بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

برطانیہ، امریکہ اور آسٹریلیا کا معاہدہ ایشیا پیسیفک میں طاقت کے توازن کی تبدیلی کا اشارہ؟

آکوس: برطانیہ، امریکہ اور آسٹریلیا کے مابین سکیورٹی معاہدہ ایشیا پسیفک میں طاقت کے توازن کی تبدیلی کا اشارہ؟

  • سورنجانا تیواری
  • بی بی سی نیوز

ایٹمی معاہدہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ایشیا پیسیفِک میں برطانیہ، امریکہ اور آسٹریلیا کے درمیان ایک نئے سکیورٹی معاہدے کے تحت امریکہ اور برطانیہ آسٹریلیا کو جوہری ایندھن سے لیس آبدوزیں بنانے اور تعینات کرنے کی صلاحیت کی ٹیکنالوجی فراہم کریں گے۔ جبکہ فرانس کا کہنا ہے کہ وہ اس نئے سکیورٹی معاہدے کے پیش نظر احتجاجاً امریکہ اور آسٹریلیا سے اپنے سفیر واپس بلا رہا ہے۔

فرانس کے وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ یہ ‘غیر معمولی فیصلہ’ اس معاہدے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کی ‘غیر معمولی نزاکت’ کے پیش نظر جائز ہے۔ اس معاہدے نے فرانس کو ناراض کیا ہے کیونکہ اس معاہدے کے بعد آسٹریلیا کی جانب سے فرانس کے ساتھ کیا گیا آبدوزوں کی خریداری کا اربوں ڈالرز کا معاہدہ کھٹائی میں پڑ گیا ہے۔

جمعے کی شام کو جاری کیے جانے والے ایک بیان میں فرانسیسی وزیر خارجہ نے اس معاہدے کو ‘پیٹھ میں چھرا گونپنے’ کے مترادف قرار دیتے ہوئے کہا کہ سفیروں کو صدر ایمانوئل میخکواں کی درخواست پر واپس بلایا جا رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ معاہدہ اتحادیوں اور شراکت داروں کے درمیان ناقابل قبول رویے کی تشکیل کرتا ہے جس کے نتائج براہ راست ہمارے اتحاد ، ہماری شراکت داری اور یورپ کے لیے انڈو پیسفک کی اہمیت کے نقطہ نظر کو متاثر کرتے ہیں۔

وائٹ ہاؤس کے اہلکار کا کہنا تھا کہ بائیڈن انتظامیہ اس اقدام پر افسوس کرتی ہے اور آنے والے دنوں میں اختلافات کو دور کرنے کے لیے فرانس سے بات کریں گی۔

جبکہ آسٹریلیا کی وزیر خارجہ نے واشنگٹن میں بات کرتے ہوئے کہا کہ فرانس کی ‘مایوسی’ کو سمجھتی ہیں اور امید کرتی ہیں کہ وہ فرانس سے بات کر کے یہ یقینی بنائی گی کہ وہ سمجھے ‘اس دو طرفہ معاہدے کی اہمیت کیا ہے۔’

یاد رہے کہ برطانیہ، امریکہ اور آسٹریلیا نے ایشیا پیسیفِک میں سکیورٹی کے ایک تاریخی معاہدے کا اعلان کیا ہے جس کا مقصد اس خطے میں چین کا مقابلہ کرنا ہے۔ اس معاہدے کو ‘آکوس’ کا نام دیا گیا ہے جو دراصل آسٹریلیا، برطانیہ اور امریکہ کے ناموں کے حروف تہجی (اے، یو کے، یو ایس) پر مشتمل ہے۔

دوسری جانب چین نے خطے میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کے لیے ایشیا پیسیفک تجارتی معاہدے کی رکنیت حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

امریکی حکام کا کہنا ہے کہ اس معاہدے کا مقصد چین کو قابو کرنا نہیں ہے۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ آکوس معاہدہ خطے میں حکمت عملی اور پالیسی میں تبدیلی کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ اس نئے سکیورٹی معاہدے کا وقت بہت اہم ہے۔ یہ معاہدہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب امریکہ کو افغانستان سے نکلے ابھی صرف ایک ماہ ہوا ہے اور اس کے خطے میں کردار کے متعلق متعدد حلقوں میں شبہات پائے جا رہے تھے۔

برطانیہ بھی ایشیا پیسیفک خطے میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے بے چین ہے، خاص کر کے اس کے یورپی یونین سے انخلا کے بعد جبکہ آسٹریلیا کے خطے میں چین کے بڑھتے اثر رسوخ کو لے کر خدشات ہیں۔

آسٹریلیا کی شمالی حکومت کے دفاعی و قومی سلامتی کے سنیئر ڈائڑیکٹر گائے بوئکسٹین نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘ یہ ایک اہم معاہدہ ہے کیونکہ یہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ تینوں ممالک انڈو پیسیفک خطے میں چین کی کمیونسٹ پارٹی کے جارحانہ اقدامات کا مقابلہ کرنے کے لیے اکٹھے اور تیار ہیں۔’

ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘یہ عوامی سطح پر انڈو پیسیفک خطے میں استحکام اور اسے محفوظ بنانے کے ہمارے مشترکہ موقف اور عزم کی نمائندگی بھی کرتا ہے جو گذشتہ ستر برسوں سے چین کی معاشی ترقی سمیت خطے میں خوشحالی کا سبب ہے۔‘

آبدوزیں

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

معاہدے کا مرکزی نکتہ آسٹریلیا کو جوہری صلاحیت سے لیس آبدوزوں کی فراہمی ہے

اس سکیورٹی معاہدے میں کیا ہے؟

اس سکیورٹی معاہدے کے تحت انٹیلیجنس اور کوانٹم ٹیکنالوجی سمیت مختلف شعبوں میں ٹیکنالوجی اور معلومات کے تبادلے کے ساتھ ساتھ کروز میزائل کا حصول بھی شامل ہے۔

لیکن اس معاہدے کی سب سے اہم بات جوہری آبدوزیں ہیں۔ انھیں جنوبی آسٹریلیا کے شہر ایڈلیڈے میں تیار کیا جائے گا اور ان کی تیاری کے لیے امریکہ اور برطانیہ ٹیکنالوجی اور معاونت فراہم کریں گے۔

آسٹریلین سٹریٹیجی پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے دفاعی و قومی سلامتی کے ڈائریکٹر مائیکل شوبرج کا کہنا تھا کہ ‘ایک ایٹمی آبدوز بہت زیادہ دفاعی صلاحیتوں کی حامل ہوتی ہے اور اسی وجہ سے اس خطے میں ان کے نتائج ہوں گے۔ دنیا کے صرف چھ ممالک کے پاس ایٹمی آبدوزیں ہیں۔ وہ ایٹمی ہتھیاروں کے بغیر بھی واقعی ایک طاقتور دفاعی صلاحیت ہیں۔’

ایٹمی آبدوزیں عام آبدوزوں کی نسبت بہت زیادہ خفیہ رہ سکتی ہیں، وہ خاموشی سے کام کرتی ہیں اور وہ آسانی سے حرکت کر سکتی ہیں اور ان کی کھوج لگانا مشکل ہوتا ہے۔

اس معاہدے کے تحت کم از کم آٹھ ایٹمی آبدوزوں کے لیے مدد فراہم کی جائے گی البتہ یہ واضح نہیں ہے کہ انھیں سروس میں کب لایا جائے گا۔ آسٹریلیا کے پاس ایٹمی انفراسٹریکچر نہ ہونے کے باعث اس عمل میں زیادہ وقت لگ سکتا ہے۔

یہ آبدوزیں ایٹمی ہتھیاروں سے لیس نہیں ہو گی بلکہ انھیں صرف جوہری ایندھن سے لیس کیا جائے گا۔

آسٹریلیا کے وزیر اعظم سکاٹ مورسن کا کہنا تھا کہ ‘میں یہ واضح کر دوں کہ آسٹریلیا ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے یا سول جوہری صلاحیت حاصل کرنے کی کوشش نہیں کر رہا ہے۔’

امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ تینوں ممالک کی ٹیموں کے ساتھ ابتدائی مشاورت کی مدت 18 ماہ ہوگی تاکہ یہ فیصلہ کیا جا سکے کہ یہ معادہ کیسے کام کرے گا اور ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے وعدوں کی تعمیل کو یقینی بنائے گا۔

سٹمسن سنٹر میں مشرقی ایشیا پروگرام کی شریک ڈائریکٹر ین سان کے مطابق اس اقدام سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ اور برطانیہ ایک غیر ایٹمی ملک کو ایٹمی صلاحیت دینے کے بڑے فیصلے پر آمادہ ہیں۔ اور یہ ہی بات اس شراکت داری کو منفرد اور خاص بناتی ہے۔

ایک امریکی عہدیدار نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ ‘یہ ٹیکنالوجی انتہائی حساس ہے اور صحیح پوچھیں تو پھر یہ ہر لحاظ سے ہماری پالیسی سے استثنا ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ یہ عام حالات میں آگے بڑھے گا، ہم اسے یکطرفہ معاہدے کے طور پر دیکھتے ہیں۔`

انھوں نے مزید کہا کہ امریکہ نے اس سے قبل صرف ایک مرتبہ سنہ 1958 میں برطانیہ کے ساتھ اس ایٹمی ٹیکنالوجی کو شیئر کیا تھا۔

آبدوزیں

اس پر ایشیا کا کیا ردعمل ہو گا؟

حالیہ برسوں میں چین نے خطے میں بڑھتی طاقت اور اثر و رسوخ کا مظاہرہ کیا ہے۔

مائیکل شوبرج کا کہنا تھا کہ ‘ہم تعاون کی باتیں سنتے ہیں اور پھر ہم تائیوان کے خلاف خطرات اور ہانگ کانگ کے مظاہرے دیکھتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ساؤتھ چائنا سی میں بڑھتی ہوئی عسکری قوت دیکھے ہیں۔ لہذا جب بات سٹریٹجک معاملات کی کریں تو یہ معاہدہ ہمیں چین کے خلاف ایک دفاعی قدم کے طور پر ہی سمجھ آتا ہے۔’

امریکہ اس خطے میں دیگر ممالک کے ساتھ مختلف شراکت داریوں میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کر رہا ہے جن میں جاپان، جنوبی کوریا، تھائی لینڈ، فلپائن، ویتنام اور انڈیا شامل ہیں۔

شو برج کے مطابق چین کی خطے میں بڑھتی طاقت کے پیش نظر یہ معاہدہ ان تمام ممالک کو فائدہ پہنچا سکتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘خطے میں اس سے بہتری آئی گی، یہ جیوپولیٹکل توازن میں تبدیلی کا ایک حصہ ہے جو اس ایک معاہدے کے تحت ہو گی۔ اور یہ وہ سمت ہیں جو چین لے رہا ہے۔ اس معاہدے کا اعلان دنیا کی بڑی جمہوریتوں کو چین کو اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنےسے روکنے میں مدد دے گا۔’

ابھی تک اس پر ردعمل مثبت ہے چاہے اسے خاموشی سے ہی کیوں نہ قبول کیا گیا ہو۔

یہ بھی پڑھیے

جرمن مارشل فنڈ پالیسی تھنک ٹینک میں ایشیا پروگرام کے ڈائریکٹر بونی گلاسر کہتے ہیں ‘ میرے خیال میں انتظامیہ میں بیٹھے افراد، دوستوں اور اتحادیوں سے بات کرنےکے بعد جنھیں انڈو پیسیفک خطے کی امن و سلامتی میں دلچسپی ہے اس معاہدے کے بارے میں کوئی منفی رائے نہیں پائی جاتی۔ اس معاہدے کو خطے میں امریکی موجودگی اور عسکری موجودگی سمیت دفاع کے لیے تعاون حاصل ہیں۔

ایٹمی معاہدہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

اس معاہدےکی چین آسٹریلیا تعلقات کے لیے کیا اہمیت ہے؟

اس معاہدے کے نتیجے میں ایک تعلق جو یقینی طور پر تبدیل ہو گا وہ چین اور آسٹریلیا کا ہے۔

دونوں ممالک میں ماضی میں مضبوط تجارتی تعلقات رہے ہیں اور چین کے طلبا کی ایک بڑی تعداد آسٹریلیا میں جا کر تعلیم حاصل کرتی ہے۔

تاہم آسٹریلیا کی جانب سے کورونا وائرس کے ابتدائی پھیلاؤ کے متعلق عالمی تحقیقات کی حمایت کرنے کے بعد سے اس کے چین کے ساتھ سیاسی تعلقات خراب ہوئے ہیں۔

اس معاہدے سے ظاہر ہوتا ہے کہ آسٹریلیا خود کو امریکہ اور برطانیہ کے ساتھ جوڑ رہا ہے لیکن اس سے یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ آسٹریلیا ایشیائی سکیورٹی میں زیادہ متحرک کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔

مس ین سان کا کہنا ہے کہ ‘صرف اس لیے کہ آسٹریلیا کے پاس ایٹمی آبدوزیں ہیں اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ چین سے زیادہ طاقتور ہے۔ یہ یقیناً خطے میں طاقت کا توازن تبدیل کرے گا۔ اگر چین کو ساؤتھ چائنا سی یا تائیوان سٹریٹ میں سکیورٹی کا مسئلہ ہوتا ہے تو یہ عسکری تیاری یا رد عمل پر اثر ڈالے گا جس کے لیے چین کو تیاری کرنا ہو گی۔ یہ خطے میں طاقت کے توازن کو تبدیل کرے گا۔’

اس معاہدے کے جواب میں واشنگٹن میں چینی سفارتخانے کا کہنا ہے کہ ‘اس معاہدے میں شامل حکومتیں سرد جنگ کے دور کی ذہنیت اور نظریاتی تعصب کو ختم کریں۔’

البتہ چین کی جانب سے اس پر مزید سخت ردعمل بھی آ سکتا ہے۔

علاقائی اور پولیٹکل سٹیڈیز کے ماہر سلیم چونگ کا کہنا ہے کہ ‘چینی کس بات پر سیخ پا ہیں؟ بیجنگ کی جانب سے ایک سخت ردعمل متوقع کیا جا سکتا ہے۔’

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.