بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

بیساکھیوں پر ایورسٹ بیس کیمپ تک پہنچنے والا شخص

ماؤنٹ ایورسٹ: جیمی مک اینش بیساکھیوں پر بیس کیمپ تک پہنچ گئے

Jamie McAnsh

،تصویر کا ذریعہJamie McAnsh

،تصویر کا کیپشن

جیمی مک اینش نے یہ کارنامہ 11 دن تک بیساکھیوں کے سہارے چلنے کے بعد انجام دیا

برطانیہ کے علاقے ویلز سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے بیساکھیوں کے سہارے ماؤنٹ ایورسٹ کے بیس کیمپ تک پہنچ کر ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ وہ آٹھ سال پہلے مفلوج ہو گئے تھے۔

جیمی میک انش، ویلز کی جنوب مشرقی کاؤنٹی تورفین کے رہائشی ہیں اور وہ کمپلیکس ریجنل پین سنڈروم (سی آر پی ایس) کے مریض ہیں جس کی وجہ سے مسلسل شدید رہتا ہے اور انسان کمزور ہوتا جاتا ہے۔

تاہم جیمی نے 11 دن کے ٹریک کے بعد پانچ ہزار تین سو چونسٹھ میٹر (سترہ ہزار چھ سو فٹ) پر واقع بیس کیمپ تک پہنچ کر اپنا بچپن کا خواب پورا کر لیا۔

انھوں نے کہا کہ ’اس چیلنج میں ایسا اوقات بھی آئے تھے جب مجھے لگا کہ میں ایسا نہیں کر سکوں گا۔‘

جیمی نے بی بی سی ریڈیو ویلز پر پروگرام بریک فاسٹ میں بتایا کہ ’میں بالکل تھک چکا تھا۔ یہ ایک جذباتی وقت تھا۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ وہ ’تھوڑا سا روئے بھی تھے۔‘

’مجھے واقعی اس پر یقین اگلے دن جا کے آیا۔ میں نے ایک چٹان پر بیٹھ کر ایورسٹ اور ہمالیہ کے پہاڑوں کو دیکھا اور یہی وہ لمحہ تھا جب مجھے واقعی احساس ہوا کہ میں نے اپنی پوری زندگی کا خواب پورا کر لیا ہے۔‘

مواد پر جائیں

پوڈکاسٹ
ڈرامہ کوئین
ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

6 جنوری 2014 کو جیمی ’نارمل‘ حالت میں اپنے بستر پر گئے تھے لیکن جب اگلی صبح وہ نیند سے اٹھے تو مفلوج ہو چکے تھے۔ نیند کے دوران ان کی ریڑھ کی ہڈی کمر کے نیچے سے ٹوٹ گئی تھی۔

جیمی میں سی آر پی ایس کی تشخیص ہونے میں مزید 13 مہینے لگے۔ اس بیماری کا کوئی علاج نہیں ہے لیکن اکثر یہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ بہتر ہوتی جاتی ہے۔

یہ بھی پڑھیئے

انھیں چلنا دوبارہ سیکھنا پڑا اور بہت صبر طلب صحت یابی کے بعد وہ تھوڑی بہت حرکت کرنے کے قابل بھی ہوئے۔ لیکن چلنے پھرنے کے لیے انھیں بیساکھیوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔

انھوں نے ایورسٹ کا چیلنج مکمل کرنے کے بعد کہا: ’ٹیم کو جن سب سے مشکل چیزوں میں سے ایک کا خیال رکھنا تھا وہ یہ تھا کہ اپنے پاؤں کہاں رکھنے ہیں، کیونکہ اونچائی کی وجہ سے ہر کام بہت محنت طلب تھا۔۔۔ لیکن مجھے یہ سوچنا بھی پڑتا تھا کہ اپنے پاؤں اور بیساکھیاں کہاں رکھوں، کیونکہ اگر میری بیساکھیاں پھسل گئیں تو یہ ایک تباہی ہوگی، کیونکہ میں گرتے وقت اپنے ہاتھوں کو باہر نہیں نکال سکتا۔‘

Jamie in a wheelchair with a group on a mountain

،تصویر کا ذریعہFamily photo

،تصویر کا کیپشن

جیمی مک اینش نے اس چیلنج کے لیے دو سال ٹریننگ کی

جب جیمی پہاڑ پر مرنے والوں کی یاد میں بنائے گئے میموریل تک پہنچے تو انھوں نے اپنے والد اور بھتیجے کو خراج عقیدت پیش کیا۔ یہ دونوں مر چکے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’پورے سفر میں ان کی یاد میرے ساتھ تھی اور میں نے سوچا کہ یہ ایک اچھی بات ہو گی کہ میں یہیں کہیں پتھروں کے ڈھیر سے ان کے لیے ایک یادگار بناؤں، جس کے متعلق میں اتنے سالوں سے سوچ رہا تھا۔‘

جیمی نے پہلے سے ہی اپنے لیے اگلا چیلنج چن لیا ہے، لیکن اس مرتبہ یہ گھر سے ذرا نزدیک ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’میں ہمیشہ ایورسٹ سے محبت کرتا رہا ہوں، لیکن میں نے ہمیشہ ویلز سے بھی محبت کی ہے، اس لیے 800 میل لمبا ساحلی سفر یقینی طور پر میری فہرست میں شامل ہے۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.