٹائمز آف انڈیا‘ جو برطانیہ کی زیر ملکیت تھا، نے سرخی لگائی گئی کہ ’نازی کی خفیہ پولیس کا ایجنٹ انڈیا میں۔‘

انڈیا کی شمال مشرقی ریاست سکم کے علاقے گنگٹوک، جو اس وقت ایک آزاد پہاڑی ریاست تھی، کے برطانوی سیاسی افسر بھی سکم کے راستے ان افراد کے تبت میں داخلے کی اجازت دینے پر پرجوش نہیں تھے۔

لیکن آخر کار نازی ٹیم جیت گئی اور سال کے آخر تک یہ ٹیم اپنے خچروں اور سامان پر سواستیکا پرچم باندھے تبت میں داخل ہو گئی۔

سواستیکا ایک ایسی علامت تھی جو تبت میں ہر جگہ نظر آتی تھی اور مقامی طور پر اسے ’ینگ ڈرنگ‘ کہا جاتا تھا۔

شیفر اور ان کی باقی ٹیم نے انڈیا میں اس نشان کو بار بار دیکھا تھا اور ہندو اسے اچھی قسمت کی علامت سمجھتے تھے۔

حتیٰ کے آج بھی وہاں یہ نشان اکثر گھروں، مندروں، گلیوں کے کناروں اور ٹرکوں پر نظر آتا ہے۔

جرمن ٹیم

،تصویر کا ذریعہullstein bild Dtl/Getty Images

اس دوران تبت میں چیزیں تبدیل ہو رہی تھیں۔

13ویں دلائی لاما سنہ 1933 میں وفات پا چکے تھے اور نئے دلائی لاما کی عمر صرف تین برس تھی لہذا تبت کی بدھ بادشاہت کو ایک حاکم کنٹرول کر رہا تھا۔

حاکم اور تبت کے لوگوں نے اس جرمن ٹیم کے ساتھ شاندار سلوک کا مظاہرہ کیا۔ ماسک بنانے والے بیجر تو مقامی لوگوں کے لیے ایک قسم کے ڈاکٹر بن گئے۔

لیکن تبت کے بدھ مت یہ نہیں جانتے تھے کہ نازی افراد ہندوؤں کی طرح بدھ مت کو بھی ایک ایسا مذہب سمجھتے تھے جنھوں نے تبت آنے والی آریائی نسل کو کمزور کیا اور اس کے نتیجے میں ان کی روح اور طاقت ختم ہو گئی تھی۔

لیکن جیسے ہی یہ ظاہر ہوا کہ شیفر اور دیگر لوگ اپنی حقیقی ’تحقیق‘ کے لیے یہاں زیادہ وقت گزار سکتے ہیں تاکہ حیاتیات اور بشریات جیسے شعبوں میں سائنسی تحقیقات کر سکیں، اس مہم کو جرمنی نے اچانک اگست 1939 میں روک دیا۔ اس کی وجہ تھی دوسری جنگ عظیم جنگ۔

بیجر اس وقت تک تبت کے 376 افراد کی کھوپڑیوں اور خدوخال کی پیمائش کر چکے تھے، وہ دو ہزار تصاویر اور اس کے علاوہ 350 افراد کے فنگر پرنٹس اور ہاتھوں کے نشان بھی جمع کر چکے تھے۔

چونکہ اس ٹیم کا سفر مختصر کیا گیا تھا تو ہینریخ ہیملر نے ٹیم کے لیے آخری وقت میں کلکتہ سے باہر جانے کے انتظامات کیے اور جب طیارہ میونخ میں اترا تو ہیملر ٹیم کا استقبال کرنے کے لیے خود وہاں موجود تھے۔

شیفر تبت سے لائے اپنے زیادہ تر ’خزانے‘ کو سالزبرگ کے ایک قلعے میں لے گئے جہاں انھوں نے جنگ کے دوران قیام کیا لیکن سنہ 1945 میں جب اتحادی افواج نے یہاں چھاپہ مارا تو بہت سی تصاویر اور مواد تباہ ہو گیا۔

اس مہم کے دوسرے نام نہاد ’سائنسی نتائج‘ کا بھی کچھ ایسا ہی انجام ہوا: یا تو وہ تباہ یا پھر گم گئے اور نازی ماضی کی شرمندگی کا مطلب یہ تھا کہ جنگ کے بعد کسی نے بھی اس مواد کا سراغ لگانے کی کوشش نہیں کی۔

ویبھو پرندارے کتاب ’ہٹلر اینڈ انڈیا‘ کے مصنف ہیں۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.