ترکی افریقہ میں اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے اتنا کوشاں کیوں ہے؟
- بیرل اکمان
- ماہرِ ترک اُمور
صدر اردوغان افریقہ کے دورے میں ٹوگو، لائبیریا اور برکینا فاسو کے رہنماؤں کے ساتھ
ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کا افریقہ کا حالیہ دورہ اس برِاعظم پر اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی ترک کوششوں کا عکاس ہے جس کے لیے سالہا سال کی سفارتی، اقتصادی تعلیمی اور فوجی سرمایہ کاری کا سہارا لیا جا رہا ہے۔
اردوغان نے 17 سے 20 اکتوبر کے دوران انگولا، ٹوگو اور نائیجیریا کا دورہ کیا۔
یہ کووڈ 19 کی عالمی وبا کے آغاز سے اب تک اُن کا ذیلی صحارا کے خطے کا پہلا دورہ ہے۔
جب سے سنہ 2002 میں حکمراں جماعت جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی برسرِاقتدار آئی ہے، تب سے افریقہ اس کی ترجیحات میں شامل رہا ہے یہاں تک کہ اس نے سنہ 2005 میں ‘افریقہ کا سال’ بھی منایا تھا۔
حالیہ برسوں میں افریقہ میں ترک سفارتی مشنز اور حکومت سے ملحقہ سکولوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور مبینہ طور پر تجارتی حجم میں چار گُنا اضافہ ہوا ہے۔
ترکی کی قومی فضائی کمپنی ٹرکش ایئرلائنز نے بھی افریقہ میں اپنے آپریشنز کو وسعت دی ہے۔
اس کے علاوہ متعدد فوجی اور سیکورٹی تعاون کے معاہدے بھی کیے گئے ہیں۔
ترک حکام اور حکومت کے حامی ماہرین ان سرگرمیوں کو اس برِاعظم پر ‘کالونیل’ اور ‘مغرب کی طرف جھکاؤ’ رکھنے والی پالیسیوں کے برعکس قرار دیتے ہیں۔
تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ انقرہ کے یہ اقدامات بین الاقوامی تعاون کے پردے میں ترک قومی مفادات کے حصول کی ‘نو عثمانی’ کوششیں ہیں۔
اردوغان نے بطور وزیرِ اعظم اور بطور صدر افریقہ کے ذیلی صحارا کے خطے میں 20 سے زیادہ ممالک کا دورہ کیا ہے۔
وہ ان میں سے کئی ممالک کا دورہ کرنے والے پہلے ترک رہنما تھے۔
رواں سال جولائی اور ستمبر کے دوران ترکی نے انگولا، گنی، ایتھوپیا اور ڈیموکریٹک رپبلک آف کانگو کے رہنماؤں کو ترکی مدعو کیا اور اس دوران باہمی تعاون کے کئی معاہدوں پر دستخط کیے گئے۔
اس کے علاوہ اردوغان افریقی رہنماؤں کے ساتھ فون پر بھی باقاعدگی سے بات کرتے ہیں۔
حال ہی میں اُنھوں نے 10 اگست کو سینیگال، جیبوتی اور نائیجیریا کے صدور سے گفتگو کی تھی۔
حکومت کے حامی میڈیا ادارے اور تجزیہ کار اس سب میں اردوغان کی قیادت کے کردار پر خاصہ زور دیتے ہیں۔
صدارتی ڈائریکٹر کمیونکیشنز فہرتین آلتون نے 2018 میں حکومت کے حامی تھنک ٹینک سیٹا کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے کہا تھا کہ ‘ہمارے افریقہ کے ساتھ روابط میں ہمارے صدر بہت اہم سرمایہ ہیں۔ وہ افریقہ میں مقبول ترین عالمی رہنما ہیں۔’
اس کے علاوہ حکومت کی حامی نیوز ویب سائٹ سٹار کے کالم نگار سیول نوریوا اسماعیلوف نے بھی 19 اکتوبر کو ‘ترکی کے افریقہ کے بارے میں نقطہ نظر کو (تبدیل)’ کرنے پر اردوغان کی ستائش کی تھی۔
اُنھوں نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل ارکان کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ صدر کا یہ عزم کہ ‘دنیا پانچ سے بڑی ہے درحقیقت خاموش اکثریتی خطوں مثلاً افریقہ کے لیے آواز ہے۔’
صدر اردوغان نے گذشتہ چند برس میں متعدد افریقی ممالک کے دورے کیے ہیں
فوجی تعلقات
عالمی اہمیت حاصل کرنے کے ترک عزائم میں فوجی تعلقات اور سکیورٹی معاہدے اہم ستون ہیں۔ افریقہ میں اس کی سرگرمیوں کی بنیاد بھی یہی ہیں۔
انقرہ نے 2017 میں صومالیہ کے دارالحکومت موغادیشو میں اپنا ‘سب سے بڑا’ غیر ملکی فوجی اڈہ بھی قائم کیا تھا۔
صومالیہ میں ترکی کے سفیر نے ریاستی فنڈنگ سے چلنے والے خبر رساں ادارے انادولو ایجنسی کو 2020 میں بتایا تھا کہ انقرہ ‘صومالی فورسز کے ایک تہائی’ افراد کو تربیت دے گا جن میں سے زیادہ تر اسی فوجی اڈے پر تربیت حاصل کریں گے۔
کئی رپورٹس اس فوجی اڈے کے سٹریٹجک محلِ وقوع کی طرف اشارہ کرتی ہیں اور نجی ٹی وی چینل این ٹی وی نیوز نے اسے ‘بحیرہ احمر کا دروازہ’ قرار دیا تھا۔
حکومت کے حامی اخبار ینی شفق نے کہا کہ ‘صومالیہ میں انقرہ کا فوجی اڈہ قائم کرنا مشرقی بحیرہ روم سے لے کر جزیرہ نُما صومالیہ اور خلیجِ فارس تک اپنی فوجی موجودگی بڑھانے کی خواہش کی اہم مثال ہے۔’
ترکی کے تربیت یافتہ صومالی فوجی شدت پسند گروہ الشباب کے عسکریت پسندوں سے ملک کی طویل لڑائی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
سکیورٹی اور انسدادِ دہشتگردی میں تعاون اردوغان کے مغربی افریقہ کے حالیہ دورے میں ایجنڈے میں سرِفہرست تھا اور اس دورے میں کئی دفاعی معاہدوں پر دستخط ہوئے ہیں۔
ترک صدر نے ٹوگو، لائبیریا اور برکینا فاسو کے رہنماؤں سے مشترکہ یادداشت پر دستخط کیے جس میں ‘دہشتگردی کے خلاف لڑائی کے عزم’ کا اظہار کیا گیا۔
یہ بھی اطلاعات ہیں کہ ترکی اپنے لڑاکا ڈرونز کے لیے نئے خریدار تلاش کر رہا ہے جنھوں نے حالیہ برسوں میں کئی غیر ملکی جنگی میدانوں میں استعمال کے بعد توجہ حاصل کی ہے۔
ایتھیوپیا کے ٹگرے باغیوں کا الزام ہے کہ ترک ساختہ مسلح ڈرونز حال ہی میں وفاقی فوج کی جانب سے اُن کے خلاف نئے حملوں میں استعمال کیے گئے ہیں۔
ناقدین نے سکیورٹی پر مرکوز حکمتِ عملی کے نقصانات سے خبردار کیا ہے۔
جب ترک پارلیمان نے 19 اکتوبر کو اقوامِ متحدہ کے امن مشن کے تحت سینٹرل افریقن رپبلک اور مالی میں ترک فوجیوں کی موجودگی میں توسیع کرنے کے حق میں ووٹ دیا تو کردوں کی حامی اپوزیشن جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے رکنِ پارلیمان ہسیار اوزوئے نے کہا: ‘جہاں فرانس اس خطے میں اپنے فوجیوں کی تعداد نصف کر رہا ہے تو (ترکی) اس خلا کو پُر کرنے کے لیے کچھ ملٹری ایڈوینچرز میں حصہ لے رہا ہے۔’
تعلیم
ترکی کی افریقہ پالیسیوں میں تعلیم کو بھی اہمیت حاصل ہے۔
ترک حکومت سے منسلک دی معارف فاؤنڈیشن نے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے اُن سو سے زیادہ سکولوں کا انتظام سنبھال لیا ہے جو پہلے امریکہ میں مقیم اسلامی مبلّغ فتح اللہ گولن کے زیرِ انتظام تھے۔
گولن اردوغان حکومت کے سابقہ اتحادی تھے مگر اُن کے نیٹ ورک پر الزام ہے کہ اُنھوں نے سنہ 2016 میں حکومتی تختہ الٹنے کی ناکام کوشش کی تھی۔
فتح اللہ گولن اس الزام کی تردید کرتے ہیں۔
حکومت کے حامی انگریزی اخبار ڈیلی صباح کے مطابق 25 افریقی ممالک میں معارف سکولوں میں ساڑھے 17 ہزار سے زیادہ طلبہ زیرِ تعلیم ہیں۔
اردوغان کے حالیہ دورہ افریقہ میں معارف فاؤنڈیشن کے آپریشنز اور ترکی کے گولن مخالف اقدامات بھی ایجنڈے میں سرِفہرست تھے۔
کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ترکی کے ساتھ تعلقات کے لیے ان ملکوں کو کچھ سمجھوتے کرنے پڑ سکتے ہیں۔
واشنگٹن میں قائم سینٹر فار سٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز کے لیے تجزیہ کار آسیہ اقصیٰ لکھتی ہیں کہ اردوغان نے کئی افریقی ممالک پر گولن سے منسلک سکول بند کرنے کے لیے ‘دباؤ’ ڈالا ہے جس کے باعث ‘کئی خاندان اور طلبہ غصے میں ہیں اور ان کے پاس اس دوران تعلیم حاصل کرنے کے لیے سکول نہیں ہیں۔’
اقصیٰ نے ترکی کی افریقہ پالیسیوں کو اثر و رسوخ حاصل کرنے کی ‘نو عثمانی’ کوششیں قرار دیا۔
اُن کے مطابق اردوغان فتح اللہ گولن سے منسلک سکولوں کو اس لیے بند کرنا چاہتے ہیں تاکہ ‘ترکی کے عالمی توسیع پسندانہ عزائم کو ممکنہ خطرات’ کا راستہ روکا جا سکے۔
جیوپولیٹیکل مسابقت
ترکی نے افریقہ میں اپنی سفارتی موجودگی میں اضافہ کیا ہے جہاں دو دہائیوں میں اس کے سفارت خانوں کی تعداد 12 سے 43 ہو گئی ہے۔
انادولو ایجنسی کے مطابق انقرہ کا مزید سات سفارتی مشنز کے قیام کا منصوبہ ہے۔ اس نے اسے ‘ترکی کے افریقہ کے لیے اقدامات میں توسیع’ قرار دیا ہے۔
سینیگال میں ترکی کے سفیر احمد کواس نے کہا کہ ‘افریقہ میں چین کے 52 سفارت خانے ہیں، امریکہ کے 50 اور فرانس کے 47 سفارتی مشنز ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ہم نے گذشتہ 13 برس میں بڑی سفارتی کامیابی حاصل کی ہے۔’
ترک حکام اکثر اوقات خطے کے ممالک کے ساتھ انقرہ اور روایتی عالمی طاقتوں کے تعلقات کا موازنہ کرتے ہوئے اپنے ملک کی ستائش کرتے ہیں۔
ترکی کے وزیرِ خارجہ مولود چاوش اوغلو نے کہا کہ ‘ترکی کو افریقہ میں سب سے بڑا فائدہ یہ حاصل ہے کہ یہ افریقہ کو کسی نوآبادیاتی ملک کی طرح نہیں دیکھتا، بلکہ اسے برابر تصور کرتا ہے۔’
اردوغان نے 18 اکتوبر کو انگولا کی پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ افریقہ کے متعلق مغرب کی اُس حکمتِ عملی کو مسترد کرتے ہیں جو ‘مغرب کے گرد گھومتی ہے۔’
اُنھوں نے کہا: ‘ہم افریقہ کے تمام لوگوں کو کسی تفریق کے بغیر اپنا دوست سمجھتے ہیں اور ان سب کو محبت سے گلے لگاتے ہیں۔’
حکومت کے حامی تجزیہ کار بھی ‘باہمی فوائد’ کے ایسے ہی موضوعات پر بات کرتے ہیں۔
اخبار ڈیلی صباح کے کالم نگار ہلال کپلان نے 20 اکتوبر کو افریقہ میں ترکی کی ‘انسان دوست’ پالیسیوں کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ چین اس برِ اعظم کو قرضوں کے بوجھ سے ‘تھکا’ رہا ہے جبکہ یورپ اس کے وسائل کا ‘استحصال’ کر رہا ہے۔
بیس اکتوبر کو اخبار ترکیے کے صفحہ اوّل پر شہ سرخی تھی کہ ‘کالونیل یورپ اپنی عزت گنوا چکا ہے۔ ترکی اب چین کے ساتھ افریقہ میں مقابلہ کر رہا ہے۔’
ترکی نے اکتوبر میں نائیجیریا سے اردوغان کی واپسی کے بعد ایک افریقی کاروباری فورم کی میزبانی کی اور دسمبر میں یہ ایسا ایک اور فورم منعقد کرنا چاہتا ہے۔
اس فورم سے 22 اکتوبر کو خطاب کرتے ہوئے اردوغان نے تجارت میں تین گنا اضافہ کرتے ہوئے اسے 75 ارب ڈالر تک لے جانے کے ہدف کا اعلان کیا اور تعلقات کو ‘مزید مستحکم’ کرنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے افریقہ کے لیے مزید ویکسینز کا وعدہ بھی کیا۔
بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ خود کو افریقہ میں چین اور مغربی ممالک کا متبادل بنا کر پیش کرنے کی کوششیں جاری رہیں گی۔
Comments are closed.