برکس گروپ کیا ہے اور روسی صدر کو اس کے اجلاس میں شامل ہونے پر گرفتاری کا ڈر کیوں ہے؟
یہ سنہ 2015 میں روس میں ہونے والے برکس اجلاس میں صدر ولادیمیر پوتن کی تصویر ہے، اس مرتبہ یہ اجلاس جنوبی افریقہ میں منعقد ہو گا
برکس اتحاد میں شامل رہنما 22 اگست کو جوہانسبرگ میں ملاقات کرنے جا رہے ہیں۔
’برکس گروپ آف نیشنز‘ میں برازیل، روس، انڈیا، چین اور جنوبی افریقہ شامل ہیں، جو اب اس مسئلے پر بھی غور کریں گے کہ آیا نئے ممبران کو اس اتحاد کا حصہ بنایا جائے۔
اس سمٹ کے میزبان ملک جنوبی افریقہ نے کہا ہے کہ اب 40 یا اس سے زیادہ ممالک گروپ میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔
برکس گروپ کا قیام کس طرح عمل میں لایا گیا؟
سنہ 2001 میں سرمایہ کاری بینک گولڈ مین سیکس کے ایک ماہرِ اقتصادیات جم او نیل نے برازیل، روس، انڈیا اور چین کے لیے ’برک‘ کا مخفف بنایا۔
یہ بڑے مگر درمیانی آمدنی والے ممالک تھے جن کی معیشتیں اس وقت تیزی سے ترقی کر رہی تھیں۔ انھوں نے پیشگوئی کی کہ وہ سنہ 2050 تک دنیا کی صف اول کی معیشتیں بن سکتی ہیں۔
سنہ 2006 میں چاروں ممالک نے برک گروپ کے طور پر ایک ساتھ شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔ جنوبی افریقہ سنہ 2010 میں اس اتحاد کا حصہ بنا، جس سے یہ گروپ ’برکس‘ بن گیا۔
یہ گروپ کتنی اہمیت کا حامل ہے؟
برکس ممالک کی مجموعی آبادی 3.24 ارب ہے اور ان کی مشترکہ قومی آمدنی 26 ٹرلین ڈالر ہے۔
یہ عالمی معیشت کا 26 فیصد ہے۔ تاہم ایک امریکی تھنک ٹینک اٹلانٹک کونسل کے مطابق برکس ممالک کے پاس اقوام متحدہ کے مرکزی مالیاتی ادارے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) میں ووٹنگ کے حقوق کا صرف 15 فیصد ہے۔
برکس گروپ کے قیام کا مقصد کیا ہے؟
برکس کو بین الاقوامی مالیاتی اداروں جیسا کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک میں اصلاحات کے طریقے تلاش کرنے کے لیے بنایا گیا تھا تاکہ ابھرتی ہوئی معیشتوں کے لیے ایک ’توانا آواز اور نمائندگی‘ کو یقینی بنایا جا سکے۔
سنہ 2014 میں برکس ممالک نے 250 ارب ڈالر کے فنڈز کے ساتھ نیو ڈیولپمنٹ بینک (این بی ڈی) قائم کیا تاکہ ابھرتی ہوئی اقوام کو ترقی کے لیے قرض دیا جا سکے۔ جو ممالک اس گروپ کا حصہ نہیں ہیں جیسے مصر اور متحدہ عرب امارات نے این بی ڈی میں شمولیت اختیار کی ہے۔
کیا برکس ممالک مشترکہ کرنسی بنائیں گے؟
برازیل اور روس کے سرکردہ سیاست دانوں نے حال ہی میں بین الاقوامی تجارت اور مالیات میں امریکی ڈالر کے غلبے کو چیلنج کرنے کے لیے برکس بلاک کے لیے ایک کرنسی بنانے کی تجویز دی ہے۔
تاہم برکس اور ایشیا کے لیے جنوبی افریقہ کے سفیر انیل سوکلال نے کہا ہے کہ یہ جوہانسبرگ سربراہی اجلاس کے ایجنڈے میں شامل نہیں ہے۔
گولڈمین سیکس کے جم او نیل، جنھوں نے سب سے پہلے ’برک‘ کا خیال پیش کیا تھا نے برطانیہ کے فنانشل ٹائمز اخبار کو بتایا کہ مشترکہ کرنسی کا خیال ’مضحکہ خیز‘ ہے۔
برکس ممالک میں کیا چیز مشترک ہے اور تقسیم کا سبب بننے والی کون سی چیزیں ہیں؟
ٹرنٹی کالج ڈبلن میں ڈیولپمنٹ جیوگرافی پڑھانے والے پروفیسر پیڈریگ کارموڈی کا کہنا ہے کہ برکس ممالک اپنے متعلقہ خطے میں ایک بڑا ملک ہے، تاہم چین ان میں سب سے بڑا حصہ دار ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’برکس کے ذریعے چین خود کو گلوبل ساؤتھ کی ایک سرکردہ آواز کے طور پر ظاہر کر رہا ہے، اور موجودہ بین الاقوامی نظام میں اصلاحات یا اکھاڑ پچھاڑ کا مطالبہ کر رہا ہے۔‘
تاہم ایشیا پیسیفک خطے میں انڈیا چین کا حریف ہے۔
اس کے چین کے ساتھ طویل عرصے سے سرحدی تنازعات ہیں اور وہ خطے میں اپنے اثرورسوخ کی توسیع کو روکنے کے لیے امریکہ اور دیگر کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔
برکس ممالک بھی اس بات پر منقسم ہیں کہ وہ مغربی ممالک کے ساتھ کیا سلوک روا رکھیں۔
لندن میں قائم تھنک ٹینک چیتھم ہاؤس میں گلوبل اکانومی اینڈ فنانس پروگرام کے ڈائریکٹر کریون بٹلر کہتے ہیں کہ ’روس برکس کو مغرب کے خلاف اپنی لڑائی کے ایک حصے کے طور پر دیکھتا ہے، جو یوکرین پر حملہ کرنے کے لیے اس پر عائد پابندیوں پر قابو پانے میں اس کی مدد کرتا ہے۔‘
روسی تیل کی درآمد پر مغربی ممالک کی پابندیوں کے بعد انڈیا اور چین اس کے سب سے بڑے گاہک بن گئے ہیں۔
روس نے فروری 2023 میں چین اور جنوبی افریقہ کے ساتھ مشترکہ بحری مشقیں بھی کی ہیں۔
تاہم برکس کے دیگر ارکان نہیں چاہتے کہ یہ واضح طور پر مغرب مخالف معاہدہ بن جائے۔
کریون بٹلر کے مطابق جنوبی افریقہ، برازیل اور انڈیا منقسم دنیا نہیں چاہتے۔ ان کے مطابق ’مغرب کی مخالفت کرنا ان کی سلامتی اور خوشحالی کے لیے برا ہو گا۔‘
کون سے ممالک برکس میں شمولیت اختیار کرنا چاہتے ہیں؟
برکس اور ایشیا کے لیے جنوبی افریقہ کے سفیر انیل سوکلال نے حال ہی میں کہا کہ 22 ممالک نے باضابطہ طور پر اس گروپ میں شامل ہونے کے لیے کہا ہے اور مزید اتنے ہی ممالک نے اس اتحاد میں شامل ہونے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔
ان میں ایران، ارجنٹینا، کیوبا، قازقستان، ایتھوپیا، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور وینزویلا شامل ہیں۔
پروفیسر کارموڈی کا کہنا ہے کہ ’یہ خیال ہے کہ طاقت کا توازن مغرب سے ہٹ رہا ہے اور زیادہ ترقی پذیر ممالک برکس ممالک کی طرح بڑھتی ہوئی طاقتوں کی طرف دیکھ رہے ہیں لیکن برکس ایک بہت ہی خصوصی گروپ ہے۔
تو کیا نئے اراکین کو تسلیم کرنے سے اس کا اثر کمزور ہو جائے گا؟
کریون بٹلر کا کہنا ہے کہ ’میرا اندازہ ہے کہ چند قوموں کو اس اتحاد کا حصہ بنایا جائے گا مگر وہ ایران جیسی پیچیدہ قوموں کے بجائے ارجنٹینا جیسی قومیں ہوں گی۔‘
برکس سمٹ کے موقع پر کن موضوعات پر بات ہو گی؟
برکس رہنماؤں کا سنہ 2023 کا سربراہی اجلاس 22 سے 24 اگست تک جوہانسبرگ میں ہونے جا رہا ہے۔
گروپ میں کون شامل ہو سکتا ہے اس کے قواعد کا فیصلہ کرنا بحث کا ایک بڑا موضوع ہے۔
اس اجلاس کے ایجنڈے کے دیگر مسائل میں موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنا، ترقی پذیر ممالک میں تجارت، سرمایہ کاری کے مواقع اور جدت کو بڑھانا اور عالمی گورننس کے نظام میں اصلاحات متعارف کرانا شامل ہے تاکہ ترقی پذیر ممالک کو زیادہ اہمیت دی جا سکے۔
جنوبی افریقہ نے افریقہ، لاطینی امریکہ، ایشیا اور کیریبین کے 60 سے زیادہ ممالک کے سربراہان کو اس اجلاس میں مدعو کیا ہے۔
تاہم روس کے صدر ولادیمیر پوتن اس اجلاس میں شریک نہیں ہوں گے۔ بین الاقوامی فوجداری عدالت نے جنگی جرائم کے الزام میں ان کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کر رکھے ہیں۔ وہ ان الزامات کی پہلے ہی تردید بھی کر چکے ہیں۔
جنوبی افریقہ بھی اس عالمی عدالت کے دستخط کنندہ ممالک میں شامل ہے اور اگر روسی صدر جنوبی افریقہ آتے ہیں تو پھر ان کو گرفتار کرنا جنوبی افریقہ پر لازم ہو گا۔
صدر پوتن نے کہا ہے کہ وہ سربراہی اجلاس میں ’ورچوئل‘ یعنی آن لائن شرکت کریں گے جبکہ روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف جنوبی افریقہ جا کر اس اجلاس میں شریک ہوں گے۔
Comments are closed.