بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

تھائی لینڈ کا ’چٹورا‘ شہر جو ناشتے کے لیے صبح چار بجے جاگتا ہے

تھائی لینڈ کا ’چٹورا‘ شہر ترنگ جو ناشتے کے لیے صبح چار بجے جاگتا ہے اور دن میں نو بار کھانا کھاتا ہے

  • آسٹن بش
  • بی بی سی ٹریول

روایتی ناشتہ

،تصویر کا ذریعہAustin Bush

تھائی لینڈ کے جنوبی شہر ترنگ میں تقریباً آدھی رات تھی اور میں ایک چھوٹے سائز کے تندور پر نظریں جمائے بیٹھا تھا۔ آگ کے شعلے اور دھواں آسمان کی جانب بلند ہو رہا تھا اور لوگ احتیاط سے مگر پُرجوش انداز میں ذبح شدہ خنزیر کو آگ کے نیچے دبا رہے تھے۔

ایک گھنٹے کے بعد اسے باہر نکالا جائے گا، اس وقت تک یہ بُھنا ہوا، کرکرا، قرمزی رنگ کا اور خوشبودار ہو چکا ہو گا۔

جب یہ اتنا ٹھنڈا ہو جائے گا کہ کھایا جا سکے تو اس گوشت کو تقسیم کیا جائے گا، اس کے قتلے بنائے جائیں گے اور تقریباً چار بجے تک ترنگ کے مرکز میں لگنے والے صبح کے بازار میں فروخت کے لیے مختلف ریستورانوں پر سجا دیا جائے گا۔

دنیا میں ایسی بہت ساری جگہیں نہیں ہیں جہاں لوگ سالم خنزیر کے گوشت کو روزانہ بھوننے کے لیے تمام ضروری سامان رکھتے ہوں۔ لیکن دنیا میں ایسی بھی زیادہ جگہیں نہیں ہیں جو ناشتے کے بارے میں دیوانہ مزاج رکھتے ہوں جیسے کہ ترنگ شہر کے لوگوں میں پایا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

یہاں تک کہ تھائی لینڈ جیسے خوراک سے بھر پور ملک میں، شہر کے صبح کے کھانے کے لیے جوش و خروش تقریباً ایک نفسیاتی بیماری جیسا دکھائی دیتا ہے۔

ترنگ میں، آپ اپنے دِن کا آغاز چینی ریستورانوں سے کر سکتے ہیں جہاں لوگ ان کھانوں کو نوڈلز اور چاول کے دلیے کے بھاپ اڑاتے پیالوں میں فروخت کرتے ہیں۔

ان کیفے اور سٹالز پر سالن، تلی ہوئی تیز مرچ اور سوپ کی ٹرے کے ساتھ میز پر سجا ہوتا ہے۔ سب سے مشہور، مقامی طرز کا روسٹ ہوا، خنزیر کے گوشت کا سٹال ہے۔ یہ مسحور کن، لذیذ اور زبردست ہے لیکن صرف ناشتہ ہی کیوں اور صرف ترنگ میں ہی کیوں؟

تھائی لینڈ

،تصویر کا ذریعہAustin Bush

جب ترنگ میں ایک ریستوران کے مالک اور شوقیہ طور پر پکوان کی تاریخ لکھنے والے، خانا پورن جنجرڈسک سے میں نے پوچھا کہ ناشتے میں ترنگ اتنا زیادہ مشہور کیوں ہے تو اُنھوں نے بتایا کہ ’ترنگ کے ریستورانوں میں طرح طرح کے کارکنان (کھانے پکانے والے) بڑی تعداد میں رہائش پذیر ہیں۔‘

’جنگلوں میں ربڑ جمع کرنے والے علی الصبح دو بجے اٹھتے ہیں، جو لوگ ریستوران چلاتے ہیں وہ پانچ بجے پکوان کے اجزا کی خریداری کرتے ہیں۔ یہاں کے لوگ ہر وقت کچھ نہ کچھ کھاتے رہتے ہیں۔‘

’یہاں لوگ ہر وقت کچھ نہ کچھ کھا رہے ہوتے ہیں‘

خانا پورن نے مجھے بتایا کہ ترنگ کے آس پاس کے دیہی علاقوں میں ربڑ ایک اہم فصل ہے اور حقیقت یہ ہے کہ صبح کے اوقات میں ربڑ کا رس جمع کرنا ضروری ہے۔ کچھ معاملات میں انھوں نے کہا کہ سورج طلوع ہونے سے پہلے ہی ربڑ جمع کرنے والوں نے دو وقت کا کھانا کھا لیا ہوتا ہے۔

ایک اور عنصر جس نے شہر کے ناشتے کے منظر کو شکل دی ہے وہ ہے امیگریشن۔ پندرہویں صدی کے بعد سے تجارت، کاروبار اور کام کرنے کے امکانات نے تھائی لینڈ کے سمندر انڈمن کے ساحل کے ساتھ ساتھ چینی تارکین وطن کو مختلف مقامات کی طرف راغب کرنا شروع کر دیا تھا۔

ترنگ ان چینیوں کا ایک بڑا مرکز بن گیا اور اس کے نتیجے میں تھائی لینڈ میں یہ شہر چینی ثقافت کو فروغ دلانے والا شہر بن گیا۔ یہاں کی علاقائی چینی زبانوں میں ہکا، ہوکین اور ٹیوچو بولی جاتی ہیں۔ پھر بھی یہ کینٹونیز یعنی چینی شہر کینٹون جیسا لگتا ہے جس نے ترنگ کے ناشتے پر سب سے زیادہ اثر ڈالا ہے۔

جیپ کھاؤ کے چوتھی نسل کے کینٹونوی مالک، یاوانی تھیرا کلیلا نے وضاحت کی کہ ’پرانے دنوں میں، لوگ صرف چائے پینے آتے تھے۔ جو ترنگ کا سب سے دیرینہ اور معروف علاقہ ہے۔‘

روایتی ناشتہ

،تصویر کا ذریعہAustin Bush

ہم ان کے ریستوران میں بیٹھتے تھے، جو صبح سات بجے، دفتر میں جاتے ہوئے خاندانوں، سکول کے بچوں، ریٹائرڈ سرکاری ملازموں اور دوسرے لوگوں سے پہلے ہی سے بھرے ہوئے تھے۔ چائے کے ساتھ کھانے کے لیے بہت ساری چیزیں نہیں تھیں۔ چند ایک ابلے ہوئے پکوڑے، شاید موٹے آٹے سے بنے ہوئے تھے۔

تھیرا کلیلا نے مجھے بتایا کہ پھر کئی دہائیوں کے دوران ترنگ کے چائے خانوں نے کھانے پینے کی دیگر اشیا پیش کرنا شروع کیں اور آخر کار وہ فیشن باقی ریستورانوں میں بھی مقبول ہو گیا۔

آج یہ شہر چینی پکوانوں کے ریستورانوں کے نام سے مشہور ہیں جو درجنوں ابلے ہوئے اور تیل میں تلے مختلف پکوان پیش کرتے ہیں جن میں نوڈلز اور چاولوں کے پکوان شامل ہوتے ہیں۔ تاہم جیپ کھاؤ ان چند لوگوں میں سے ایک ہے جنھوں نے نسبتاً چھوٹی سا مینیو آج بھی برقرار رکھا ہوا ہے اور یہ سب پکوان گھر میں بنے ہوئے ہوتے ہیں اور روایتی انداز میں بانس کی چھوٹی ٹوکریوں کی بجائے ایک وسیع ٹرے میں ابالے ہوئے ہوتے ہیں۔

کسی بھی طرح کے سمندری خوراک سے تیار کیے گئے پکوڑے کے خیال کو ذرا الگ رکھیں، ترنگ کے چینی پکوانوں کا گھریلو اور دل موہ لینے والا انداز، جس میں خنزیر کے گوشت کو لہسن اور سفید کالی مرچ سے بھرا جاتا ہے۔

اور چینی چائے کی روایت کی باقیات ابھی بھی جیپ کھاؤ اور اس کے اہم منصبوں کے مشروبات کے معیار میں دیکھی جا سکتی ہیں جہاں زیادہ تر کافی اور چائے کے میٹھے کپ کو جراب جیسے کپڑے سے فلٹر کے ذریعے اُنڈیلا جاتا ہے۔

تھیرا کیلیلا کو فخر ہے کہ ان کا ریسٹوران شاید شہر میں واحد ہے جو چائے کو روایتی چائے کے انداز میں پیش کرتا ہے۔ کپ جیسی چائے کی کیتلی سے اور گلِ داؤدی کی پنکھڑیوں کی خوشبودار مہک کے ساتھ۔

پکوڑے

،تصویر کا ذریعہAustin Bush

تھرا کیلیلا گھی اور چربی والے کھانوں کا ذکر کر رہی تھی جو بلاشبہ ترنگ کا مشہور خنزیر کا بُھنا ہوا گوشت تھا۔ اگرچہ اس پکوان کی ابتدا چینی تہواروں اور تقریبات سے شروع ہوئی تھی لیکن اب یہ ترنگ کا کی ثقافت بن گئے ہیں اور یہ میونسپلٹی کے صبح کے بازار اور چینی پکوانوں کے ریستورانوں میں ایک جیسے سٹالز پر فروخت کیا جاتا ہے۔

مقامی لوگوں کے لیے یہ ایک بنیادی لذیذ خوراک ہے لیکن سیاحوں میں بھی یہ مقبول ہے جن کے لیے انھیں مخصوص انداز میں تیار کیا جاتا ہے اور اس کے تیار کرنے کی ضروری کھانے کی اشیا، خنزیر کے گوشت کو ہڈیوں سے الگ کرنا، اچھی طرح صاف کرنا اور پانچ خوشبودار مسالوں کا سفوف اس پر اچھی طرح ملنا اور پھر یہ تیار کر کے تندور سے اس طرح مزیدار بنا کر نکالنا جیسے میں نے اُس رات دیکھا تھا اور جسے جب کھانے کے لیے لایا جا رہا ہو تو اس میں سے گھی کے قطرے ٹپک رہے ہوں۔

جب میں نے ان سے اپنے شہر کے اس خاص پکوان کی وضاحت کرنے کے لیے کہا تو جنجیرڈساک نے کہا ’آپ کو ترنگ طرز کے خنزیر کا بھنا گوشت کھاتے وقت اسے کسی چٹنی میں دوبارہ سے ڈبونے کی ضرورت نہیں، اس میں پہلے ہی سے مصالے لگے ہوتے ہیں۔۔۔ ذائقہ پہلے ہی کامل ہوتا ہے۔‘

ترنگ میں ریستوران

،تصویر کا ذریعہGetty Images

میں آٹا گوندنے کے لیے صبح تین بجے جاگتی ہوں

سٹریٹ سائیڈ اور ترنگ کے صبح کے بازار میں خنزیر کے بھنے گوشت کا بہت زیادہ کاروبار ہوتا ہے۔ صارفین ایک یا دو کلو کے آرڈر اپنی موٹر سائیکلوں پر اترے بغیر ہی خریدتے ہیں اور کھانا خرید کر تیز رفتاری سے رواں دواں ہو جاتے ہیں۔

بُھنے ہوئے خنزیر کے گوشت کے بعد جسے پسند کیا جاتا ہے وہ تیل میں تلے ہوئی آٹے کی بنی پکوڑیاں جن کا ترنگ سے تعلق بنتا ہے۔۔۔ یہ ایک اور چینی ناشتے کا بنیادی جزو ہے۔

ایک چھوٹی سی دکان سے منسلک صرف ناشتے کے ایک ریستوران، کین چیانگ بینگ راک، جو بہترین پکوڑوں کے لیے مشہور ہے، کی مالک سوموٹ اتاکج مونگکول نے وضاحت کی کہ ’میں آٹا گوندنے کے لیے ہر روز صبح تین بجے اٹھتی ہوں۔ میں صبح چھ بجے آٹے سے چینی پکوڑے تلنا شروع کر دیتی ہوں اور ہم عام طور پر انھیں نو بجے تک فروخت کر دیتے ہیں۔‘

اتھاکیج مونگکول جب وہ چینی پکوڑوں کو تیار کر رہی تھی انھیں تل رہی تھی اور پلٹ رہی تھیں اس دوران انھوں نے مجھ سے بات جاری رکھی۔ بڑے پیمانے پر لگ بھگ سگریٹ لائٹر سائز کے پکوڑوں کی ایک بڑی تعداد بن جانے کے بعد، انھوں نے ان میں سے دو کو لیا اور انھیں ساتھ ملا لیا، جسے وہ گرم تیل کی ایک بڑی کڑاہی میں ڈال دیا اور انھیں اس وقت تک وہ الٹتی پلٹتی رہی جب تک وہ چمکدار اور سرخ نہیں ہو گئے۔

روایتی ناشتہ

،تصویر کا ذریعہAustin Bush

ترنگ کے لوگ دن میں نو مرتبہ کھانا کھاتے ہیں

جب میں نے ان سے پوچھا کہ ان کے پکوان کو کس چیز نے بہترین اور اتنا مزیدار بنایا ہے، تو انھوں نے کہا کہ ’یہ ہمارے منہ میں جا کر نرم ہو جاتے ہیں۔‘

اس طرح ترنگ میں آٹے کے لمبے پکوڑوں کی مقبولیت اتنی زیادہ ہے کہ کسی بھی ریستوران کی میز کے اوپر یہ رکھے ہوئے ملیں گے۔

لیکن ترنگ کا ناشتہ کرنے کا منظر صرف یہاں تک ہی محدود نہیں۔ جنوبی تھائی لینڈ کے بیشتر علاقوں کی طرح اس شہر میں بھی مسلمانوں کی ایک اچھی خاصی آبادی ہے اور ترنگ کے ریلوے سٹیشن کے قریب کھلی ہوا کے حلال ریستورانوں کے نام سے جانے، جانے والے بھنے گوشت، پراٹھے فروخت کرتے ہیں اور ان میں خوشبو والے خشک انڈین مصالے مکس کرتے ہیں جو انھیں تھائی لینڈ پکوان سے زیادہ انڈین پکوان بنا دیتے ہیں۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ آس پاس کے نسلی تھائی، جن کا شاید ترنگ کے ناشتے پر بہت ہی کم اثر نظر آتا ہے۔ یہ ان پکوانوں کے سٹال چلاتے ہیں، ایسے ریستوران جو پہلے سے تیار کردہ سالن، سٹِر فرائیز، سوپ اور دیگر برتنوں کی درجنوں ٹریز پر سجے ہوتے ہیں۔ اگرچہ عام طور پر تھائی لینڈ میں کہیں بھی دوپہر کے کھانے کا وقت ہو ان پکوانوں کو ناشتہ ہی کہا جائے گا۔

تھائی سالن کے پکوان کے سٹال کے مالک، تھانپائپ بونیارات، نے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ یہ اپنا سارا پکوان نو بجے تک فروخت کر چکے ہوتے ہیں۔

انھوں نے مجھے بتایا کہ ’کہیں اور (تھائی لینڈ میں) لوگ روزانہ تین بار چار بار کھانا کھاتے ہیں لیکن ترنگ میں لوگ دن میں نو مرتبہ کھانا کھاتے ہیں!‘

میں یہ اعتراف کرتا ہوں کہ اس دن یہ میرا دوسرا ناشتہ تھا۔ واضح طور پر میں کھانے کے مقامی انداز کو سمجھنے لگا تھا۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.