برطانیہ کا ’پوسٹ آفس سکینڈل‘ جس میں 736 بے گناہ لوگوں کو سزا سنائی گئی
تصور کریں کہ اچانک یہ پتا چلے کہ آپ کے کاروبار سے ہزاروں ڈالرغائب ہیں۔ باوجود اس کے کہ آپ اس مسئلے کو حل کرنے کی کتنی ہی کوشش کیوں نہ کریں آپ کا پیسہ کسی فنانشل بلیک ہول میں غائب ہوتا رہے گا۔
اور اس کا علم ہونے پر آپ کا آجر آپ کو دو آپشن دیتا ہے یا تو اس غائب ہونے والے پیسے کی ادائیگی کرو یا جیل جاؤ۔
ایسا ہی سیما مشرا کے ساتھ ہوا جنھیں جب چوری اور غلط حساب کتاب کے جرم میں 15 ماہ قید کی سزا سنائی گئی تو وہ عدالت میں گر گئیں۔
وہ حاملہ تھیں، انھیں اپنے پہلے بچے کی 10ویں سالگرہ پر قید کر دیا گیا اور بے گناہ ہونے کے باوجود انھیں الیکٹرانک بیڑیاں پہنے اپنے دوسرے بچے کو جنم دینا پڑا۔
وہ نام نہاد پوسٹ آفس سکینڈل، یونائیٹڈ کنگڈم پوسٹ آفس کے متاثرین میں سے ایک تھیں، جس میں اس بہت بڑی کمپنی، جو انگریزوں کی مشہور اور محبوب تھی، نے سینکڑوں لوگوں کی زندگیوں کو تباہ کر دیا تھا۔
یہ واقعہ الجھن، رازداری اور جھوٹ پر مبنی ایک ڈراؤنا خواب بن گیا۔
ناقص ریکارڈ رکھنے والے 736 برانچ منیجرز پر چوری، دھوکہ دہی اور بغیر کسی غلط کام کے غلط اکاؤنٹنگ کے الزامات لگائے گئے۔ لیکن اصل مسئلہ ایک کمپیوٹر سسٹم تھا جسے ملٹی نیشنل کمپنی فیوجٹسو نے ڈیزائن کیا تھا۔ مگر بہت سے لوگوں کو جیل بھیج دیا گیا۔
سنہ 2005 کے واقعات کی ایک سال تاخیر سے ہونے والی تحقیقات کے بعد آج تک پوسٹ آفس یا فیوجٹسو میں سے کسی ایک شخص کو بھی برطانوی تاریخ میں قانون کی سب سے بڑی قانون شکنی کا ذمہ دار نہیں پایا گیا جس نے بہت سے لوگوں اور خاندانوں کی زندگیاں برباد کر دی تھیں۔
’اسے ہتھکڑی لگاؤ‘
پوسٹ آفس لمیٹڈ (PO) نے پورے ملک میں 12,000 کے قریب اپنے دفاتر بند کر دیے ہیں، جن میں سے اکثر دیہی علاقوں اور چھوٹے شہروں میں ہیں جہاں وہ کمیونٹیز کا لازمی حصہ ہیں، اور جہاں ان کے ملازمین اور کام کو سراہا جاتا ہے۔
خطوط اور پیکجز بھیجنے کے علاوہ، وہ بینکوں کے طور پر کام کرتے ہیں، ہر قسم کی مالی خدمات فراہم کرتے ہیں، پاسپورٹ اور ڈرائیورلائسنس کی تجدید کرتے ہیں، اور پنشن وغیرہ ادا کرتے ہیں۔
سال 1660 سے شروع ہونے والی سروس کی طویل تاریخ کی بدولت کمپنی کا بہت بڑا نام ہے۔
لیکن 14 سال تک، اس نے اپنے ادارہ جاتی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے سینکڑوں لوگوں سے ان کے کھاتوں میں تضادات پر سوالات اور ان کے خلاف قانونی کارروائی کی۔
وہ تضادات جو نئے کمپیوٹر سسٹم کی آمد کے بعد ہی ظاہر ہونا شروع ہوئے تھے۔
نول تھامس نے بی بی سی کے پینوراما پروگرام کو بتایا کہ ’میں 32 سال تک ویلز کے پیراڈویس نامی قصبے میں ایک بہت خوش ڈاکیا تھا، سنہ 1993 میں، میں نے پوسٹ ماسٹر کا کام سنبھالا، صبح نو بجے دفترجاتا، ڈاک ٹکٹ بیچتا، پنشن پہنچاتا اور بہت سے دوسرے کام کرتا تھا۔‘
پھر13 اکتوبر 2005 کی صبح 7:30 بجے پوسٹ آفس کے دو تفتیش کار آئے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میں یہ بات جانتا تھا کہ پیسے غائب ہونے کا ایک مسئلہ تھا۔‘ وہ بتاتے ہیں کہ ’میں اپنے کمرے میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک خاتون اور مرد تفتیش کار اندر آئے اور انھوں نے کہا ’یہ چور ہے، اسے ہتھکڑی لگاؤ۔‘
ڈاک خانوں میں متعارف کروایا گیا نظام ’ہورائزن‘
سنہ 1999-2000 میں، پوسٹ آفس نے ملک کے تمام ڈاک خانوں میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا ایک نظام نافذ کیا جسے ہورائزن کہا جاتا ہے، جسے جاپانی کمپنی فیوجٹسو نے لاگو کیا تھا۔
اگست 2000 کی نیشنل آڈٹ آفس کی رپورٹ کے مطابق، 1990 کی دہائی میں حکومت نے کمپنیوں کو پوسٹ آفس کو کمپیوٹرائز کرنے کے لیے بولی کے لیے مدعو کیا۔ ہورائزن سسٹم کی بولی 11 میں سے سات زمروں میں آخری نمبر پر رہی لیکن یہ سب سے سستا تھا۔
سنہ 2001 اور 2004 کے درمیان فیوجٹسو کے انجینئر رچرڈ رول نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ سب جانتے تھے کہ پروگرام بہت کمزور تھا۔ میں نے وہاں کام شروع کرنے کے چند ہفتے بعد ہی اپنے باس سے کہا: ’اسے ڈیلیٹ کر کے دوبارہ بنانا ہوگا۔‘
ان کا جواب تھا، ’یہ نہیں ہونے والا ہے، کیا آپ کو اندازہ ہے کہ اس میں کتنا وقت لگے گا اور اسے دوبارہ بنانے میں کتنے پیسے لگیں گے؟‘
رچرڈ رول کا کہنا تھا کہ سسٹم میں موجود خرابیاں اکاؤنٹ میں موجود رقم کو متاثر کرنے کے لیے جانی جاتی تھیں اور اس لیے ان سے تضادات پیدا ہونے کا امکان تھا جس کی صارف وضاحت نہیں کر سکتے تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر یہ ان کے ساتھ یہ ایک بار بھی ہوا ہوں، جیسا کہ اس سسٹم نے اگر ایک ہزار پاؤنڈ کی رسید میں بھی غلطی کر دی تو یہ پوسٹ ماسٹر کے لیے ایک بڑا مسئلہ بن جاتا تھا۔ ‘
ویلز میں نول تھامس ایک ایسے ہی پوسٹ ماسٹر تھے جن کو اتنی ہی بڑی پریشانی درپیش تھی، جیسا کہ انگلینڈ میں جو ہیملٹن کو تھی۔
جو نے بی بی سی کو بتایا، ’کمپیوٹر میرے لیے تھوڑا سا جادو کی طرح تھا۔ آپ نے بٹن دبائے اور چیزیں ہو گئیں۔‘
ہورائزن آپ کو یہ بتاتا تھا کہ آپ کی ڈاک خانے کی برانچ میں کتنے پیسے ہونے چاہیں۔‘
نول کہتے ہیں کہ ’ایک دن میں حساب کر رہا تھا، اور برانچ میں موجود رقم پوری تھی، ڈاک ٹکٹ بھی پورے تھے لیکن ہورائزن کے مطابق رقم غائب تھی۔‘
جو کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تھا، وہ کہتی ہیں کہ ’میں گھبرا گئی، اور یہ سوچ کر ہر جگہ کاغذات پھینکنا شروع کر دیے کہ رقم کو یہیں کہیں ہونا چاہیے۔ میں پاگل لگ رہی تھی۔‘‘
سنہ 2009 میں اس سکینڈل کو بے نقاب کرنے والی پہلی صحافی ریبیکا تھامسن نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ ’ان تمام کے معاہدوں میں ایک شق موجود تھی جو انہیں کوئی بھی رقم کے غائب ہونے پر ذمہ دار ٹھہراتی تھی چاہے وہ کیسے ہی غائب ہوئی ہو۔
نول کہتی ہیں کہ ’صرف ایک چیز جو اہم تھی وہ یہ تھی کہ سسٹم کے مطابق رقم وہاں نہیں تھی لہذا انھیں اسے واپس کرنا تھا۔‘
انھوں نے اس واقعے کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ ’میں نے تکنیکی مدد کے لیے ڈاک خانے میں موجود افراد کو فون کیا، لیکن سچ کہوں تو ایسا لگتا تھا کہ وہ ابھی اس سسٹم کو استعمال کرنے کا طریقہ سیکھ رہے تھے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے ابتدائی خسارے کو پورا کرنے، ہورائزن کو مطمئن رکھنے اور پوسٹ آفس کو کھلا رکھنے کے لیے قرض لیا۔‘
جو نے وضاحت کی ’نظام کی یہ خرابی آپ کو اس وقت تک اگلے دن ڈاک خانہ کھولنے نہیں دیتا تھا جب تک آپ گمشدہ رقم غلے میں نہ ڈال دیں۔‘
اس نظام کی خرابی کی وجہ سے جو نے ہزاروں پاؤنڈ جیب سے ادا کیے۔ جب کہ نول کہتے ہیں ’میں اس نہج پر پہنچ گیا تھا جہاں میں مزید قرض نہیں لے سکتا تھا۔‘
جو کہتی ہیں ’وہ میرے گھر آئے اور ایک صوفے پر بیٹھ گیا اور کہنے لگا ’بہت بڑا فرق ہے، پیسے کہاں ہیں؟‘
مجرم قرار دینا
نک والیس جو اس معاملے میں ایک صحافتی تحقیقات کے مصنف ہیں، کہتے ہیں کہ ’ایک بار جب ایک پوسٹ ماسٹر کے پاس اپنے اکاؤنٹ میں اس نقصان کو پورا کرنے اور اس خرابی کو ختم کرنے کے لیے اپنے پیسے ختم ہو گئے، تو وہ ایک سنگین صدمے میں تھا، یہ جانتے ہوئے کہ اگر پی او کو اس کا علم ہو گیا تو اس بات کا بہت قوی امکان ہے کہ وہ اپنا کاروبار یہاں سے ختم کر لے گا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’اس لیے ان میں سے کچھ خوف زدہ لوگ اس امید میں خاموش ہو گئے کہ یہ معاملہ بعد میں خود ہی حل ہو جائے گا۔‘
والیس بتاتے ہیں کہ ’لیکن یقیناً اگر پی او کو پتہ چلتا تو وہ جھوٹی اکاؤنٹنگ کے جرم میں ان کے خلاف قانونی کارروائی کرتا۔‘
جو اس واقعے کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں ’وہ میرے گھر آئے اور ان میں سے ایک صوفے پر بیٹھ گیا اور کہنے لگا ’ یہ بہت بڑا فرق ہے، پیسے کہاں ہیں؟‘
’انھوں نے مجھ سے کہا کہ وہ ضمانت کے تحت میرا انٹرویو کریں گے اور میں وکیل کے دفتر گئی۔ میز کے دوسری جانب سے انھیں بیٹھے دیکھ کر مجھے احساس ہوا کہ یہ کتنا سنجیدہ معاملہ ہے۔‘
’میں نے سوچا اے میرے خدا! میں مجرم کے طور پر یہاں ہوں۔‘‘
تھامسن کا کہنا ہے کہ ’وہ کسی بھی طرح مجرم نہیں ہو سکتے تھے۔ وہ واضح طور پر قابل اعتماد، مہذب اور مہربان لوگ تھے۔‘
جو اور نوئل دونوں کا کہنا ہے کہ جب انھوں نے وضاحت کی کہ انھیں ہورائزن کے ساتھ مسائل کا سامنا ہے، تو انھیں ایک ہی جواب ملا کہ ’آپ واحد شخص ہیں جنھیں پروگرام کے ساتھ مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔‘
جیل کی سزا
اس کے بعد ان لوگوں پر مقدمہ چلا۔ جو کا کہنا تھا کہ ’چوری کا الزام لگنا خوفناک تھا‘
والیس کا کہنا ہے کہ ’وہ ایسی صورت حال میں تھے جہاں وہ ثابت نہیں کر سکے کہ انھوں نے پیسے نہیں چرائے ہیں اور وہ نہیں جانتے تھے کہ کیا کرنا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’اس وقت، پی او نے مجھے اس صورتحال سے بچ نکلنے کا ایک آپشن دیا کہ اگر میں غلط اکاؤنٹنگ کی ذمہ داری قبول کر لوں تو وہ ہم پر چوری کا الزام نہیں لگائیں گے۔‘
نوئل کو ان کے وکیل نے بتایا کہ اگر وہ ہورائزن کا ذکر نہ کریں تو وہ جیل نہیں جائیں گے۔
جو کہتی ہیں ’جیل جانے کے خیال نے مجھے خوفزدہ کر دیا، میں کسی بھی چیز کے لیے ہاں کہنے کو تیار ہو گئی تھی۔ ‘
جو ہیملٹن کو 2007 میں غلط اکاؤنٹنگ کے جرم میں سزا سنائی گئی۔ انھیں 12 ماہ کی کمیونٹی سروس کی سزا سنائی گئی اور 37 ہزار پاؤنڈ جرمانہ ادا کرنے کا حکم دیا گیا۔
اس کے کچھ ہی عرصے بعد انھوں نے ایک مقامی اخبار کے صفحہ اول پر اپنی تصویر دیکھی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’حقیقت یہ تھی کہ انھوں نے مجھے ایک جرم کا مرتکب پایا تھا۔‘
نوئل نے بھی ایسا ہی کیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے یاد ہے کہ جج نے مجھ سے کہا کہ ’میں آپ کو 9 ماہ کی سزا سنا رہا ہوں‘ اور میں اس سے ’سزا معطل‘ ہونے کی توقع کر رہا تھا، لیکن اس جج نے حکم دیا کہ اسے لے جاؤ۔‘
نوئل تھامس کو 2006 میں غلط اکاؤنٹنگ کا مجرم قرار دیا گیا تھا انھیں 9 ماہ قید کی سزا سنائی گئی تھی اور 9000 پاؤنڈ ادا کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ بہت خوفناک تھا، انھوں نے مجھے ایک بہت پرانی جیل میں بند کر دیا، جہاں جا کر میں بھول گیا کہ باہر دن کتنا طویل ہو ا کرتا تھا۔‘
ہر ہفتے ایک نیا مقدمہ
سنہ 2000 سے 2014 کے درمیان نوئل اور جو جیسے مقدمات پورے برطانیہ میں دہرائے گئے۔ ایسے مقدمات کی اوسط ہفتے میں ایک ایسے مقدمے کی تھی۔
پوسٹ آفس کے طاقتور وکلا کی طرف سے پیش کردہ ایک قیاس اور غلط کمپیوٹر پروگرام کے اعداد و شمار کے ثبوت کے باعث ججوں نے بے قصور وں کو قصوروار پایا اور انھیں مہینوں یا سالوں کی قید کی سزا سنائی، اور ساتھ ہی انھیں وہ رقم بھی واپس کرنے کا حکم دیا جو کبھی انھوں نے چوری ہی نہیں کی تھی۔
ان میں سے بہت سوں کو اپنے گھر گروی رکھنے پڑے یا بیچنے پڑے۔ یہ تمام افراد نہ صرف بے روزگار ہو گئے بلکہ ان پر مجرم ہونے کا داغ بھی لگ گیا۔
ان 736 ’مجرموں‘ میں ہزاروں دوسرے ایسے پوسٹ ماسٹرز بھی شامل ہوئے جن کے خلاف قانونی طور پر مقدمہ نہیں چلایا گیا لیکن وہ اپنی برانچوں میں پراسرار طور پر غائب ہونے والی رقم کو پورا کرنے کی کوشش میں ذاتی طور پر بھاری رقوم سے محروم ہوگئے۔
کچھ معاملات میں جن علاقوں میں انھوں نے خدمات انجام دی تھی ان لوگوں نے ان کی مدد کی، یہاں تک کہ پوسٹ آفس کی جانب سے دعوی کیا گیا کہ وہ واجب الادا رقم ادا کے لیے وصولیاں لے رہے ہیں۔
لیکن ان سب کے برسوں تک دل ٹوٹ گئے اور بہت سی زندگیاں مکمل طور پر تباہ ہو گئیں۔
تاہم والس بتاتے ہیں کہ ’یہ کہانی ان عام لوگوں کے ایک گروہ کی ہے جو نظام انصاف کی ایک غیر معمولی غلطی کو درست کرنے کے لیے اکٹھے ہوئے تھے۔
اہم موڑ
سنہ 2009 میں ایلن بیٹس، جنھیں کئی سال پہلے ہورائزن کے ساتھ مسائل کی اطلاع دینے کے بعد نکال دیا گیا تھا، نے مہم گروپ جسٹس فار سب پوسٹ ماسٹرز الائنس تشکیل دیا۔
اگرچہ عدالتی مقدمات میں اضافہ ہوتا رہا کچھ کامیابیاں بھی ہوئیں، لیکن دسمبر 2019 میں اہم موڑ آیا۔ دیوانی مقدمات کے ایک طویل سلسلے کے بعد پی او نے 555 مدعیان کے ساتھ تصفیہ کرنے پر اتفاق کیا۔
انھوں نے قبول کیا کہ اس نے پہلے ’مختلف پوسٹ ماسٹرز کے ساتھ معاملات میں غلطی کی تھی اور 58 ملین پاؤنڈ ہرجانہ ادا کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔‘
دعویداروں کو ایک کروڑ 20 لاکھ پاؤنڈ کا حصہ ملا۔ کچھ دن بعد، ہائی کورٹ کے ایک فیصلے میں کہا گیا کہ ہورائزن سسٹم اپنے استعمال کے پہلے 10 سالوں تک ’مضبوط نہیں‘ تھا اور اس کے بعد بھی اس میں مسائل تھے۔
ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد، مزید کیسز کرمنل کیس ریویو کمیشن (CCRC) کے پاس لائے گئے، جو ایک خود مختار ادارہ ہے جو مبینہ عدالتی غلطیوں کی تحقیقات کرتا ہے۔
افسوس اور وعدے
فروری 2022 میں اس معاملے کی ایک عوامی انکوائری شروع کی گئی تھی تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ آیا پوسٹ آفس کو آئی ٹی سسٹم کی خرابیوں کے بارے میں معلوم تھا اور برانچ کے سربراہان نے اس کا الزام کیسے قبول کیا۔
یہ اس بات کا بھی جائزہ لیا گیا کہ آیا فیوجٹسو کا عملہ جانتا تھا کہ ہورائزن میں خامی تھی جبکہ عدالت میں ڈیٹا کو بے قصوروں کو سزا سنانے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔
پوسٹ آفس نے کہا ہے کہ وہ ہورائزن سکینڈل کے زندگیوں پر پڑنے والے اثرات کے لیے ’دلی طور پر معذرت خواہ‘ ہیں۔
فیوجٹسو نے کہا کہ وہ ’انتہائی مکمل اور شفاف معلومات فراہم کرنے کے لیے پرعزم ہے تاکہ مستقبل کے لیے اہم سبق سیکھا جا سکے۔‘ آج تک، درجنوں سزائیں عدالت میں پلٹی جا چکی ہیں، لیکن بہت سے متاثرین اب بھی معاوضے اور انصاف کے منتظر ہیں۔
تاہم، کچھ کے لیے اب بہت دیر ہو چکی ہے۔
مارٹن گریفتھ، جن پر 60 ہزار پاؤنڈ کی چوری کا غلط الزام ہے، انھوں نے 2013 میں خودکشی کر لی تھی۔
سابق پولیس افسر پیٹر ہومز، جن کی سزا کو گذشتہ سال اپیل کورٹ نے ختم کر دیا گیا تھا، وہ اس دن کو دیکھنے کے لیے زندہ نہیں رہے تھے۔ کیونکہ سنہ 2015 میں ان کی موت برین ٹیومر کی وجہ سے ہوگئی تھی اور وہ بہ گناہ سزا ملنے پر ڈپریشن کا شکار ہو گئے تھے۔
ان کی طرح، تقریباً 60 متاثرین بھیانک کہانی کے انجام تک پہنچنے سے پہلے ہی جان کی بازی ہاری چکے ہیں۔ ایک کہانی جو ہرجندر بوٹوئے کی طرح بہت سے لوگوں کے لیے ’انصاف ہونے تک‘ ختم نہیں ہوگی ۔
بوٹوئے نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ اب بھی جیل کے دروازے کی بازگشت سنتے ہیں جہاں انھوں نے 18 ماہ کی قید کاٹی، اس جرم میں جو انھوں نے کیا ہی نہیں تھا۔
ان کی بیوی جو ان کے ساتھ سٹن ان ایش فیلڈ پوسٹ آفس چلاتی تھی، اور ان کے تین بچوں کو کاروبار بند ہونے کے بعد اپنے والدین کے ساتھ رہنے کے لیے شہر چھوڑنا پڑا۔
انھیں دو لاکھ آٹھ ہزار پاؤنڈ چوری کرنے کے الزام میں تین سال تین ماہ کی سب سے طویل سزا ملی تھی۔
وہ کہتے ہیں کہ ’لیکن مجھے ایسا لگتا ہے کہ مجھے 14 سال قید کی سزا ملی تھی کیونکہ مجھے خود کو بے قصور ثابت کرنا تھا۔‘
سنہ 2022 میں سپریم کورٹ کی طرف سے ان کی سزا کو کالعدم قرار دینے میں اتنا ہی وقت لگا، لیکن انھیں اب بھی ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ ان کی آزمائش ختم ہو گئی ہے۔
’میں ان ایگزیکٹوز کے لیے سزا چاہتا ہوں جنھوں نے اپنی غلطی چھپانے اور جیل جانے سے بچنے کے لیے ہم پر مقدمہ چلایا۔‘
’جیل جانے کی تکلیف‘ کی تلافی کے لیے موصول ہونے والے چند ہزار پاؤنڈ والے خطوط کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’تب ہی ذمہ داروں کو سمجھ آئے گی کہ یہ ’تکالیف‘ کیا تھیں۔‘
Comments are closed.