جب انڈونیشیا میں برطانوی فوج کے ساتھ لڑنے والے 600 انڈین فوجیوں نے بغاوت کی
انڈونیشیا کے جنگجوؤں نے ایک پوسٹر لگا کر انڈین فوجیوں سے لڑائی میں حصہ نہ لینے کی اپیل کی تھی
- مصنف, تریشا دانتیانی
- عہدہ, بی بی سی نیوز، انڈونیشیا
سنہ 1945 میں برطانوی فوج کے ساتھ لڑنے والے تقریباً 600 انڈین فوجیوں نے بغاوت کی اور انڈونیشیا کی آزادی کی تحریک کی حمایت کر دی۔
بی بی سی نے پنجاب کے وزیر آباد سے آنے والے ان فوجیوں میں سے ایک کے خاندان کا سراغ لگایا اور ان سے ان کے تجربات پر بات کی۔
سنیوگ سریواستو ایک انڈین ہیں جو انڈونیشیا کے شہر سورابایا میں گذشتہ 25 سالوں سے مقیم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سورابایا کی جنگ انڈیا اور انڈونیشیا دونوں کے لیے جذباتی اہمیت کی حامل ہے۔
سورابایا میں ان کے گھر سے بی بی سی انڈونیشیا کو دیے گئے ایک ورچوئل انٹرویو میں سنیوگ سریواستو نے کہا ’دونوں پر طویل عرصے تک غیر ملکی حملہ آوروں نے ظلم کیا اور جب انگریزوں کے ماتحت انڈین فوج کے سپاہی یہاں آئے تو انھوں نے دیکھا کہ وہ اپنے ہی لوگوں سے لڑنے پر مجبور ہیں۔‘
جب انھوں نے جنگ میں مارے گئے فوجیوں کی یاد میں قومی یادگار ‘ٹوگو پہلوان’ کا دورہ کیا تو انھوں نے ان انڈین فوجیوں کے نام تلاش کرنے کی کوشش کی جنھوں نے انڈونیشیا کے آزادی پسندوں کے ساتھ اپنی جانیں قربان کیں۔
وہ کہتے ہیں ’اگر آپ یادگار کا دورہ کرتے ہیں، تو آپ کو کچھ اور چیزیں معلوم ہوں گی۔ یہاں کے انڈین نژاد لوگ اور جنھوں نے انڈونیشیا کے سکولوں میں تعلیم حاصل کی ہے، وہ سب اس تاریخ کے بارے میں جانتے ہیں۔‘
تاہم وہ محسوس کرتے ہیں کہ انڈین نژاد زیادہ تر لوگ انڈیا اور انڈونیشیا کے اس مشترکہ ورثے سے پوری طرح واقف نہیں ہیں۔ وہ امید کرتے ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس کہانی کی تہہ تک پہنچیں گے۔
سنیوگ کہتے ہیں ’مجھے لگتا ہے کہ یہ دلوں کو قریب لائے گا اور انسانیت کے احساس میں اضافہ کرے گا۔ انڈین تارکین وطن میں دونوں ممالک کے تئیں ذمہ داری کا احساس پیدا کرے گا اور دونوں ثقافتوں کے میل ملاپ، ایک دوسرے کا احترام اور امن کا احساس اور مل کر کام کرنے کا باعث بنے گا۔‘
برطانوی فوج کے پانچویں انڈین ڈویژن کے سپاہی سورابایا سے 10 میل دور گریسک قصبے پر گولہ باری کر رہے ہیں
سورابایا کی جنگ اور 600 انڈین فوجیوں کا کردار
سورابایا کی جنگ اہم تھی کیونکہ یہ ایشیا میں برطانوی سلطنت کی آخری بڑی جنگ تھی۔
اس وقت اتحادی افواج ستمبر 1945 میں سورابایا میں تعینات تھیں۔ برطانیہ کے ساتھ ساتھ آسٹریلیا کے فوجی بھی یہاں موجود تھے۔
لیکن انڈونیشیا کے لوگوں کو برطانیہ کے ساتھ ڈچ فوجیوں کو دیکھ کر غصہ آیا اور ان کا خیال تھا کہ ہالینڈ صرف ان کے ملک پر دوبارہ قبضہ کرنے میں برطانیہ کی مدد کر رہا ہے۔
انڈونیشیا کی جدید تاریخ کے ماہر اور آکسفورڈ مورخ پیٹر کیری کے مطابق ’ایک طرح سے 1946 میں، برطانیہ نے ڈچ کے لیے دوبارہ آنے کا دروازہ کھول دیا۔ تاہم ستمبر 1945 سے مارچ 1946 تک برطانیہ ایک سرویئر تھا۔
اس دوران انڈیا پر برطانیہ کی حکومت تھی اور اس نے ابھی تک آزادی حاصل نہیں کی تھی۔
لہٰذا سورابایا میں قیام امن کے لیے انگریزوں نے وہاں پنجاب، مدراس، مہاراشٹر اور دیگر علاقوں سے بھرتی ہونے والے ہزاروں فوجیوں کو تعینات کیا تھا۔
پروفیسر پیٹر کیری کے مطابق ’اس طرح پانچویں انڈین ڈویژن میجر جنرل رابرٹ مانسرگ کی قیادت میں سورابایا میں اتری۔ انڈین ڈویژن میں 6000 فوجی تھے جنھیں فضائیہ اور بحریہ کی مدد فراہم کی گئی تھی۔
لیکن برطانوی فوج کو اندازہ نہیں تھا کہ تقریباً 600 انڈین فوجی برطانوی کمانڈ کے خلاف بغاوت کر کے انڈونیشیا کے آزادی پسندوں کے ساتھ مل کر ڈچ-برطانوی فوج کے خلاف کھڑے ہو جائیں گے۔
’پانچ ویںڈویژن کو مانسرگ کی طرف سے آزادی کے لیے لڑنے والے انڈونیشین جنگجوؤں کے خلاف محاذ کھولنے کے احکامات موصول ہوئے۔‘
وہ کہتے ہیں: ’انڈین فوجیوں نے کہا – جب ہم خود برطانیہ سے اپنی آزادی چاہتے ہیں تو پھر ہم برطانیہ کے لیے کیوں فائر کریں؟‘
سنیوگ سریواستو اور ان کی اہلیہ سورابایا کی جنگ میں ہلاک ہونے والے ہیروز کی یاد میں قومی یادگار کے سامنے کھڑے ہیں
مشترکہ ثقافت اور قوم پرستی کا احساس
قوم پرستی کے احساس کے علاوہ انڈین فوجیوں اور انڈونیشیا کے آزادی پسندوں کے درمیان اچانک اتحاد کے احساس کی ایک وجہ ان کا مشترکہ عقیدہ تھا۔
جنگ کے دوران انڈونیشیا کے جنگجوؤں اور شہریوں کی جانب سے ‘اللہ اکبر’ کے نعروں نے انھیں یہ محسوس کرایا کہ وہ اپنے ہی لوگوں کے خلاف کھڑے ہیں۔
ظہیر خان کی کتاب ‘ان دی رول آف پاکستان ڈونگ دی انڈونیشیا اسٹرگل’ میں بتایا گیا ہے کہ بریگیڈ ون کے 32ویں ڈویژن کے کمانڈر غلام علی اور دیگر مسلمان فوجیوں نے انڈونیشین شہریوں میں چاول، چینی، نمک اور دیگر سامان تقسیم کیا۔
چونکہ انڈونیشیا کے لوگوں کے پاس کافی خوراک نہیں تھی اور وہ سنگین طبی مسائل کا سامنا کر رہے تھے اس لیے اس مدد کو بہت سراہا گیا۔
دراصل، غلام رسول اور سات دیگر فوجیوں نے ایک خفیہ میٹنگ کی اور جمہوریہ انڈونیشیا کی فوج کے سلیوانگی ڈویژن کے کمانڈر سے رابطہ کیا۔
اس کا کوڈ ‘السلام علیکم’ تھا۔ پروفیسر کیری کا کہنا ہے کہ اس بھائی چارے کا تعلق مذہب سے زیادہ قومیت کے احساس سے تھا۔
وہ کہتے ہیں: ’صرف مذہبی عنصر نہیں تھا۔ بلکہ، قومیت کا عنصر کہیں زیادہ تھا، جس نے نوآبادیاتی مخالف جذبات کو گہرا کیا۔‘
اس جنگ میں بہت سے لوگ مارے گئے۔ اس جنگ میں 27 ہزار لوگ مارے گئے اور ڈیڑھ لاکھ لوگ بے گھر ہوئے جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے تھے۔
جنگ کے اختتام پر 600 میں سے صرف 75 انڈین فوجی بچے رہ گئے تھے۔
پروفیسر کیری کے مطابق ’یہ ایک بہت ہی شدید لڑائی تھی جس میں 800 برطانوی فوجی مارے گئے تھے۔‘
سورابایا کی جنگ کے دوران برطانوی فوج کے قبضے میں لیے گئے ٹینک کی حفاظت کرتے ہوئے ایک انڈین سپاہی
’ہم ڈچ کے لیے کیوں مریں؟‘
برطانوی فوج میں ایک کیپٹن پی آر ایس مانی نے اپنی کتاب ‘دی اسٹوری آف انڈونیشین ریولوشن 1945-1950’ میں یاد کیا کہ ایک راجپوت سپاہی نے اسے اپنی موت سے پہلے اپنے دل کی بات کہی تھی۔
مانی بعد میں فری پریس جرنل ممبئی کے کل وقتی نامہ نگار بن گئے۔
پی آر ایس مانی لکھتے ہیں: ’وہ لیٹا تھا۔ اسے انڈونیشیائی فوجی نے سینے میں گولی ماری تھی۔ وہ مرنے ہی والا تھا۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ جناب! ہم ڈچ کے لیے کیوں مریں؟‘ (صفحہ 107، 1989)
اپنی یادداشتوں (صفحات 92-108) میں وہ لکھتے ہیں کہ بغاوت میں آزادی پسندوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر لڑنے والے انڈین فوجیوں کو انڈونیشیائی قوم پرست بہت عزت دیتے تھے۔
پی آر ایس مانی نے بعد میں لکھا کہ انڈیا کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کی طرف سے عوامی دباؤ تھا اور برطانوی فوج سے اپیل کی گئی تھی کہ وہ انڈونیشیا سے انڈین فوجیوں کو نکال کر گھر بھیج دیں۔
ان کی اپیل بالآخر قبول کر لی گئی جب 20 نومبر 1945 کو برطانوی فوج نے ہتھیار ڈال دیے۔ آہستہ آہستہ انڈین فوجیوں کو انڈیا واپس بھیج دیا گیا، جہاں انھیں ایک اور جنگ لڑنی پڑی اور اس بار انھیں اپنی آزادی کی جنگ خود جیتنی تھی۔
جنگ کے خاتمے کے بعد انڈونیشیا کی حکومت نے انھیں اپنے ملک کے اعلیٰ ترین اعزاز سے نوازا۔ زیادہ تر کے لیے یہ ایک بعد از مرگ اعزاز تھا۔
نائک میر خان، گلمر بانی، محمد یعقوب، عمر دین، غلام رسول، غلام علی، میجر عبدالستار، محمد صدیق، محمد خان، فضل، سنجہ فضل دین اور میجر ضیا الحق سورابایا کی جنگ میں شامل کچھ مشہور سپاہی ہیں۔
ضیا الحق نے برطانوی فوج میں ہوتے ہوئے دوسری عالمی جنگ میں حصہ لیا اور وہ برما، مالایا اور انڈونیشیا میں تعینات رہے۔ تقسیم ہند سے قبل وہ رائل انڈین ملٹری اکیڈمی سے گریجویٹ ہونے والے فوجی افسروں کے آخری گروہ میں شامل تھے۔
جنرل ضیا الحق بعد میں پاکستان کے چھٹے صدر بنے۔
جمہوریہ انڈونیشیا کے پہلے صدر سوکارنو نے 17 اگست 1945 کو ملک کی آزادی کا اعلان کیا
انڈیا اور انڈونیشیا کے تعلقات پر اس جنگ کا اثر
سورابایا میں انڈین ایسوسی ایشن (آئی اے ایس) کے صدر منوجیت داس کا خیال ہے کہ انڈینز کو تاریخ سے سبق سیکھنا چاہیے اور دونوں ممالک اور لوگوں کے درمیان تعلقات کو مزید مضبوط ہونا چاہیے۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا ’دوسری چیزوں کے علاوہ انڈیا اور انڈونیشیا کے درمیان ایک خاص حد تک ثقافتی یکسانیت ہے۔ ثقافت تقریباً ایک جیسی ہے اور یہ دونوں ممالک دنیا کے سب سے زیادہ گنجان آباد ممالک میں شامل ہیں۔‘
سورابایا میں رہنے والے 55 انڈین خاندانوں کے 180 افراد اس ایسوسی ایشن کے رکن ہیں۔
ان میں زیادہ تر ایسے لوگ ہیں جو انڈیا سے ہجرت کر کے آئے ہیں لیکن ایسے لوگ بھی ہیں جو تین یا چار نسلوں سے انڈونیشیا میں مقیم ہیں۔
منوجیت داس کا دعویٰ ہے کہ پانچویں ڈویژن اور دیگر برٹش انڈین ڈویژنز کے خاندان سورابایا چھوڑ کر جنوب مشرقی ایشیائی ممالک چلے گئے یا اپنے ملکوں کو لوٹ گئے ہیں۔
ان کی خواہش ہے کہ لوگوں کو انڈونیشیا میں تعینات انڈین فوجیوں اور آزادی کی جدوجہد میں دونوں ممالک کی ایک دوسرے کی مدد کے بارے میں لوگوں کو معلومات ہونی چاہیے۔
وہ کہتے ہیں، ’یہ کہانی عام لوگوں تک پہنچنی چاہیے۔ تب لوگوں کو معلوم ہوگا اور ان میں دلچسپی پیدا ہوگی کہ اس دور میں آخر کیا ہوا تھا۔‘
1947 میں جب انڈیا کو خوراک کی کمی کا سامنا تھا، انڈونیشیا نے 10,000 ٹن چاول انڈیا کو برآمد کیے تاکہ مغربی بنگال کو قحط سے نکالا جا سکے۔
پروفیسر پیٹر کیری کہتے ہیں ’انڈیا، انڈونیشیا کے دوست کی طرح تھا اور آزادی کے بعد اسے تسلیم کرنے والے پہلے ممالک میں سے ایک تھا۔ بھارت اس کا اتحادی اور دوست تھا۔‘
جب نہرو نے خط میں انڈونیشیا کی تعریف کی
ایک قابل ذکر مثال ایشیا-افریقہ کانفرنس کے دوران نہرو اور سوکارنو کے درمیان تعاون تھا، جس کی میزبانی انڈونیشیا نے بنڈونگ میں کی تھی۔
پروفیسر کیری کے مطابق ’نہرو نے ایڈوینا ماؤنٹ بیٹن کو خط میں لکھا کہ ‘میں انڈونیشیا کی میزبانی سے بہت متاثر ہوا۔ میں یہ کہنا چاہوں گا کہ ہم بھی اسے اتنے اچھے طریقے سے نہیں کر سکتے تھے۔‘
سنیوگ سریواستو سنہ 2012 سے 2014 کے درمیان سورابایا میں انڈین ایسوسی ایشن کے صدر تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ ایسوسی ایشن اُس وقت سے موجود ہے جب انڈونیشیا ابھی تک آزاد بھی نہیں تھا۔
پی آر ایس مانی کے مطابق جب جنرل اے ڈبلیو ایس مالابی کو گولی لگی تو سورابایا میں انڈین ایسوسی ایشن کے اس وقت کے صدر کندن ان کے بہت قریب تھے انھیں معمولی چوٹیں بھی آئیں۔
سنیوگ سریواستو محسوس کرتے ہیں کہ انڈین تارکین وطن کمیونٹی مقامی لوگوں کے تئیں احترام اور ذمہ داری کا احساس رکھتی ہے۔
وہ کہتے ہیں: ’ہم سب جو انڈیا سے دور دوسرے ممالک میں رہ رہے ہیں، مجھے لگتا ہے کہ اُس ملک کے لیے ہمارا تعاون بہت اہم ہے۔ اور یہ بالآخر ہمارے اپنے ملک میں حصہ ڈالنے میں مدد دیتا ہے۔‘
’خاص طور پر انڈونیشیا میں رہتے ہوئے کبھی ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ ہم انڈیا سے دور ہیں۔ ثقافتی طور پر ہم بہت قریب ہیں۔ ہمارے خیالات، ہماری سوچ، اپنے بزرگوں کا احترام اور اگلی نسل کو آگے لے جانے کی خواہش یہ سب ایک جیسے ہیں۔‘
وہ امید کرتے ہیں کہ انڈین تارکین وطن انڈونیشیا میں انڈین فوجیوں کی کہانی سے سیکھیں گے اور اس معاشرے میں جہاں وہ رہتے ہیں اپنا حصہ ڈالنے کے لیے پر عزم ہوں گے۔
سنیوگ سریواستو کہتے ہیں ’یہ آپ کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ آپ جس ملک میں رہتے ہیں اس کی سرحد اور زمین کی حفاظت کریں اور اس کی مدد کریں۔ اس ملک اور اس میں رہنے والے لوگوں کی ترقی میں مدد کرکے آپ اپنے ملک کی بھی مدد کرتے ہیں۔’
Comments are closed.