لندن: کوئن میری یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے اطراف سے انسانوں اور جانوروں کا ڈی این اے کشید کرنے کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔ اس محتاط عمل میں چونکہ اطراف کی ہوا اور ماحول سے ڈی این اے نکالا جاتا ہے، اسے انوائرمینٹل ڈی این اے یا مختصراً ’ای ڈی این اے‘ کا نام دیا گیا ہے۔
یونیورسٹی کی سالماتی ایکولوجسٹ ڈاکٹر ایلزبتھ کلیئر نے کہا ہے اس طرح ہم پانی، مٹی اور دیگر مقامات سے بھی ڈی این اے اخذ کرسکتے ہیں جس کے بہت سے استعمالات بھی ہیں۔ ان کے مطابق کسی بھی تالاب یا دریائی حصے میں ڈی این اے کی آزمائش سے وہاں موجود مچھلیوں کی اقسام معلوم کی جاسکتی ہیں۔
اگرچہ اس سے قبل مٹی اور پانی سے مختلف انواع اور اقسام کے جانوروں کے ڈی این اے نکالے گئے ہیں لیکن ہوا کے لیے ای ڈی این اے کی آزمائش نہیں کی گئی تھی۔ اس ضمن میں کوئن میری یونیورسٹی کی تحقیق دنیا میں اپنی نوعیت کا پہلا کام ہے۔
اس کے لیے انہوں نے ایک قسم کے بے بال والے نابینا چوہوں (نیکڈ مول ریٹس) کو ایک کمرہ نما فارم میں ایک برس تک رکھا تاہم اس میں سائنسدانوں کی آمدورفت جاری رہی تھی۔ یہاں ہوا کے فلٹر بھی لگے تھے جس سے ہوا کے نمونے جمع کیے گئے اور مرکزی کمرے کے اندر سے بھی ہوا کے نمونے حاصل کیے گئے۔ چونکہ یہ چوہے لمبے بلوں میں رہتے ہیں اس لیے ایک بل پر لگائے فلٹر سے بھی ہوا جمع کی گئی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سرنگ نما بل کی ہوا اور خود کمرے کی ہوا میں چوہوں کے ڈی این اے نوٹ کیے گئے اور اس طرح ہوا سے ڈی این اے نکالنے کا پہلا کامیاب تجربہ دنیا میں رپورٹ ہوگیا۔
غیر متوقع طور پر ہوا کے اندر انسانی ڈی این اے بھی دیکھا گیا اور یہ ایک حیرت انگیز امر ہے۔ ماہرین پہلے اسے ایک طرح کی آلودگی قرار دیتے رہے لیکن اصل میں یہ تحقیق کا ایک نیا دور بھی ہے۔
لیکن ذرا سوچیے کہ اگر کسی بند کمرے سے انسانی ڈی این اے نکالا جائے تو جرم اور واقعات کی تحقیق کو ایک نیا رخ مل سکے گا۔ اس طرح ماضی کے راز افشاں کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ اس طرح قدیم ڈی این اے کی شناخت اور دیگر پہلوؤں سے آثارِ قدیمہ اور بشریات کے علم میں بھی مدد ملے گی۔
ڈاکٹر ایلزبتھ اس سے قبل جوہڑ اور تالاب میں ڈی این اے کی نشاندہی اور درجہ بندی پر خاصا کام کرچکی تھیں۔ اسی تجربے نے انہیں ہوا سے ڈی این اے کے اخراج پر مائل کیا۔ اس کے لیے انہوں نے خاص فلٹر بنائے اور ڈی این اے جمع کرنے والا ایک نظام ترتیب دیا۔
Comments are closed.