برطانیہ کے نئے وزیرِ صحت پاکستانی نژاد ساجد اقبال کون ہیں؟
برطانیہ کے سیکریٹری برائے صحت میٹ ہین کوک کے استعفی کے بعد برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے پاکستانی نژاد ساجد جاوید کو اس عہدے کے لیے چن لیا ہے۔
جولائی 2019 میں بورس جانسن کے وزیر اعظم بننے کے بعد ساجد جاوید کو وزیر خزانہ بنایا گیا تھا لیکن وہ اس عہدے پر صرف چھ ماہ فائز رہے۔
اس عہدے سے استعفی دینے کے بارے میں خبریں تھیں کہ ساجد جاوید کی وزیر اعظم کے اس وقت کے مشیر اعلی ڈومینک کمنگز سے اختلافات کے باعث انھوں نے استعفی دیا تھا۔
اپریل 2018 میں ُاس وقت کی وزیر اعظم تھیریسا مے کے دور میں بھی اس وقت کی سیکریٹری داخلہ امبر رڈ کے استعفے کے بعد ساجد جاوید کو وہ عہدہ سونپا گیا تھا جس پر وہ بورس جانسن کے وزیر اعظم منتخب ہونے تک فائز رہے۔
پڑھائی، شادی اور نوکری
سیکریٹری داخلہ بننے کے بعد ساجد جایود نے اخبار سنڈے ٹیلی گراف سے بات کرتے ہوئے کہا ’اس کا مجھ پر اثر ہوا ہے۔ میرے والد پاکستان سے برطانیہ آئے تھے اور میں اس تارک وطن کی دوسری نسل ہوں۔‘
ساجد جاوید پہلے سیکریٹری داخلہ تھے جو لسانی اقلیت سے تعلق رکھتے ہیں۔
’میں نے جب امیگریشن کے حوالے سے سنا جس کے باعث امبر رڈ مستعفی ہوئی ہیں تو میں نے سوچا کہ میری والدہ یا میرے والد کے ساتھ بھی ایسا ہو سکتا تھا۔ میرے انکل یا پھر میرے ساتھ بھی۔‘
ساجد جاوید کے والد 17 سال کی عمر میں پاکستان کے چھوٹے سے گاؤں سے برطانیہ آئے تھے۔ انھوں نے پہلے کپاس کی فیکٹری میں کام کیا اور پھر انھوں نے دیکھا کہ بس ڈرائیور کو زیادہ تنخواہ ملتی ہے۔
ان کے والد کا نام ’مسٹر نائٹ اینڈ ڈے‘ پڑ گیا کیونکہ ان کو جب بھی وقت ملتا تھا وہ بس چلاتے تھے۔
ساجد جاوید برسٹل کے سکول میں پڑھے کیونکہ اس وقت تک ان کے والد ایک خواتین کے ملبوسات کی دکان چلاتے تھے۔
ساجد نے 2014 میں ڈیلی میل کو بتایا کہ سکول کافی مشکل تھا اور میں کافی شرارتی تھا اور ’مجھے ہوم ورک کرنے سے گرانج ہل دیکھنا زیادہ پسند تھا‘۔
’لیکن میرے لیے سب کچھ اس وقت تبدیل ہوا جب میرے والد نے کہا کہ مجھے مایوس نہیں کرنا۔ مجھے بڑا برا لگا اور میں پڑھائی کی جانب متوجہ ہو گیا۔‘
ساجد جاوید کے سکول نے او لیول میں ریاضی کی فیس دینے سے انکار کر دیا اور ان کے والد نے فیس دی۔
انھوں نے یونیورسٹی میں معاشیات اور سیاسیات کے مضامین پڑھے۔
ساجد جاوید کی اپنی ہونے والی اہلیہ سے ملاقات کمرشل یونین میں موسم گرمی کی چھٹیوں کے دوران نوکری کے دوران ہوئی۔ وہ ایک دوسرے کے سامنے بیٹھتے تھے اور ایک ہی سٹیپلر استعمال کیا کرتے تھے۔
ان کے چار بچے ہیں اور چاروں نجی سکول گئے۔ ’ہم ان کو بہترین دینا چاہتے ہیں۔‘ ساجد کے بقول وہ مذہبی نہیں ہیں۔
بینکنگ سے سیاست تک
ایک بینکار کے طور پر وہ 25 سال کی عمر میں چیز مینہیٹن بینک کے نائب بن گئے اور پھر ڈوئشے بینک کے چیئرمین بنے اور 2009 میں بینکنگ کو خیر باد کہہ کر انھوں نے سیاست پر توجہ دی۔
ساجد جاوید سنہ 2010 میں رکنِ پارلیمان بنے تھے۔ اس موقعے پر انھوں نے کہا وہ اس کامیابی کو اپنے لیے اعزاز سمجھتے ہیں۔
ساجد جاوید اپنی محنت کے بل بوتے پر لکھ پتی بنے ہیں اور وہ سابق برطانوی وزیراعظم مارگریٹ تھیچر کے پرستار ہیں۔ انھیں کنزرویٹیو پارٹی میں تیزی سے ابھرنے والے ناموں میں شمار کیا جاتا ہے۔
ساجد جاوید کے مطابق ان کے والد لیبر پارٹی کے حامی تھے۔ تاہم 1978 بعد وہ مارگریٹ تھیچر کے مداح ہو گئے۔
اسی طرح کنزرویٹو رہنماؤں کے دور میں ملک کے بدلتے مستقبل سے متاثر ہو کر ساجد جاوید نے بھی 1988 میں پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔
برومزگروو سے ممبر پارلیمان منتخب ہونے والے ساجد نے 2014 میں وزیرِ ثقافت تعینات ہونے پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اس نئے منصب کے ملنے پر کافی پرجوش اور حیران ہیں۔
‘میں اتنی جلدی ملک کی خدمت کے اتنا بڑا موقع ملنے کی توقع نہیں کر رہا تھا۔ تاہم میں اسے ایک بہت بڑا اعزاز سمجھتا ہوں۔’
نئے عہدے میں ان کے فرائض نشریات، کھیل، میڈیا، سیاحت، ٹیلی کام، مساوات اور فن شامل تھا۔
Comments are closed.