ترکی: طیب اردوغان ایک اور فتح کے بعد کیا کریں گے؟

فائل فوٹو

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

اردوغان کو 28 مئی کے صدارتی انتخاب سے قبل سبقت رلینے والے امیدوار کے روپ میں دیکھا جا رہا ہے۔

ترکی میں 28 مئی کو صدارتی الیکشن کا دوسرا مرحلہ شروع ہوگا کیونکہ 14 مئی کو پہلے مرحلے کے الیکشن میں کوئی بھی امیدوار مطلوبہ پچاس فیصد ووٹ حاصل نہیں کر سکا تھا۔

صدر رجب طیب اردوغان اور حزب اختلاف کے مشترکہ امیدوار کمال قلیچداراوغلو کے درمیان مقابلہ ہوگا جو ملک کی سیاسی تاریخ میں اس طرح کا پہلا مقابلہ ہوگا۔

اس مقابلے میں اردوغان کو بڑے پیمانے پر سبقت حاصل کرنے والے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جو پہلے راؤنڈ میں بہت کم فاصلے سے صدارتی عہدے سے محروم رہے۔

تقریباً پانچ فیصد کی کمی کے ساتھ ساتھ زیادہ تر ریاستی وسائل اور میڈیا آؤٹ لیٹس پر اردوغان کا کنٹرول ہے ایسے میں قلیچداراوغلو کو ایک مشکل یا کڑے مقابلے کا سامنا ہے۔

14 مئی سے، انہوں نے اپنے بیان بازی کا رنگ بدل کر سیاسی صورتِ حال کو تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے، جب انتہائی قوم پرست امیدوار سینان اوگن کو پہلے راؤنڈ میں پانچ فیصد سے زیادہ ووٹ ملے۔

کس کے پاس زیادہ جوش ہے؟

بڑی اقتصادی پریشانیوں اور فروری میں آنے والے تباہ کن زلزلوں کے بعد بھی اردوغان پہلے راؤنڈ میں 49.51 فیصد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہے جب کہ ابتدائی نتائج کے مطابق قلیچداراوغلو کو 44.88 فیصد ووٹ ملے۔

اس نتیجے نے قبل از انتخابات رائے عامہ کے بہت سے جائزوں کی تردید کی، جن میں سے کچھ نے قلیچدار اوغلو کو صدر اردوغان سے آگے دکھایا تھا۔

قلیچداراوغلو کو بڑے پیمانے پر کم پرجوش سمجھا جاتا رہا ہے، حالانکہ وہ اپوزیشن نیشنل الائنس میں چھ جماعتوں کو اکٹھا کر چکے ہیں اور کردوں کے اعلیٰ سیاست دانوں سے بھی تائید حاصل کر چکے ہیں۔

صدارتی ترجمان ابراہیم کالن نے حکومت حامی نیوز چینل اے ہیبر کو بتایا کہ یہ رن آف ’آسان‘ ہو گا اور انہیں نہیں لگتا کہ اردوغان اورقلیچداراوغلو کے درمیان تقریباً 25 لاکھ ووٹوں کا فرق ختم ہو جائے گا۔

تاہم، اردوان نے اپنے حامیوں سے کہا کہ وہ چین سے نہ بیٹھیں اور 28 مئی تک مہم کے کام کو ’اسی عزم کے ساتھ‘ جاری رکھیں۔ پارلیمانی انتخابات میں اردوغان کے حکمران عوامی اتحاد کی جانب سے 600 نشستوں والی مقننہ میں 322 نشستوں پر حاصل کردہ اکثریت ، ووٹروں کی انتخابی ترجیحات کو متاثر کرنے میں کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے۔

اردوان

،تصویر کا ذریعہA HABER

،تصویر کا کیپشن

اردوغان نے اپنے حامیوں پر زور دیا ہے کہ وہ دوسرے راؤنڈ میں مطمئن نہ ہوں

ووٹروں کا ٹرن آؤٹ نتائج کو متاثر کر سکتا ہے

اپوزیشن کی مایوسی نےقلیچداراوغلو کے ووٹروں میں حوصلہ افزائی کی کمی اور ٹرن آؤٹ میں ممکنہ کمی کے بارے میں انتباہات کو بھی جنم دیا ہے۔

قلیچداراوغلو کے حامیوں میں ٹرن آؤٹ میں کسی بھی نمایاں کمی سے اردغان کو ایک جامع رن آف جیت حاصل کرنے کا موقع ملے گا۔ پہلے راؤنڈ میں مجموعی طور پر ٹرن آؤٹ تقریباً 88.9 فیصد رہا۔

ماہر تعلیم برک ایسن نے 19 مئی کو ٹوئٹ کیا،’دوسرے راؤنڈ میں بہت کم وقت باقی ہے، اس لیے مہم کی حکمت عملی کو تبدیل کرنے سے ووٹوں کی شرح پر زیادہ اثر نہیں پڑے گا۔ حکومت اور اپوزیشن کس حد تک اپنے ووٹروں کو پولنگ سٹیشن تک لانے میں کامیاب ہوتی ہیں اس سے الیکشن کے نتائج کا تعین ہوگا۔ اپوزیشن کو ہر بیلٹ باکس پر منظم ہونے کی ضرورت ہے اور اسے اپنے ووٹروں کو تحریک دینے کی ضرورت ہے‘۔

آگے کی حکمتِ عملی کیا ہوگی

اردوغان نے پہلے دور میں حزب اختلاف پر دہشت گرد گروپوں سے روابط کے الزامات لگا کر، حکومت کی فوجی سرمایہ کاری کو تنقید کا نشانہ بنا کر ، اور ایل جی بی ٹی مخالف اور مغرب مخالف بیان بازی کا اعادہ کرتے ہوئے اپنے حامیوں کو جمع کیا ۔

رن آف سے پہلے توقع ہے کہ وہ سیاسی ’استحکام‘ کی اہمیت پر زور دیں گے، ساتھ ہی وہ زلزلوں سے متاثرہ علاقوں کا دورہ بھی کریں گے۔ اس کے برعکس، قلیچداراوغلو نے قوم پرست ووٹروں کو راغب کرنے کے لیے ہجرت اور دہشت گردی پر زیادہ جارحانہ لہجہ اختیار کرتے ہوئے اپنی مہم کو آگے بڑھایا ہے۔

18 مئی کو ایک تقریر میں انہوں نے کہا کہ ’اردوغان، آپ نے ملک کی سرحدوں اور عزت کی حفاظت نہیں کی، آپ جان بوجھ کر ایک کروڑ سے زائد مہاجرین کو اس ملک میں لائے میں اقتدار میں آتے ہی تمام مہاجرین کو گھر بھیج دوں گا‘۔

یہ ان کے 14 مئی سے پہلے کے بیانات کے ساتھ ایک زبردست تضاد کی نشاندہی کرتا ہے، جو کہیں زیادہ جامع تھا اور مہاجرین پر اس میں غیر معمولی زور نہیں تھا ۔

جب کہ انہوں نے ابھی تک کسی بھی امیدوار کی توثیق نہیں کی تھی، انہوں نے بار ہا کہا ہے کہ ان کی ’ریڈ لائنز‘میں پناہ گزینوں کی واپسی، دہشت گرد تنظیموں کے خلاف لڑائی اور ان سیاسی جماعتوں سے دوری شامل ہے بقول انکے جنہیں دہشت گرد گروپوں کی حمایت حاصل ہے‘۔

قلیچ‌داراوغلو

،تصویر کا ذریعہHALK TV

،تصویر کا کیپشن

قلیچ‌داراوغلو نے قوم پرست ووٹوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش میں مہاجر مخالف لہجہ اپنایا ہے

اب آگے کیا ہے؟

اردوغان کی ایک اور انتخابی کامیابی کی صورت میں، وہ نئے صدارتی نظام حکومت کے تحت اپنی دوسری اور آخری پانچ سالہ مدت سنبھالیں گے۔ ان کے بعد کے منصوبے واضح نہیں ہیں اور انہوں نے دو دہائیوں سے زیادہ اقتدار میں رہنے کے بعد عوامی طور پر کسی جانشین کا نام نہیں لیا ہے۔

بہر حال، اردوغان سے توقع کی جائے گی کہ وہ اپنے اختیارات کی مرکزیت کو جاری رکھیں گے، ریاستی اداروں پر اپنی گرفت کو مزید مضبوط کریں گے اور منحرفین کے خلاف کریک ڈاؤن کریں گے۔

ان سے یہ بھی توقع کی جائے گی کہ وہ مغرب کے حوالے سے اپنی جارحانہ خارجہ پالیسی کو جاری رکھیں گے، کیونکہ ترکی روس اور چین کے ساتھ قریبی تعلقات کو آگے بڑھانا چاہتا ہے۔

قلیچداراوغلو کی جیت آئینی غیر یقینی صورتحال پیدا کر سکتی ہے، کیونکہ ان کی صدارت کو عوامی اتحاد کی پارلیمانی اکثریت سے مقابلہ کرنا پڑے گا۔

آزاد نیوز ویب سائٹ ٹی 24 کے صحافی کینسو کیملیبل نے 19 مئی کو لکھا کہ ’اگرقلیچداراوغلو جیت جاتے ہیں، تو ’پارلیمنٹ میں دائیں بازو کی پاپولسٹ اکثریت‘ سے جمہوریت کی جانب کسی بھی قدم میں رکاوٹ ڈالنے کی توقع کی جا سکتی ہے۔

تاہم، انہوں نے متنبہ کیا کہ اگر وہ ہار جاتے ہیں، تو یہ ’ترکی کی نام نہاد جمہوریت سے حقیقی آمریت کی جانب منتقلی کا آغاز ہوگا‘۔

BBCUrdu.com بشکریہ