برازیل: ’نجات دہندہ‘ رہنما کی شکست اور معاملات میں فوج کی عدم مداخلت سے مایوس مظاہرین کا پارلیمنٹ، سپریم کورٹ پر حملہ
- مصنف, ونیسا بشلٹر
- عہدہ, بی بی سی نیوز
برازیل کے سابق صدر جائیر بولسونارو کے ہزاروں حامیوں نے اتوار کو ملک کے دارالحکومت میں کانگریس، سپریم کورٹ اور صدارتی محل پر دھاوا بول دیا۔
برازیل کے موجودہ صدر لولا ڈی سلوا نے اس واقعے کو ’غیر معمولی‘ قرار گردانتے ہوئے اسے ’جنونی فسطائیوں‘ کی کارروائی قرار دیا اور اعلان کیا ہے کہ اس واقعے میں ملوث افراد کو سزا دی جائے گی۔
اتوار کو صدر لولا ڈی سلوا نے ایمرجنسی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے نیشنل گارڈ کو ملکی دارالحکومت میں امن و امان بحال کرنے کے لیے ذمہ داری سونپی اور کئی گھنٹوں کے ہنگاموں اور جھڑپوں کے بعد صورتحال معمول پر آ سکی۔
صدر لولا نے ملک کی سکیورٹی فورسز کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ کانگریس پر حملے کی وجہ سکیورٹی فورسز کی ’نااہلی یا بدنیتی‘ بھی تھی۔
انھوں نے کہا کہ ’تصاویر میں دیکھا گیا کہ پولیس افسران مظاہرین کو راستہ دکھا رہے ہیں۔‘ برازیل کی ایک خبر رساں ایجنسی کی جانب سے جاری کردہ تصاویر میں چند پولیس افسران کو مظاہرین کے ساتھ قہقے لگاتے اور تصاویر کھنچواتے دیکھا گیا۔
تاہم سابق صدر جائیر بولسونارو، جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ملک سے باہر اور امریکی ریاست فلوریڈا میں موجود ہیں، نے اس حملے کی مذمت کی ہے اور مظاہرین کو اکسانے کے الزامات کی تردید کی ہے۔
واضح رہے کہ جائیر بولسونارو نے حالیہ انتخابات کا نتیجہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا اور ملک سے باہر چلے گئے تھے۔
برازیل کے جھنڈے کے زرد اور سبز رنگ کی ٹی شرٹس پہنے حملہ آوروں نے ملک کی ان عمارتوں کو نقصان بھی پہنچایا جن کو اہم جمہوری علامات مانا جاتا ہے۔ لیکن ایسا کیوں ہوا؟
برازیل کی تاریخ کا متنازع الیکشن
دو ماہ قبل اکتوبر 2022 میں دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے جائیر بولسونارو اور ان کے حریف بائیں بازو کے لولا ڈی سلوا کے درمیان صدارتی انتخابات میں سخت مقابلہ ہوا تھا۔
واضح رہے کہ لولا ڈی سلوا 20 سال پہلے تبدیلی کے وعدے کے ساتھ برازیل میں برسراقتدار آئے تھے اور 2003 سے 2010 تک صدر رہے۔ بعد میں کرپشن کے الزامات میں انھیں سزا ہوئی اور 2018 کے انتخابات کے لیے نااہل قرار دے دیا گیا۔ انھیں جیل جانا پڑا، تاہم بعد میں تمام الزامات منسوخ کر دیے گئے۔
جائیر بولسونارو 2019 میں صدر منتخب ہوئے تھے۔
جائیر بولسونارو
اس بار الیکشن سے قبل کی انتخابی مہم بھی کافی جارحانہ تھی جس کے بعد کانٹے دار مقابلے میں لوُلا 50.9 فیصد ووٹوں سے کامیاب ہوئے۔
انتہا پسندی اور غلط معلومات
جائیر بولسونارو کا بیانیہ جس نے اس تقسیم کی بنیاد رکھی اور برازیل کے الیکشن نظام پر ان کے سوالات نے بھی اس عوامی ردعمل میں کردار ادا کیا۔
الیکشن سے پہلے انھوں نے بارہا دعویٰ کیا کہ برازیل کا الیکٹرانک ووٹنگ نظام فراڈ کا شکار ہو سکتا ہے۔ تاہم الیکشن حکام نے اس دعوے کو مسترد کیا۔ اس کے باوجود بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ الیکشن چوری کیا گیا۔
اس کے علاوہ انھوں نے اپنی تقاریر اور ٹویٹس میں بھی ایسے بیانیے کو فروغ دیا جس نے عوام کو بڑے پیمانے پر تقسیم کیا۔
برازیل میں پیش آنے والے حالیہ واقعات کے بعد جائیر بولسونارو نے صدر لولا ڈی سلوا کے ان الزامات کی تردید کی ہے کہ انھوں نے اپنی تقاریر میں لوگوں کو دارالحکومت میں ہنگامہ آرائی کرنے پر اکسایا۔
ان کا کہنا تھا کہ سرکاری عمارات پر حملہ غیر قانونی ہے۔
گہری تقسیم کا شکار ملک
برازیل ایک ایسا ملک ہے جہاں عوام گہری تقسیم کا شکار ہے اور کانگریس پر ہونے والا حملہ اس بات کا ڈرامائی ثبوت ہے کہ چند لوگ ان جمہوری اداروں پر حملہ کرنے کے لیے کس حد تک جا سکتے ہیں جن کے بارے میں ان کا ماننا ہے کہ وہ اب ان کی ترجمانی نہیں کرتے۔
یہ صرف دائیں بازو اور بائیں بازو کی لڑائی نہیں بلکہ ان لوگوں سے جڑا معاملہ ہے جو ایک جمہوری الیکشن کے نتائج کو اس لیے تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں کیوں کہ نتیجہ ان کی منشا کے مطابق نہیں تھا اور اس کا بدلہ انھوں نے برازیل کی جمہوریت کی علامات پر دھاوا بول کر لیا۔
ہنگاموں میں حصہ لینے والے افراد شاید اس تقسیم کی شدید انتہا پر پہنچ چکے ہیں لیکن ایسے لوگوں کی بھی اکثریت ہے جو صدر لولا کی مخالفت میں جھوٹی معلومات پھیلانے اور نفرت کی اس آگ کو بھڑکانے کے مرتکب ہوئے ہیں جن کی وجہ سے معاملات اس نہج پر پہنچ گئے۔
جائیر بولسونارو کے حامی ان کی شکست قبول کرنے کو تیار نہیں
جائیر بولسونارو کے حامی ان کو ایک ایسا ’نجات دہندہ‘ مانتے ہیں جن کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ ’وہ ان اقدار کی حفاظت کریں گے جو ان کو عزیز ہیں۔‘ ان اقدار میں خدا، ملک اور خاندان شامل ہیں۔
بولسونارو کے حامیوں کو امید تھی کہ وہ لولا ڈی سلوا کو شکست دیں گے جن سے متعلق ان کا ماننا ہے کہ وہ ان اقدار کے لیے خطرہ ہیں۔ اس کی وجہ وہ افواہیں ہیں کہ لولا ڈی سلوا اقتدار سنبھالنے کے بعد چرچ بند کر دیں گے۔
ان ووٹرز کو یقین ہو چکا تھا کہ لولا کو شکست ہو گی اور انھوں نے ان کی جیت کو خاموشی سے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔
ان میں سے کچھ نے فوجی بیرکوں کے باہر خیمے لگا لیے اور فوج سے التجا کی کہ لولا ڈی سلوا کو صدر بننے سے روکا جائے چاہے اس کے لیے فوج کو بغاوت ہی کیوں نہ کرنی پڑے۔
تاہم فوج ان کی توقعات پر پوری نہیں اتری اور لولا ڈی سلوا نے حلف اٹھا لیا۔
صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد لولا ڈی سلوا صدارتی محل منتقل ہوئے تو ان کے مخالفین آگ بگولہ ہو گئے۔ واضح رہے کہ برازیل کے دارالحکومت میں یہ واقعہ صدر لولا کی تقریب حلف برداری کے ایک ہفتہ بعد پیش آیا ہے۔
جائیر بولسونارو نے بھی شکست تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور بطور سابق صدر تقریب حلف برداری میں روایتی کمر بند نئے صدر کے حوالے کرنے کے بجائے ملک چھوڑ کر امریکہ جانے کو ترجیح دی۔
لولا ڈی سلوا
ان واقعات سے مایوس جائیر بولسونارو کے حامیوں نے جب دیکھا کہ فوج بھی ان کی توقعات پر پوری نہیں اتر رہی تو ان کا غصہ اور بڑھ گیا کیوں کہ وہ لولا ڈی سلوا کو ملک کے لیے ’کمیونسٹ خطرہ‘ سمجھتے ہیں۔
انھوں نے فیصلہ کیا کہ اب وہ خود کچھ کریں گے اور اسی لیے انھوں نے ان عمارات پر حملہ کیا جن کے بارے میں وہ سمجھتے ہیں کہ اب وہ ان کی ترجمانی نہیں کر رہیں بلکہ ان کی اقدار کے لیے خطرہ بن چکی ہیں۔
Comments are closed.