سربرینیکا قتلِ عام: ’بوسنیا کے قصائی‘ راتکو ملادچ کی اپیل مسترد، آخری سانس تک قید رہیں گے
راتکو ملادچ اپنے خلاف فیصلہ سننے کے لیے عدالت میں موجود تھے
اقوامِ متحدہ کی ایک کورٹ نے سنہ 1995 میں آٹھ ہزار کے قریب بوسنیائی مسلمانوں کے قتلِ عام میں ملوث سابق بوسنیائی سرب کمانڈر راتکو ملادچ کی اپنی سزا کے خلاف اپیل مسترد کر دی ہے۔
اُنھیں سنہ 2017 میں نسل کُشی، جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کا مرتکب پایا گیا تھا۔
عدالت نے اُن کی اپیل مسترد کرتے ہوئے اُن کی عمر قید کی سزا برقرار رکھی ہے۔
سربرینیکا کا یہ علاقہ اقوامِ متحدہ کی زیرِ حفاظت ہونا تھا مگر اس کے باوجود یہاں پر سرب فورسز کی جانب سے مسلمانوں کا قتلِ عام ہوا۔
یہ دوسری عالمی جنگ سے لے کر اب تک یورپ میں ہونے والا بدترینِ قتلِ عام ہے۔
یہ اب تک واضح نہیں ہو سکا ہے کہ ملادچ اپنی باقی قید کہاں گزاریں گے۔
پانچ افراد پر مشتمل اپیلز پینل نے پایا کہ ملادچ اپنی سزاؤں کی منسوخی کے خلاف کوئی ثبوت فراہم نہیں کر سکے تاہم پینل کے صدر نے تمام نکات پر اختلافی نوٹ لکھا ہے۔
تاہم اپیلز چیمبر نے استغاثہ کی اپیل کو بھی مسترد کر دیا ہے جس میں ملادچ پر بوسنیائی مسلمانوں اور بوسنیائی کروئٹ افراد کے خلاف دیگر علاقوں میں جرائم پر ایک اور سزا کی درخواست کی گئی تھی۔
راتکو ملادچ (مرکز میں) سنہ 1993 میں سراییوو پہنچے۔ وہ اس فورس کے کمانڈر تھے جس نے قتلِ عام کیا
یہ فیصلہ تکنیکی مشکلات کے باعث تاخیر کا شکار ہوا جو پورے سیشن کے دوران جاری رہیں۔
ملادچ نے اگست میں اپنی اپیل کی سماعت کے دوران ٹریبونل کی مذمت کرتے ہوئے اسے مغربی قوتوں کی پیداوار قرار دیا تھا۔ اُن کے وکلا نے دلیل دی کہ وہ قتلِ عام کے وقت سربرینیکا سے دور تھے۔
‘بوسنیا کا قصائی’ کہلائے جانے والے ملادچ سابقہ یوگوسلاویہ میں اقوامِ متحدہ کے بین الاقوامی جرائم کے ٹریبونل میں ٹرائل کا سامنا کرنے والے آخری ملزمان میں سے تھے۔ اُنھیں 16 سال تک مفرور رہنے کے بعد سنہ 2011 میں گرفتار کیا گیا تھا۔
سنہ 2017 میں اُنھیں سربرینیکا میں نسل کشی کا مرتکب پایا گیا مگر سنہ 1992 میں اپنی فوج کے ہاتھوں ایک اور نسل کشی کے الزام سے بری کر دیا گیا تھا۔ اس مہم میں بوسنیائی کروئٹ اور بوسنیائی افراد کو اُن کے گھروں سے نکالا گیا اور بدترین حالات میں قید میں رکھا گیا تھا۔
سنہ 2016 میں اسی عدالت نے سابق بوسنیائی سرب رہنما رادووان کرادچ کو دیگر جرائم کے ساتھ ساتھ سربرینیکا قتلِ عام کی منصوبہ بندی کا مرتکب پایا تھا۔
اُنھیں ابتدا میں نسل کشی اور جنگی جرائم پر 40 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی تاہم اسے سنہ 2019 میں تاحیات قید میں بدل دیا گیا تھا جو وہ اب برطانیہ میں کاٹیں گے۔
رادووان کرادچ (دائیں) اور راتکو ملادچ (بائیں) سنہ 1995 میں
اس پر ردِ عمل کیا رہا ہے؟
اس قتلِ عام میں بچ جانے والے سیمسو عثمانووچ کے خاندان کے 23 افراد قتل ہوئے تھے۔ اُنھوں نے بی بی سی کے گائے ڈی لونی کو بتایا کہ فیصلے کا مطلب ہے کہ وہ اب بالآخر اپنے آبائی شہر لوٹ سکتے ہیں۔
‘میں پوری زندگی اس لمحے کے لیے جیتا رہا، تاکہ میں بین الاقوامی عدالت سے انصاف دیکھ سکوں۔ مجھے امید تھی کہ میں اپنی بیوی اور بچوں کو سربرینیکا لا سکوں گا۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں میں پیدا ہوا تھا۔’
یہ بھی پڑھیے
سہیدا عبدالرحمانووچ کے شوہر سربرینکا میں قتل ہوئے تھے۔ اُنھوں نے یہ فیصلہ پوٹوکاری میں ایک یادگاری مرکز میں دیکھا۔
اُنھوں نے بی بی سی نیوز سربیئن کو بتایا: ‘وہ مائیں جو اب بمشکل دیکھ یا سُن سکتی ہیں، وہ جو بیمار ہیں اور بمشکل ہی چل سکتی ہیں، وہ بھی یہ فیصلہ دیکھنے آئیں۔ یہ سب کچھ اب بھی ذہنوں میں تازہ ہے، جیسے کل کی بات ہو۔’
‘یہ بہت اہم بات ہے کہ اُنھیں تاحیات قید سنائی گئی اور سربرینیکا میں نسل کُشی کے الزام کو برقرار رکھا گیا۔’
آج بھی بوسنیا میں کئی مقامات پر کھدائی کے دوران اجتماعی قبریں مل جاتی ہیں
‘سراییوو میں ایک بوسنیائی اخبار نے اس فیصلے پر اپنی آن لائن کوریج کی سرخی لگائی: ‘قصائی کے آنسو دیکھیں جب اسے احساس ہوا کہ وہ سلاخوں کے پیچھے ہی ہلاک ہوگا۔’
مگر ملادچ کے حامیوں کا ردِعمل کافی مختلف تھا۔
سابق جنرل کے بیٹے ڈارکو ملاڈچ نے کہا کہ اُن کے والد کو ‘شفاف ٹرائل کا حق نہیں دیا گیا۔’ اُنھوں نے ان سماعتوں کو ایک ‘چلتی پھرتی سرکس’ قرار دیا۔
بوسنیائی سرب علاقے کے موجودہ صدر زیلجکا ویجانووچ نے کہا کہ ٹریبونل نے ایک مرتبہ پھر ‘خود کو سرب مخالف عدالت ثابت کر دیا ہے جو جنگی جرائم کی ذمہ داری ثبوتوں کو دیکھتے ہوئے نہیں بلکہ ملزم کی نسل کو دیکھتے ہوئے عائد کرتا ہے۔’
انصاف کے لیے طویل انتظار
تجزیہ: اینا ہولیگن
نامہ نگار، دی ہیگ
جب میں منیرہ سوباسچ سے ملنے سربرینیکا کے قتلِ عام والے مقام سے کچھ ہی دور اُن کے گھر پر تھی، تو اُنھوں نے کہا تھا کہ ‘اُس کے ہاتھ خون سے رنگے ہیں۔’
راٹکو ملاڈچ ایک سیاسی منصوبے کے نفاذ کے ذمہ دار تھے۔ اعلیٰ ترین سطح پر بنایا گیا منصوبہ یہ تھا کہ بوسنیائی مسلمانوں کی آبادی کے چند حصوں کو ختم کر دیا جائے۔
یہ نسلی صفایا جب شروع ہوا تو پڑوسی کو پڑوسی کے خلاف کر دیا گیا۔ پھر بالآخر پوٹوکاری میں اقوامِ متحدہ کے محفوظ قرار دیے گئے اڈے پر راتکو ملادچ کے آدمی چڑھ دوڑے۔
اقوامِ متحدہ نے سرب فوجوں سے بوسنیائی لوگوں کو بچانے کی کوشش کی مگر وہ ناکام رہی
یہیں پر منیرہ کے 17 سالہ بیٹے کو اُن کے بازوؤں سے چھین کر ہلاک کر دیا گیا جب اُن کا بیٹا اُنھیں تسلی دے رہا تھا کہ سب ٹھیک ہوجائے گا۔
منیرہ کے خاندان کے 22 افراد اس قتلِ عام میں ہلاک ہوئے۔
راتکو ملادچ نے 16 سال مفرور رہ کر گزارے۔ کئی لوگوں کو خدشہ تھا کہ وہ اپنے خلاف حتمی قانونی فیصلہ نہیں دیکھ پائیں گے۔
منیرہ اس لمحے کو دیکھنے کے لیے دی ہیگ آئیں تاکہ اُنھیں سکون مل سکے۔
استغاثہ کو امید ہے کہ اس ٹرائل سے خطے سمیت دنیا بھر میں یہ پیغام جائے گا کہ انصاف میں تاخیر انصاف کا قتل نہیں ہے۔
اپیل کے دوران کیا ہوا؟
اگست میں سماعت کو ملادچ کی صحت اور کورونا وائرس کی پابندیوں کے باعث ملتوی کر دیا گیا تھا۔
وہ کارروائی کے دوران اپنے مؤقف پر قائم رہے اور عدالت اور استغاثہ پر حملے کرتے رہے۔
سربرینیکا کے بارے میں بات کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ اُنھوں نے بوسنیائی مسلم فوج کے ساتھ معاہدہ کیا تھا کہ سربرینیکا اور محفوظ قرار دیے گئے دوسرے علاقوں سے دور رہا جائے گا۔ اُنھوں نے کہا کہ وہ ایسے کسی علاقے کی خلاف ورزی کے لیے تنِ تنہا ذمہ دار نہیں ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
مگر استغاثہ کی وکیل لاریل بیگ نے کہا کہ ملادچ کو ‘بیسویں صدی کے بدترین جرائم’ میں سے ایک کا مرتکب پایا گیا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ ‘ملادچ سربرینیکا کے آپریشن کے انچارج تھے۔ اُنھوں نے اپنی کمانڈ میں موجود فورسز کے ذریعے ہزاروں مردوں اور لڑکوں کو قتل کیا۔’
وکیلِ دفاع دراگان آئیویٹچ نے اپنے مؤکل کے کردار سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ‘مسٹر ملادچ ولن نہیں ہیں۔ وہ اقوامِ متحدہ کو انسانی سطح پر سربرینیکا میں وہ کام کرنے کے لیے مدد دیتے رہے جو وہ نہیں کر سکی۔’
گذشتہ سال اس سانحے کی 25 ویں سالانہ یادگار منائی گئی
نسل کشی کیسے ہوئی؟
سنہ 1991 سے 1999 کے درمیان یوگوسلاویہ کی سوشلسٹ ریاست انتہائی پرتشدد انداز میں ٹوٹ کر مختلف حصوں میں بٹ گئی۔ اس سے سربیا، مونٹینیگرو، بوسنیا اینڈ ہرزیگوینا، کروئشیا، مقدونیہ اور سلووینیا نے جنم لیا۔
تمام تنازعات میں سب سے زیادہ خونی جنگ بوسنیا کی تھی کیونکہ یہ نسلی اور مذہبی اعتبار سے سب سے زیادہ منقسم معاشرہ تھا۔
یوگوسلاو فوجی دستوں نے کروئشیا سے نکل کر اپنا نام بوسنیئن سرب آرمی رکھ لیا، اور بوسنیا میں سرب اکثریتی علاقہ قائم کر لیا۔
نسلی صفائے کے دوران 10 لاکھ کے قریب بوسنیائی اور کروئٹ افراد کو اُن کے گھر سے نکالا گیا اور سرب بھی اس میں متاثر ہوئے۔ جب تک 1995 میں جنگ ختم ہوئی، تب تک کم از کم ایک لاکھ افراد ہلاک ہو چکے تھے۔
سنہ 1995 میں جنگ کے خاتمے کے بعد ملادچ مفرور ہوگئے اور سربیا میں ہی گمنام زندگی گزارتے رہے جہاں اُن کا خاندان اور سیکیورٹی فورسز کے چند عناصر اُن کی حفاظت کرتے رہے۔
بالآخر سنہ 2011 میں شمالی سربیا کے ایک دیہی علاقے میں اُن کی موجودگی کا پتہ لگایا گیا جہاں سے اُنھیں گرفتار کیا گیا۔
Comments are closed.