بھارتی ٹینس اسٹار ثانیہ مرزا کا کہنا ہے کہ انہیں ٹینس کھیلنے پر مختلف وجوہات کی بنا پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
سمیر کوچر کے ویب شو میں ثانیہ مرزا نےاپنے ٹینس کھیلنے سے متعلق لوگوں کے خیالات کے بارے میں بات کرتے ہوئےکہا کہ ’آپ جانتے ہیں کہ میں ٹینس کھیلتی ہوں ، میں حیدرآباد سے ہوں ، میں ایک درمیانے طبقے کے مسلمان گھرانے سے آئی ہوں۔‘
ثانیہ نے بتایا کہ’ یہاں میرے بہت سے کام تھے جن کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہ روایات کے خلاف ہیں، مجھے روز یہ سننے کو ملتا تھا کہ اس سے شادی کون کرے گا؟ یہ شورٹس پہن کر کھیلے گی یہ تو لڑکوں کے کام ہیں۔ یہ وہ باتیں تھیں جو اپنے کرئیر کے آگاز میں سننا پڑیں ۔‘
انہوں نے ٹینس کورٹس میں اپنے سفر کے بارے میں مزید بتاتے ہوئے کہا کہ ’اس کے بعد میرےبارے میں میرے والدین سے یہ سوال ہونے لگے کہ کیا واقعی یہ ومبلڈن کھیلنے جارہی ہے ؟، کیا آپ کو لگتا ہے یہ ومبلڈن جیتنے جارہی ہے؟ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا ہے آپ کو کیسے لگتا ہے کہ آپ کی بیٹی ہی کرنے جارہی ہے؟‘
ثانیہ نے ٹینس کھیلنےکے لیے ملنے والی سہولتوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم گائے کے گوبر سے بنے ہوئے کورٹس پرکھیلتے تھےتو ہمیں سننا پڑتا تھا کہ گند پر کھیلتے ہو، ہمیں ٹیٹنس انجیکشنز بھی لگتے تھےاور ہم پریکٹس کرتے رہتے تھےکیونکہ ہمارے پاس صرف یہی ایک راستہ تھا۔‘
ثانیہ مرزا نےکھیلوں کے میدان میں خواتین کے مستقبل کے با رے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں نے یہ کوشش کی کہ میںان روکاوٹوں کو توڑوں تاکہ خواتین کھیلوں کے میدان میں اپنے کرئیر کا انتخاب کرسکیں ۔ اسے بالکل بھی ایسی چیز بنانے کی ضرورت نہیں کہ یہ صرف لڑکوں کے کام ہیں یا یہ چیزیں صرف مرد ہی یہ کرسکتے ہیں ۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ایک عورت اسپورٹس میں اپنا کرئیر بنا سکتی ہے اس سے پیسے کما سکتی ہے ۔ وہ اس حوالے سے آزاد ہے۔ اسپورٹس ایک پروفیشن ہوسکتا ہے ہے بالکل اسی طرح جیسے کوئی ٹیچر بننا چاہتا ہے ، کوئی ڈاکٹر ، کوئی وکیل یا کچھ بھی بننا چاہتا ہے۔‘
Comments are closed.