لیڈی ڈیانا انٹرویو : بی بی سی کا اپنی ایڈیٹوریل پالیسیوں پر ازسر نو غور کرنے کا اعلان
پرنسس آف ویلز لیڈی ڈیانا نے 1995 میں بی بی سی کے صحافی مارٹن بیشیر کو دیئے گئے انٹرویو میں شادی میں مشکلات کا ذکر کیا تھا
بی بی سی بورڈ نے پرنسس آف ویلز لیڈی ڈیانا کے انٹرویو کے حوالے سے لارڈ ڈائسن کی رپورٹ کے بعد اپنے ادارہ جاتی اور نام نہ ظاہر کرتے ہوئے ادارے کے اندرونی نقائص کی نشاندہی کرنے والے طریقہ کار کا از سر نو جائزہ لینے کا اعلان کیا ہے۔
بی بی سی نے اعلان کیا ہے کہ اس بات کا بھی جائزہ لیا جائے گا کہ لیڈی ڈیانا کا انٹرویو حاصل کرنے کے لیے اپنائے گئے طریقہ کار پر سوالات اٹھائے جانے کے باوجود بی بی سی نے مارٹن بشیر کو 2016 میں ایک بار پھر کیسے بھرتی کر لیا تھا۔
بی بی سی نے کہا ہے کہ ادارہ لارڈ ڈائسن کی رپورٹ کو پوری طرح قبول کرتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ لیڈی ڈیانا کا انٹرویو حاصل کرنے کے لیے صحافی مارٹن بشیر نے جس دھوکے اور فریب کا استعمال کیا بی بی سی نے اس کی پردہ پوشی کی تھی۔
یہ بھی پڑھیئے
بی بی سی بورڈ نے ایک بار پھر اپنی معذرت کو دہرایا ہے۔
سنہ 1995 میں مارٹن بشیر کے شہزادی ڈیانا سے کیے گئے انٹرویو پر حال ہی میں ایک انکوائری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انٹرویو کے وقت بی بی سی نے اپنی ‘دیانت داری اور شفافیت کے اعلیٰ میعار کو برقرار نہیں رکھا تھا۔’
انکوائری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مارٹن بشیر نے شہزادی ڈیانا سے انٹرویو کا وقت حاصل کرنے کے لیے ‘دھوکہ دہی’ سے جعلی دستاویزات تیار کیے تھے۔
اس تحقیقاتی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اس معاملے پر 1996 میں بی بی سی کی اپنی اندرونی انکوائری ‘افسوسناک حد تک ناقص اور غیر موثر’ تھی۔
بی بی سی اور مارٹن بشیر دونوں نے اس معاملے پر معذرت کی ہے اور بی بی سی نے شہزادہ ولیم اور شہزادہ ہیری کو بھی معذرتی خط لکھا ہے۔
ڈیوک آف کیمبرج پرنس ولیم نے کہا ہے کہ مارٹن بشیر کی دھوکہ دہی نے ان کی ماں کی ذہنی کیفیت پر منفی اثر ڈالا جس سے ان کے والدین کے تعلقات متاثر ہوئے۔
بی بی سی بورڈ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اسے امید ہے کہ ماضی کی غلطیاں نہیں دہرائی جائیں گی۔
’ہم لارڈ ڈائسن کی رپورٹ میں بیان کی گئی خامیوں کو تہہ دل سے تسلیم کرتے ہیں اور اپنی معافی کا پھر سے اعادہ کرتے ہیں۔‘
بی بی سی بورڈ نے کہا کہ انھیں اس کا احساس ہے کہ ان واقعات نے کتنے افراد کو متاثر کیا اور خاص طور پر ان کو جو ان واقعات سے ذاتی طور پر متاثر ہوئے۔
بی بی سی بورڈ نے کہا کہ ہم بی بی سی کے قارئین کے اس حق کو تسلیم کرتے ہیں کہ بی بی سی کو اس سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا۔
بی بی سی بورڈ نے کہا انھیں اعتماد ہے کہ بی بی سی کی موجودہ گائیڈ لائنز اور ضابطہ اخلاق 1995 سے بہت بہتر ہیں۔
بی بی سی بورڈ نے کہا کہ یہ درست ہے کہ بی بی سی اپنی ایڈیٹوریل پالیسیوں کا جائز لے اور اس بات کا بھی جائزہ لے کہ اس کی گورننس اور گائیڈ لائنز کتنی موثر ہیں۔
پرنسس آف ویلز کا انٹرویو حاصل کرنے کے لیے نامہ نگار مارٹن بشیر کے طریقہ کار کے حوالے سے سوالات اٹھانے جانے کے باوجود بی بی سی نے 2016 میں مارٹن بشیر کو مذہبی نامہ نگار کے طور پر بھرتی کر لیا تھا۔
بی بی سی کا کہنا تھا کہ مارٹن بشیر کو ایک سخت مقابلے کے بعد مذہبی نامہ نگار بھرتی کیا گیا تھا۔
مارٹن بشیر بغیر کوئی معاوضہ لیے بی بی سی سے مستعفی ہو چکے ہیں۔
بی بی سی کے چیئرمین رچرڈ شارپ نے بی بی سی ورلڈ ایٹ ون کو بتایا ’مجھے یہ جان کر پر بہت اطمینان ہے کہ مارٹن بشیر اب بی بی سی کا حصہ نہیں ہیں لیکن اس بات پر اطمینان نہیں کہ مارٹن بشیر کو دوسری بار کیسے ملازمت ملی تھی۔‘
جب بی بی سی کے چیئرمین سے پوچھا گیا کہ مارٹن بشیر کو دوبارہ بی بی سی میں ملازمت دیئے جانے کے بارے میں کیا معلومات ہیں تو ان کا کہنا تھا: ’درحقیقت مجھے اس بارے میں کچھ معلوم نہیں اور یہ ہی کچھ جاننے کی کوشش کی جا رہی ہے اور جوں ہی مجھے اس کے بارے میں کچھ پتہ چلے گا میں بی بی سی بورڈ کو اس بارے میں آگاہ کروں گا۔‘
Comments are closed.