برطانیہ: ہر گھر سے پندرہ منٹ کے فاصلے پر سرسبز علاقوں کا منصوبہ، کیا یہ پاکستان میں نہیں ہو سکتا؟
حکومت نے معدوم ہوتی جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے ایسے اہداف جاری کیے ہیں جن پر عمل کرنا قانونی طور پر لازم ہے
برطانیہ میں حکومت کی نئی منصوبہ بندی کے تحت یہ یقینی بنایا جائے گا کہ کسی کی بھی رہائش گاہ کی پانی کے ذخائر اور سرسبز مقامات سے دوری پندرہ منٹ کی پیدل مسافت سے زیادہ نہ ہو۔
جنگلی حیات کے لیے مسکن میں اضافہ کیا جائے گا اور مزید 25 نئے نیشنل ریزرو بنائے جائیں گے یا پرانوں کے رقبے کو مزید بڑھایا جائے گا۔
نادر اور معدوم ہوتی جنگلی حیات، مثلاً ہیج ہوگ یا خار پشت اور لال گلہری، کے تحفظ کے لیے مزید خرچ کیا جائے گا۔ اس منصوبے کا ’بلو پرنٹ‘ واضح کرتا ہے کہ برطانوی وزرا اگلے پانچ برسوں میں کس طرح ہوا اور پانی کو صاف کرنے، قدرتی ذخائر کو فروغ دینے اور کچرے اور فضلے کو کم کرنے جیسے اقدامات کا ارادہ رکھتے ہیں۔
وزیر اعظم رشی سونک کا کہنا ہے کہ صحت، معیشت اور ملک کی خوشحالی کے لیے قدرتی ذرائع کا تحفظ بنیادی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ یہ منصوبہ اِس بات کا خاکہ فراہم کرتا ہے کہ ہم نے اپنے ماحول کو جس صورت میں پایا ہے آنے والی نسلوں کے لیے اس سے بہتر چھوڑ کر جانے کے عزم کو ہم کیسے پورا کریں گے۔ اور یہ بھی کہ ہمیں یہ یقینی بناتے ہوئے آگے بڑھنا ہے کہ ہم نئے عزائم کے ساتھ نہ صرف قدرت کو ہونے والے نقصان کو روکیں بلکہ جو نقصان ہو چکا ہے اسے بھی پلٹ سکیں۔‘
برائٹن میں گرین پارٹی کی رکن پارلیمان کیرولین لوکس نے تشویش کا اظہار کیا کہ عام لوگوں کو قدرت کے نزدیک لانے کی مہم میں کاشتکاروں کو نقصان ہو سکتا ہے۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا ’اس وقت تقریباً تیس لاکھ افراد سرسبز مقامات سے تقریباً دس منٹ کے فاصلے پر رہتے ہیں۔ اور ایسے مزید سبز مقامات تک رسائی کا مطلب ہے کہ ان کے تحفظ کے بارے میں بھی غور کرنا ہوگا ۔ کاشتکاروں کی زمینوں تک رسائی کے لیے حکومت کو کاشتکاروں سے معاملات طے کرنے ہوں گے اور اس کے لیے پیسوں کی بھی ضرورت ہوگی۔‘
برطانیہ کی حکومت نے 2018 میں وعدہ کیا تھا کہ وہ مستقبل کی نسلوں کے لیے بہتر ماحول کو یقینی بنائے گی۔ تاہم جنوری 2023 میں ماحولیاتی تحفظ کے دفتر کا کہنا تھا کہ ماحولیاتی تحفظ کے لیے کیے جانے والے اقدامات ناکافی ثابت ہو رہے ہیں۔
نیولوں کی نسل پائن مارٹن
بریکزٹ کے بعد گرین واچ ڈاگ نے برطانیہ کو متنبہ کیا تھا کہ انہیں ’حیاتیاتی تنوع میں تشویشناک کمی‘ کا سامنا ہے۔ اب حکومت نے یہ طے کر لیا ہے کہ وہ کس طرح قانونی طور پر لازم اہداف کو پورا کرے گی۔ ان میں پانی کے معیار، حیاتیاتی تنوع اور کچرے اور فضلے کے لیے مناسب انتظامات کو یقینی بنانے کے علاوہ دسمبر میں ہونے والے اقوام متحدہ کے حیاتیاتی نتنوع کے سربراہی اجلاس COP15 میں طے کیے جانے والے اہداف بھی شامل ہیں۔
ماحول کو بہتر بنانے کے منصوبے میں یہ عزائم شامل ہیں:
- کم از کم دو ہزار مربہ میل رقبے میں جنگلی حیات کے نئے مسکن بنانا اور پرانوں کو بحال کرنا
- برطانیہ میں ہر کسی کے لیے ان کی رہائش گاہ سے جنگل، پارک، کوئی دیگر سر سبز علاقہ یا دریا سے دوری محض پندرہ منٹ کے پیدل سفر میں طے ہو جائے
- برطانیہ کے دریاوٴں کے چار سو میل رقبے کو بحال کرنا
- نئے اہداف کے تحت 2028 تک پلاسٹک، شیشہ، دھات، کاغز اور کھانے کے فضلے کو کم کرنا
- تمام نئی حکومتی پالیسیوں کے مرکز میں ماحولیاتی تحفظ کو رکھنے کا وعدہ
برطانیہ کی سیکریٹری ماحولیات ٹیریزا کوفی کے مطابق ’قدرت ہماری بقا، ہماری خوراک کی حفاظت، صاف ہوا اور پانی کے علاوہ ہماری صحت اور فلاح و بہبود کے لیے بھی بے حد ضروری ہے۔‘
دنیا کے متعدد ممالک کی طرح پاکستان میں بھی تیزی سے جنگلات کے علاقے ختم ہو رہے ہیں جس کے نتیجے میں ملک کو سیلاب اور خشک سالی جیسی قدرتی آفات کا سامنا ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان میں ہر برس قدرتی جنگلات کے علاقوں میں ستائیس ہزار ہیکٹر کی کمی واقع ہو رہی ہے۔ نتیجتاً پاکستان کا شمار ’گرین ایمرجینسی‘ والے علاقوں میں کیا جا رہا ہے۔
اس صورت حال نے سب سے زیادہ دیہی علاقوں کو متاثر کیا ہے جو اپنی روزمرہ زندگیوں میں نشونما کے لیے جنگلات پر انحصار کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ جنگلات کے تیزی سے ختم ہونے کے سبب سیلاب جیسی قدرتی آفات کا سامنا پاکستان کو بڑھ گیا ہے۔ شکار اور جنگلات کے خاتمے نے یہاں کے حیاتیاتی تنوع کو بھی متاثر کیا ہے۔ ضروری ہے کہ وقت رہتے ایسے اقدامات اور منصوبابندی پر غور کیا جائے جو آنے والی نسلوں کو بہتر مستقبل کی یقین دہانی کرا سکیں۔
یہ بھی پڑھیے:
برطانیہ میں 2030 ماحول کو آنے والی نسلوں کے لیے بہتر بنانے کا منصوبہ
برطانیہ میں جنگلی حیات اور ماحول کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے ادارے وائلڈ لائف کنٹری سائڈ لنک کے سی ای او ریچرڈ بنویل کے مطابق منصوبے میں ہر وزیر کے ذمہ ’ماحولیات تنوع کے لیے ضروری اقدامات کی ایک لسٹ‘ ہونی چاہیے۔
وائلڈ لائف ٹرسٹ کا کہنا ہے کہ حکومت کو ’عزائم سے اقدامات‘ تک کے فاصلے کو اب کم کرنے کی ضرورت ہے۔ وائلڈ لائف ٹرسٹ کے چیف ایگزیکٹیو کریگ بینٹ نے کہا ان منصوبوں میں یہ یقینی بنایا جانا چاہیے کہ ’پوری حکومت مل کر قدرت کو پہنچنے والے نقصان کو روکنے اور ہمارے وجود کو لاحق اس خطرے سے نمٹ کر، ہماری خوش حالی، خوراک پیدا کرنے کی صلاحیت اور صاف پانی کی فراہمی کو یقینی بنائے۔‘
حکومت نے ہیج ہوگ اور لال گلہریوں جیسی معدوم ہوتی جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے 2030 تک کے ایسے اہداف جاری کیے ہیں جن پر عمل کرنا قانونی طور پر لازم ہے۔
تازہ اعداد و شمار کے مطابق 1970 سے 2018 کے درمیان برطانیہ میں کئی اہم پیڑ پودوں کی تعداد اور جانوروں کی آبادی میں 82 فیصد کمی ہوئی ہے۔
برطانیہ کی مقامی جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے اہم سبق پائن مارٹن (ایک قسم کا نیولا) کے تحفظ کے لیے کیے جانے والے اقدامات سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ یہ جنگلی حیات اب برطانہ کے جنوبی علاقوں میں واپسی کر رہی ہے۔ نیولوں کی یہ نسل جنگلات کے خاتمے اور شکار کے سبب معدوم ہونے لگی تھی۔
سکاٹ لینڈ میں نیولے کی یہ نسل اب بھی پائی جاتی ہے اور گزشتہ دہائی میں مٹھی بھر کو ویلز منتقل کیا گیا تھا تاکہ ان کی معدوم ہوتی آبادی کو دوبارہ بڑھایا جا سکے۔ اب ان نیولوں کی آبادی جنوبی برطانیہ کے علاقوں میں واپسی کر رہی ہے۔
ونسینٹ وائلڈ لائف ٹرسٹ کی لزی کروس نے کہا ’پائن مارٹن اس بات کی اچھی مثال ہے کہ اگر لوگ جنگلی حیات کو مارنا بند کر دیں، ان سے ان کی رہائش گاہ نہ چھینیں اور ان کے تحفظ کے اقدامات کیے جائیں تو ان کی ختم ہوتی نسلوں کو واپس بڑھایا جا سکتا ہے۔‘
گلوسٹر شائر وائلڈ لائف ٹرسٹ کے جیمی کنگسکوٹ کے مطابق یہ دکھاتا ہے کہ بڑی اور بہتر انداز میں ایک دوسرے سے جڑی رہائش گاہیں جنگلی حیات کے لیے کتنی اہم ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’ہمیں زمینی سطح پر سوچنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں ہے اور ہمیں اس بارے میں کچھ بڑا سوچنے کی ضرورت ہے۔‘
Comments are closed.