سعودی عرب: مسجد الحرام میں بن لادن کرین حادثے کے کئی سال بعد پاکستانی مزدوروں کو واجبات کی ادائیگی کیسے ممکن ہوگی؟
- حمیرا کنول
- بی بی سی اردو ڈاٹ کام آسلام آباد
گیارہ ستمبر 2015 کو یہ ایک جمعے کی شام تھی۔ سعودی عرب میں مسلمانوں کے عظیم مذہبی اجتماع حج میں کچھ ہی روز رہ گئے تھے۔ مکہ میں مسجد الحرام کے اندر خانہ کعبہ اور اس کے گرد و نواح میں زائرین کی بہت بھیڑ تھی۔
اس روز مکہ میں غیر معمولی طور پر بہت تیز بارش ہوئی اور تند و تیز ہوا چلنے لگی۔ اربوں ڈالر کے عوض حرم کی توسیع میں مصروف تعمیراتی کمپنی بِن لادن کا کام معمول کے مطابق جاری تھا۔
مسجد الحرام کے کلاک ٹاور پر پانچ بج کر 23 منٹ ہوئے تو بادل گرجنے جیسی آواز آئی اور کچھ دیر میں معلوم ہوا کہ کمپنی کی ایک کرین ہوا میں لہرانے کے بعد نیچے گِر گئی ہے۔
وہ کرین مسجد الحرام کے احاطے میں صفہ مروہ کے اس حصے میں نصب تھی جو چھوٹی کرینوں کی سپلائی کو بحال رکھتی تھی اور حرمِ مکہ کے نصف حصے پر پھیلی ہوتی تھی۔
اس حادثے میں لاتعداد زائرین زخمی ہوئے اور 100 سے زیادہ جانوں کا نقصان ہوا۔ حادثے کے بعد کمپنی کا کام روک دیا گیا اور اس کے خلاف تحقیقات بھی ہوئیں اور پھر نتیجہ بھی سامنے آیا۔
لیکن ایک اور مسئلہ کمپنی کے ’دیوالیہ‘ ہو جانے کا تھا جس سے پاکستان سمیت کئی ملکوں سے آئے مزدوروں کی تنخواہیں واجب الا ادا ہوگئیں۔
بن لادن کمپنی سعودی عرب ہی نہیں دنیا کی چند بڑی تعمیراتی کمپنیوں میں شمار ہوتی ہے جس سے لاکھوں افراد کا کاروبار وابستہ تھا لیکن کمپنی نے حالات کو دیکھتے ہوئے اپنے 50 ہزار ملازمین کو فارغ کرنے کا اعلان کیا۔
مسلسل احتجاج اور شور شرابہ بھی ان کی کئی ماہ کی تنخواہیں دلوانے میں ناکام رہا۔ اسے 2016 کے معاشی بحران اور بہت سی کمپنیوں کے ڈیفالٹ کرنے سے نتھی کیا گیا۔
اس میں مختلف ممالک کے لیبر طبقے کے علاوہ پاکستانیوں کی بھی بڑی تعداد شامل تھی جن میں سے بیشتر آج بھی اپنے بقایا جات کے منتظر ہیں۔
’پاکستانی اپنے بقایا جات کے لیے رابطہ کریں‘
سنہ 2020 میں پاکستانی مزدوروں کے لیے بن لادن کے بقایا جات کی خبر کے ایک سال بعد اب ایک بار پھر سعودی عرب میں پاکستانی سفارتخانے نے اپنے ایک پیغام میں اعلان کیا کہ بن لادن کمپنی نے 342 پاکستانیوں کے واجب الادا بقایا جات سفارت خانہ پاکستان کو فراہم کر دیے ہیں۔
پیغام میں کہا گیا ہے کہ ’ایسے افراد جن کے بقایا جات بن لادن کمپنی کے ذمے باقی ہیں یا تا حال زیر التوا ہیں، براہ مہربانی سفارت خانہ پاکستان ریاض سے رابطہ کریں۔ شکریہ۔’
بی بی سی کو سعودی عرب میں موجود پاکستانی حکام کی جانب سے یہ تصدیق کی گئی کہ ’گذشتہ دو ماہ میں سفارتخانے کو بن لادن کی جانب سے 342 افراد کے بقایا جات موصول ہوئے ہیں۔
’سفارتخانے نے کافی محنت کے بعد 140 افراد کے نمبرز معلوم کیے جبکہ باقی کے پتے ابھی تک معلوم نہیں ہو سکے۔‘
پاکستانی کمیونٹی کے امور سے منسلک ایک ذمہ دار اہلکار نے بتایا کہ باقی افراد کی تلاش کے لیے کوششیں جاری ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اسی لیے ٹوئٹر پر پیغام دیا ہے۔ واٹس ایپ بھی ہے اور ہیلپ لائن بھی موجود ہے۔‘
حکومتی اہلکار کا کہنا تھا ’یہ بقایا جات فقط بن لادن کمپنی کی جانب سے ہیں جبکہ دوسری کمپنیوں کے ساتھ ہم اپنے ورکرز کے بقایا جات کے لیے بات چیت کر رہے ہیں۔‘
واقعے کے بعد کمپنی پر کیس چلا اور نتیجے میں ذمہ دار کرین کے ڈرائیور کو قرار دیا گیا جس نے کرین کو محفوظ انداز میں ضابطے کے مطابق کھڑا نہیں کیا تھا۔
مزید پڑھیے
ان ہزاروں لوگوں میں سے تمام کو بقایا جات نہیں مل پائے۔ کچھ نے کیسز کیے اور کچھ پھر تھک ہار کر کسی اور کو اپنے کیس کی ذمہ داری سونپ کر ملک لوٹ گئے۔
ٹوئٹر پر پاکستانی سفارتخانے کے پیغام پر ماریہ خان کہتی ہیں کہ ’(پاکستانیوں کے) واجب الادا تو ہزاروں میں ہیں۔ اب سب بے چارے پریشان ہوں گے کہ کیا وہ شامل ہیں یا نہیں۔۔۔ اس سے بہتر تھا کہ جن کے نام ہیں وہی نام شیئر کرتے۔‘
راولپنڈی کے عمران کہتے ہیں کہ ’جو بھی کمپنی نے دیا وہ لے کر واپس آ گئے‘ کیونکہ ان کے پاس ’ایک اور نوکری لینے کے لیے پیسے نہیں تھے۔‘
کچھ نے مری کے رہائشی عقیل اعوان کی مانند اپنی کئی ماہ کی تنخواہ اور ٹکٹ کے پیسے قربان کیے اور آزاد ویزا حاصل کیا۔
عقیل یاد کرتے ہیں کہ ’جو قانون ہے وہ خارجیوں کے لیے ہے۔ جب ہم کام کرتے ہیں تو تین، تین مہینے حساب کے لیے بیٹھنا پڑتا ہے۔ کیمپ (جہاں مزدوروں کا رکھا جاتا ہے) کے گیٹ کے باہر گاڑی کھڑی ہوتی تھی۔
’ان کو پتا ہوتا ہے کہ اس کیمپ میں اگر 100 لوگ ہیں تو 800 کے پاس اقامہ نہیں ہوگا۔ آپ باہر جائیں گے تو پکڑ کر پوچھیں گے۔ اور پھر جیل سے سیدھے پاکستان۔‘
بن لادن کمپنی کے کیمپ میں ہزاروں مزدور رہتے ہیں جہاں اندر جانے کے لیے کارڈ لازم ہوتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’کمپنی کے گیٹ کے باہر گھات لگائے شرطے (پولیس اہلکار) باہر نکلنے والے ہر بندے کا اقامہ مانگتے جب نہ ملتا تو براستہ جیل ان لوگوں کو پاکستان پہنچا دیا جاتا تھا۔‘
ان کے مطابق جو کمپنی چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں یا پاکستان جانا چاہتے ہیں تو سب کو کہا جاتا کہ ’پیسے ملیں گے۔ لیکن کیمپ میں مہینوں انتظار کرنا ہو گا۔ اگر اقامہ کی تجدید نہیں ہو سکی تو اس کے لیے بھی دو مہینے تک لائنوں میں رہنا پڑتا تھا۔‘
متاثرہ پاکستانیوں کی تعداد کتنی تھی؟
حکام یہ بتانے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں۔
نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر پاکستانی کمیونٹی کے افسر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہمارے پاس سنہ 2018 کے بعد کے ڈیجیٹل اعداد و شمار ہیں اور یہ واقعہ 2015 کا ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ اس وقت کتنے لوگ بن لادن میں کام کر رہے تھے۔‘
اب برسوں بعد واجبات کی ادائیگی کے لیے سفارتخانے کی خبر پڑھ کر مدثر طارق نے ٹویٹر پر لکھا ہے کہ ’میری بھی تین سیلریز باقی ہیں۔ میں اب پاکستان سے نیا ویزہ لے کر قطر آ گیا ہوں۔ پلیز میری بھی کچھ رہنمائی فرمائیں تاکہ میں اپنی اُجرت حاصل کر سکوں۔’
واجبات کی ادائیگی کا طریقہ کار کیا ہوگا؟
سعودی عرب میں پاکستانی کمیونٹی ویلفیئر کے امور سے منسلک ایک اہلکار نے بتایا کہ ابھی اور بھی بہت سے پاکستانی ورکرز کی لسٹیں موصول ہونے کی توقع ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’سفارتخانے کو گاہے بگاہے لسٹیں مل رہی ہیں اور یہ تعداد بڑھ رہی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نادرا اور پاکستان میں وزارت برائے اوورسیز اینڈ ہیومن ریسورس مینجمنٹ سمیت تمام متعلقہ اداروں سے رابطے میں ہیں۔‘
متعلقہ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ 342 افراد کے بقایا جات کی یہ رقم پاکستانی سفارتخانے کے پاس آ چکی ہے اور عموماً واجبات براہ راست متعلقہ شخص کے اکاؤنٹ میں ہی جاتے ہیں۔ تاہم کئی سال پرانے ان کیسز کا ریکارڈ نہ ہونے کی وجہ سے پاکستانی سفارتخانہ رقوم کی منتقلی میں مدد فراہم کر رہا ہے۔
انھوں نے بتایا گیا ہے کہ اس ضمن میں دو طریقے اختیار کیے جا سکتے ہیں۔ ’پاکستان میں موجود متاثرین اوور سیز پاکستانیز فاؤنڈیشن (او پی ایف) یا پھر سفارتخانے سے براہ راست رابطہ کرسکتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں انھیں سفارتخانہ بقایا جات کا چیک بھجوا دے گا۔‘
اہلکار کا کہنا تھا کہ ’یہ متاثرین متعلقہ علاقے کے ڈپٹی کمشنر سے بھی چیک حاصل کر سکتے ہیں۔ اب دونوں میں سے کیا طریقہ کار اپنایا جائے گا یہ ابھی دیکھا جائے گا۔‘
یہ بھی پڑھیے
یہ بھی بتایا گیا کہ ڈائریکٹر او پی ایف ان پاکستانیوں کا کیس دیکھتے ہیں جو پاکستان آ جاتے ہیں ورنہ وہاں رہ جانے والے تو اپنی متعلقہ کمپنی سے خود بھی رابطہ کر سکتے ہیں۔ اگرچہ سعودی عرب میں موجود پاکستانی کمیونٹی کے امور سے منسلک اہلکار کہتے ہیں کہ پاکستانیوں کے واجبات کے حوالے سے فہرستیں پاکستان کے مختلف اداروں سے شیئر کر دی گئی ہیں لیکن اس بارے میں سوال کرنے پر ہمیں او پی ایف کی جانب سے بتایا گیا تھا کہ ابھی انھیں کوئی فہرست فراہم نہیں کی گئی ہے۔ ’جیسے ہی فہرستیں ملیں گی طریقہ کار واضح ہوگا تب ہی بات کی جا سکے گی۔‘
خیال رہے کہ او پی ایف پاکستان میں موجود ورکز کی کاغذات اور ضروری دستاویزات کے ذریعے تصدیق کا عمل بھی کرے گا جس کے بعد انھیں چیک فراہم کیے جانا ممکن ہوگا۔
پاکستانی پھر سے بن لادن میں نوکری کرنے پر مجبور کیوں؟
بن لادن کمپنی کے پاس اب بھی حرمِ مکی اور حرمِ مدنی کی توسیع کا منصوبہ ہے۔
اگرچہ کمپنی معاشی طور غیر مستحکم ہے اور اپنے اثاثے بیچنے پر مجبور رہی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ حرم کی توسیع کا وسیع تجربہ اسی کمپنی کے پاس ہے۔
اس منصوبے میں اس کے مقابلے میں کسی کمپنی کو لانے کا خیال بھی مشکل ہوتا ہے۔ یہاں پہلی، دوسری اور تیسری بار توسیع اسی کمپنی نے کی تھی اور اس کے پاس آج بھی تجربہ کار لوگ موجود ہیں۔
یہ کمپنی اب بھی مینٹیننس کے پراجیکٹ پر کام کر رہی ہے۔
کمپنی کے خلاف بہت سے پاکستانیوں اور دیگر ملکوں کے مزدوروں نے کیس کیے۔ کچھ کو کامیابی بھی ملی لیکن ایسے بھی ہیں جنھیں پیسے نہیں مل پائے۔
لیکن بہت سے دوبارہ سے بِن لان میں کام کر رہے ہیں۔
عبید ( فرضی نام) پچھلے دس سال سے بن لادن سے منسلک ہیں۔ وہ سٹیل فکسر ہیں اور جس روز کرین کا حادثہ پیش آیا وہ حرم کی حدود میں ہی موجود تھے۔
انھوں نے مجھے بتایا کہ ابھی بھی پچھلے چار ماہ کی تنخواہ رُکی ہوئی ہے۔
میں نے ان سے پوچھا ’تو پھر بھی آپ یہاں کام کیوں کر رہے ہیں؟‘
ان کا جواب تھا ’ابھی چار مہینے کی تنخواہ کیا بتائیں اور کیسے بتائیں۔ اگر اچھے حالات ہوتے تو بہن ہم کبھی باہر ملک نہ آتے۔ ہمیں کمپنی نے ایک سال بٹھا کر تنخواہ دی لیکن کیا پاکستان میں ایسا ہو سکتا ہے؟‘
وہ کہنے لگے ’جس نے بولا بن لادن ڈوب گیا اب پاکستان کے حالات دیکھنے کے بعد وہ کم تنخواہ میں بن لادن میں واپس آگئے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’تنخواہ میں تاخیر ہو جاتی ہے مگر شدید گرمی میں ڈیوٹی میں سختی نہیں ہوتی۔ دن بارہ بجے کے بعد سٹیل کے کام کی جازت نہیں ہے۔ نہ ہی نجار یا شٹرنگ کی اجازت ہے۔‘
’ادھرقانون بھی ہے۔ شاید کچھ مل جائے، تین مہینے سیلری نہیں بھی ملتی لیکن پاکستان میں دیہاڑی کتنی ہے۔ اس سے کیسے گزارہ ہو آپ ہی بتائیے۔‘
ریاض میں پاکستانی سفارتخانہ
آزاد ویزہ ملنے کے بعد بھی مستحکم کام نہ ملنے پر پاکستان واپس آنے والے عقیل نے بتایا کہ ’ہم پاکستانیوں کی عزت ہی نہیں تھی۔ (ہمیں) اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا تھا۔
’سب سے مضبوط سفارتخانہ فلپائن کا ہے۔ وہاں ان کے لوگوں کو بہت عزت دی جاتی تھی۔ سب سے گرے ہوئے پاکستانی اور بنگلہ دیش کے لوگ تھے۔ پاکستانی سفارخانے کے باہر بھی جاتے تو کوئی ان سنتا ہی نہیں تھا۔‘
وہ کہنے لگے ’جب نوکریاں جانے کے بعد ہم کیمپ میں اپنی تنخواہوں اور بقایا جات کے منتظر تھے تو جب رمضان آیا تو دوسرے ملکوں کے سفارتخانے اپنے لوگوں کو امداد دیتے تھے۔ لیکن ہمارے لیے ایسا کبھی نہیں ہو سکا۔‘
25 لاکھ سے زیادہ پاکستانیوں کے لیے فقط دو مندوب
عرصہ دراز سے سعودی عرب میں مقیم ایک پاکستانی صحافی نے مجھے بتایا کہ ’یہ درست ہے کہ سفارتخانے کی جانب سے کیس فری ہوتا ہے۔ پاکستانی سفارتحانہ اپنا ایک مندوب ان کے ساتھ اٹیچ کرتا ہے جو ان کے ترجمان کا کردار ادا کرتا ہے۔
’لیکن آپ بتائیے کہ 25 لاکھ سے زیادہ پاکستانیوں کے لیے دو مندوب کیا کافی ہیں؟ جبکہ کیسز کی تعداد ان گنت ہوتی ہے۔ ‘
نام ظاہر کیے بغیر وہ کہتے ہیں کہ سعودی عرب کے صنعتی شہر دمام کا رُخ کریں تو وہاں تو سینکڑوں پاکستانی اوجر کمپنی کے بھی ہیں اور بن لادن کے بھی۔
انھوں نے بتایا کہ ’کچھ عرصہ پہلے تک ریاض میں بن لادن کے ملازمین کی شکایات کے اندراج کے لیے موجود دفتر کے باہر پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہوتی تھی۔ لیکن اب ایسا نہیں ہے اور یوں لگتا ہے کہ وہ تھک ہار کر وہاں جانا چھوڑ چکے ہیں یا ملک واپس لوٹ گئے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’سابق سفیر راجہ علی کے دور میں وزیراعظم عمران خان نے کھلی کچہری کا کہا تو میں بلامبالغہ کہہ سکتا ہوں کہ وہاں موجود نوے فیصد لوگ وہی تھے جن کو بقایا جات کی وصولی کی درخواست کرنا تھی۔’
Comments are closed.