تعلیم اور ورک ویزا: بریگزٹ کے باوجود تارکین وطن بڑی تعداد میں برطانیہ کا انتخاب کیوں رہے ہیں؟

برطانیہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

برطانیہ کے تین وزرائے اعظم اپنے اس وعدے کو پورا نہیں کر سکے کہ وہ تارکین وطن کی آمد کو کم کریں گے۔ ڈیوڈ کیمرون اور تھریسا مے نے یہ تعداد ہزاورں تک لانے کا اعلان کیا تھا۔ تاہم ان دعووں کے برعکس برطانیہ آنے والے غیر ملکی افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

2022 میں برطانیہ میں نیٹ مائگریشن (یعنی ملک میں آنے والوں میں سے ملک چھوڑنے والوں کی تعداد منفی کرنے کے بعد کے اعدادوشمار) چھ لاکھ چھ ہزار تھی۔ 2021 کے مقابلے میں یہ ایک لاکھ 64 ہزار کا اضافہ ہے اور 2019 کے مقابلے میں یہ تین گنا اضافہ ہے۔

آخر بریگزٹ کی مہم کے آغاز کے سات سال بعد بھی ایسا کیوں ہے؟ماہرین اور اعدادوشمار کے مطابق اس اضافے کے پیچھے تین عوامل کارفرما ہیں۔

بین الاقوامی طلبا

2022 میں برطانیہ میں داخل ہونے والوں کی تعداد 12 لاکھ تھی جن میں سے پانچ لاکھ 57 ہزار افراد ملک چھوڑ گئے۔

برطانیہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ان میں سے نو لاکھ 25 ہزار یورپی یونین سے باہر سے آئے جن میں سے 40 فیصد سٹوڈنٹ ویزا پر برطانیہ آئے تھے۔

مرینا فرنینڈیز آکسوفرڈ یونیورسٹی مائگریشن آبزرویٹری میں سینئر ریسرچر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی طلبا برطانوی جامعات کی کمائی کا اہم ذریعہ ہیں۔

’یونیورسٹیاں چینی طلبا پر انحصار کرتی ہیں اور بین الاقوامی طلبا کا بیشتر حصہ ان پر مشتمل تھا۔‘

پیٹر والش بھی اسی سینٹر میں کام کرتے ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ برطانوی حکومت اور جامعات نے انڈیا اور نائجیریا سے طلبا کو ریکروٹ کرنے کی کوشش کی ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’بین الاقوامی طلبا مقامی طلبا سے زیادہ فیس ادا کرتے ہیں۔‘

برطانوی حکومت نے پڑھائی مکمل ہو جانے کے بعد کام کی سکیم دو سال پہلے متعارف کروائی تھی۔ مرینا فرنینڈیز کا کہنا ہے کہ ’اگر آپ بین الاقوامی طالب علم ہیں تو آپ کسی بھی شعبے میں کام کے لیے دو سال تک رہ سکتے ہیں چاہے اس کا تعلق آپ کی پڑھائی سے نہ ہو۔‘

برطانیہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ان کا کہنا ہے کہ اسی لیے برطانیہ آنا پہلے کی نسبت ایک بہتر راستہ ہے جب تعلیم مکمل ہونے کے ایک سال بعد ملک چھوڑنا پڑتا تھا۔

ایک اور نکتہ یہ بھی ہے کہ انڈیا، نائجیریا اور کئی دیگر ممالک سے آنے والے طلبا اکیلے نہیں آتے بلکہ ان کے خاندان ساتھ آتے ہیں۔

مرینا کا کہنا ہے کہ اس وجہ سے سٹوڈنٹ ویزا پر آنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ دوسری جانب ان کے مطابق چینی طلبا اکیلے ہی آتے ہیں۔

پیٹڑ والش نے بتایا کہ بین الاقوامی طلبا گذشتہ سال اپنے ساتھ ایک لاکھ خاندانی اراکین کو برطانیہ لے کر آئے۔

نئی پابندیاں

برطانیہ کے وزیر اعظم رشی سوناک کی نئی حکومت نے نئی پابندیاں متعارف کروائی ہیں۔

مرینا کے مطابق آئندہ سال سے صرف ماسٹر ڈگری یا ڈاکٹریٹ کے لیے آنے والے ہی اپنے خاندان کو ساتھ لا سکیں گے۔

ان کا کہنا ہے کہ اس کا دو چیزوں پر اثر ہو گا۔ ’ایک تو کم لوگ آئیں گے اور دوسرا برطانیہ میں تعلیم کے لیے آنا اتنا اچھا راستہ نہیں رہے گا۔‘

رسل گروپ، جو برطانیہ کی اعلی جامعات کی نمائندگی کرتا ہے، کے مطابق نئی پابندیاں بین الاقوامی طلبا سے حاصل ہونے والی آمدن کو متاثر کرے گا۔

برطانیہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

کام کے لیے ویزا

برطانیہ آنے والے افراد میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو کام کی غرض سے آئے۔ ان افراد کی تعداد میں ایک سال میں دوگنا اضافہ ہوا ہے جو ایک لاکھ 37 ہزار سے بڑھ کر دو لاکھ 35 ہزار ہوئی ہے۔

یورپی یونین کے باہر سے آنے والے ان افراد کی تعداد میں اضافے کی وجہ پیشہ ور لوگوں کے ویزے کی مدت میں توسیع یعنی ایکسٹینشن تھی۔

بریگزٹ سے پہلے صرف برطنوی کمپنیوں یا اداروں کی جانب سے سپانسر کیے جانے والے افراد کو ہی اس راستے سے داخلے کی اجازت تھی جیسا کہ ڈاکٹر یا نرسیں۔

تاہم 2022 میں کئی اور شعبہ جات کو بھی اس فہرست میں شامل کر لیا گیا جن کی طبی شعبے میں ضرورت تو ہوتی ہے لیکن ان کو ماہر نہیں سمجھا جاتا یعنی یہ لوگ خیال رکھنے کا کام کرتے ہیں۔

او این ایس کے اعداد و شمار کے مطابق انڈیا، نائحیریا اور زمبابوے سے اس شعبے میں لوگ برطانیہ آئے۔

ودیا رہومتلی کئی دہائیوں قبل ماریشس سے برطانیہ آئی تھیں۔ لندن سے تین گھنٹے مسافت پر نارتھ فولک میں وہ نرسنگ ہوم چلاتی ہیں۔

ودیا رہومتلی

،تصویر کا کیپشن

ودیا رہومتلی

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ اپنے پاس کام کرنے کے لیے انڈیا سے کئی لوگ رکھ چکی ہیں۔ ’ہمارے بغیر مقامی ہسپتالوں میں بستر کم پڑ جاتے۔‘

یہ بھی پڑھیے

یوکرین اور ہانگ کانگ

عالمی واقعات بھی برطانیہ میں تارکین وطن کی تعداد میں اضافے کی وجہ بنے ہیں۔

2022 میں ایک لاکھ 14 ہزار یوکرینی شہری جبکہ 52 ہزار ہانگ کانگ کے شہری برطانیہ داخل ہوئے۔ ہانگ کانگ کے شہریوں کو اس وقت ایک خصوصی ویزا دیا گیا جب چین نے ایک نیشنل سکیورٹی قانون لاگو گیا تھا۔

تاہم ڈومینیک کاسیانی کا کہنا ہے کہ یوکرین اور ہانگ کانگ سے لوگوں کی آمد کا سلسلہ ختم ہو جائے گا۔

دوسری جانب ان کے مطابق بین الاقوامی طلبا بھی نئی پابندیوں کے بعد خاندان کے اراکین کو نہیں لا سکیں گے جس سے ان کی تعداد میں بھی کمی ہو گی۔

لیکن مرینا فرنینڈیزکا کہنا ہے کہ ’پیش گوئی کرنا ہمیشہ مشکل ہوتا ہے کیوں کہ غیر یقینی موجود ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ صحت کے شعبے میں لوگوں کی کمی موجود ہے۔

فائدہ یا نقصان؟

کرس میسن کا کہنا ہے کہ ’یہ معاملہ صرف اعداد و شمار کا نہیں ہے۔ یہ جذبات، وعدوں، لوگوں کا معاملہ ہے۔‘

مرینا فرنینڈیز کا کہنا ہے کہ ’سیاست دانوں کی ان اعداد و شمار میں کمی لانے کی صلاحیت محدود ہوتی ہے۔ اسی لیے اب وہ طلبا کے خاندان کے لوگوں کی تعداد کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

لیکن اس تبدیلی کی جامعات کو بھاری قیمت ادا کرنا ہو گی۔

ان کا کہنا ہے کہ تارکین وطن کی تعداد میں کمی لانے سے ہمیشہ کسی کو فائدہ یا نقصان ضرور ہوتا ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ