بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

باورچی خانے میں کی جانے والی وہ نو عام غلطیاں جو مضر صحت ہو سکتی ہیں

باورچی خانے میں کی جانے والی وہ نو عام غلطیاں جو مضر صحت ہو سکتی ہیں

  • اینڈرے بئرنتھ
  • بی بی سی نیوز، برازیل

Una persona con harina en las manos

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

ماہرین کہتے ہیں کسی بھی قسم کی خوراک کو ہاتھ لگانے سے پہلے ہاتھ ضرور دھوئیں

دنیا بھر میں ہر سال تقریباً 60 کروڑ لوگ کھانے پینے کی اشیاء سے لگنے والی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور لگ بھگ چار لاکھ 20 ہزار افراد ایسے ہی امراض کی وجہ سے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

ان امراض کی سب سے بڑی وجہ وہ بیکٹیریا ہیں جو گلے سڑے کھانوں یا درست طریقے سے محفوظ نہ کی جانے والی خوارک میں پیدا ہو جاتے ہیں۔

یہ بیکٹیریا معدے اور انتڑیوں میں شدید انفیکشن کا سبب بن سکتے ہیں جو کچھ افراد میں شدید قے، دست اور جسم میں پانی کی کمی کی علامات کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔

عالمی ادارۂ صحت کے یہ اعداد و شمار ہمیشہ سے برازیل کی یونیورسٹی آف ساؤ پالو کے فوڈ ریسرچ سینٹر سے منسلک، مائیکرو بائیولوجی کے پروفیسر، یولنٹن پِنٹو کی توجہ کا مرکز رہے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ انھوں نے بیکٹریا سے پیدا ہونے والے امراض پر تحقیق کے لیے ایک ٹیم ترتیب دے رکھی ہے۔

پروفیسر یولنٹن پِنٹو کی ٹیم نے پہلے مرحلے میں سنہ 2019 میں جو جائزہ شائع کیا تھا اس کے مطابق برازیل میں سنہ 2018 اور 2020 کے درمیانی عرصے میں دو لاکھ 47 ہزار افراد غلط خوراک کھانے کی وجہ سے بیمار ہوئے جن میں سے 195 جان کی بازی ہار گئے۔

پروفیسر پِنٹو کہتے ہیں کہ ’ہمارے مشاہدے میں جو چیزیں آئیں ان میں ایک یہ تھی کہ اکثر افراد گھر کے کھانوں سے بیمار ہوئے تھے۔‘

پھر سنہ 2021 کے آخری مہینوں میں پروفیسر پِنٹو اور ان کی ٹیم نے ایک نئی تحقیق کا آغاز کیا جس کا مقصد یہ جاننا تھا کہ ہم گھر پر کھانا پکاتے اور اسے فریج وغیرہ میں محفوظ کرتے ہوئے ایسا کیا غلط کرتے ہیں جس سے ہمارے کھانے میں جراثیم پیدا ہو جاتے ہیں اور ہم بیمار پڑ جاتے ہیں۔

Una persona picando un tomate en una tabla de madera

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

کچے اور پکے ہوئے کھانوں کے لیے ایک ہی برتن کا استعمال نہ کرنا بیکٹیریا سے بچاؤ کا اچھا طریقہ ہے

پروفیسر پِنٹو اور ان کی ٹیم کی تحقیق اور کچھ دیگر ماہرین سے گفتگو کے تناظر میں ہم نے ان غلطیوں کی ایک فہرست مرتب کی ہے جن پر قابو پا کر ہم معدے کے امراض کے امکانات کو بہت حد تک کم کر سکتے ہیں۔

گوشت کو نلکے کے نیچے دھونا

برازیلی ماہرین کے سروے کے مطابق اکثر لوگ گوشت کو دھوتے وقت غلطی کر جاتے ہیں۔

اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ اگر آپ چکن کو نلکے کے نیچے سِنک میں دھوتے ہیں تو چکن پر لگی چکناہٹ کی باریک تہہ بھی اتر جاتی ہے اور گوشت بہت اچھی طرح صاف ہو جاتا ہے۔

لیکن حفظان صحت کے لحاظ سے یہ عادت نقصاندہ ثابت ہو سکتی ہے۔ اس میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ جب نلکے سے نکلنے والا پانی چکن پر گرتا ہے تو اس کے قطرے سِنک کے ارد گرد پھیل سکتے ہیں۔ مثلاً تصور کیجیے کہ سِنک کے قریب ہی کوئی پلیٹیں، دیگچی یا کپڑا پڑا ہو تو گوشت سے اڑنے والے پانی کے چھینٹے ان چیزوں پر گر سکتے ہیں۔ یوں مرغی کے گوشت پر لگے بیکٹیریا صاف ہوئے برتنوں پر لگ سکتے ہیں۔ کچھ دیر بعد آپ بظاہر دھلی ہوئی چمچ سے کھانے کی کوئی چیز اپنے منھ میں ڈال لیتے ہیں تو چمچ پر لگے ہوئے نہ نظر آنے والے بیکٹیریا اور دوسرے جراثیم آپ کے معدے میں جا سکتے ہیں۔

Persona lava un pollo en un fregadero

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

بیکٹیریا سے جا ن چھڑانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ آپ گوشت کو پکا لیں۔

پروفیسر پِنٹو بتاتے ہیں کہ ’مرغی کے گوشت پر بیکٹیریا کی کچھ مقدار موجود ہوتی ہے اور ان بیکٹیریا سے جان چھڑانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ آپ گوشت کو پکائیں۔

اسی لیے ماہرین کہتے ہیں کہ چِکن کو مصالحہ لگانے یا دیگچی (یا اوون) میں ڈالنے سے پہلے دھونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ لیکن اگر گوشت دھوئے بغیر آپ کو تسلی نہیں ہوتی تو اسے بہت احتیاط سے دھوئیں تاکہ پانی کے چھینٹے قریپ پڑے ہوئے دوسرے برتنوں وغیرہ پر نہ گریں۔

گوشت یا انڈوں کا سالن پکاتے وقت ایک اور بات کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے اور وہ یہ کہ درجہ حرارت کم از کم 70 ڈگری سینٹی گریڈ تک ہونا چاہیے۔ اس سے یہ بات یقینی ہو جاتی ہے کہ گوشت اور انڈوں میں پائے جانے والے زیادہ تر بیکٹریا اس درجہ حرارت پر مر جاتے ہیں۔

یہ یقینی بنانے کے لیے گوشت اندر تک پک چکا ہے، کُکنگ تھرما میٹر کا استعمال بھی سود مند ہو سکتا ہے۔

سبزیوں، پھلوں کو صرف نلکے کے نیچے دھونا

مواد پر جائیں

پوڈکاسٹ
ڈرامہ کوئین
ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

اکثر کہا جاتا ہے کہ پھلوں اور کچی کھائی جانے والی سبزیوں (ٹماٹر، کھیرے، سیب وغیرہ) کو محض پانی سے گزارنا ہی کافی ہوتا ہے۔

اگرچہ یوں پھلوں اور سبزیوں کو اوپر سے دھونے سے زیادہ تر جراثیم دھل جاتے ہیں، لیکن اس طرح ان چھوٹے چھوٹے نہ نظر آنے والے جراثیموں یا مائیکرو آرگزم سے چھٹکارا حاصل نہیں کیا جا ستا جو پھلوں اور سبزیوں پر چمٹے ہو سکتے ہیں۔

اس کے لیے ماہرین کا مشورہ یہ ہے کہ آپ کچی سبزیوں اور پھلوں وغیرہ کو 15 منٹ کے لیے سوڈیم ہائیپو کلورائیٹ والے پانی میں بھگوئے رکھیں۔ پھر انھیں نلکے کے نیچے دھوئیں ، اور فریج یا ٹوکری میں رکھنے سے پہلے کپڑے یا ٹِشو سے سُکھا لیں۔

بقول پروفیسر پِنٹو ’ہر ایک لیٹر پانی میں ہائیپوکلورائیٹ کا ایک چمچ ڈالیں۔‘

سوڈیم ہائیپو کلورائیٹ آپ کسی بڑے سٹور یا ادویات کی دکانوں سے خرید سکتے ہیں۔ اگر سوڈیم ہائیپو کلورائیٹ دستیاب نہ ہو تو آپ عام بلیچ بھی استعمال کر سکتے ہیں۔

اس حوالے سے ایک احتیاط ضروری ہے اور وہ یہ کہ ان مصنوعات پر لگے لیبل کو غور سے پڑھیں اور سبزیوں کو جراثیم سے پاک کرنے کے لیے کوئی ایسی چیز استعمال نہ کریں جس میں سوڈیم ہائیپو کلورائیٹ نہ شامل ہو۔ مثلاً بلیچ وغیرہ میں بعض اوقات کلورین جیسے کیمیائی مادے بھی شامل ہو سکتے ہیں جو زہریلے ہو سکتے ہیں۔

یاد رہے کہ سوڈیم ہائیپو کلورائیٹ وغیرہ آپ سبزیوں اور پھلوں کا چھلکا اتارنے کے بعد استعمال نہیں کر سکتے۔ آلو وغیرہ پر لگے ہوئے جراثیم پکانے کے دوران مر جاتے ہیں۔

ہاتھ دھوئے بغیر کھانے کو ہاتھ لگانا

یہ تو بالکل فضول حرکت ہو گی کہ آپ کا کھانا تو جراثیموں سے پاک ہو لیکن آپ کے ہاتھ گندے ہوں۔ اس صورت میں آپ کی انگلیوں اور ناخنوں پر لگے ہوئے جراثیم ’چھلانگ لگا کے‘ آپ کے کھانے میں پہنچ سکتے ہیں۔ اس عمل کو ماہرین کراس کنٹیمینیشن کہتے ہیں۔

اس لیے ضروری ہے کہ کھانے کی کسی ترکیب کو شروع کرنے سے پہلے، یا محض فروٹ کی ٹوکری سے سیب اٹھا کر کھانے سے پہلے صابن سے ہاتھ دھو لیے جائیں۔

اگر سِنک سے دور ہوں تو الکوحل والی جیل استعمال کر لیں۔

یہ بھی پڑھیے

کچے اور پکے کھانوں کے لیے ایک ہی برتن استعمال کرنا

جہاں تک کراس کنٹیمینیشن یا ایک چیز سے دوسری میں جراثیم جانے کی بات ہے، تو اس بات کا خطرہ اس وقت بہت بڑھ جاتا ہے جب ہم کچی اور پکی ہوئی چیزوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں رکھتے۔ مثلاً اگر آپ گوشت کاٹنے کے بعد اسی چھری سے سلاد کاٹنا شروع کر دیں تو گوشت پر لگے جراثیم سلاد میں چلے جائیں گے۔

Personas cortando frutas

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

ماہرین چھلکے والے پھلوں اور سبزیوں کو اچھی طرح دھونے کا مشورہ دیتے ہیں

مائیکروبائیولوجی کی پروفیسر ماریزا لینڈگراف کا کہنا ہے کہ ’یہ چیز بہت اہم ہے کہ آپ کچے گوشت اور سبزیوں کے علاوہ پکے ہوئے کھانوں کو بھی ہاتھ لگانے سے پہلے ہمیشہ ہاتھ اچھی طرح دھو لیں۔‘

فریج میں رکھنے سے پہلے کھانے کو ٹھنڈا کرنا

ہر بیکٹیریا یا مائیکرو آرگنزم کو افزائش کے لیے ایک خاص درجہ حرارت درکار ہوتا ہے۔ مثلاً کچھ بیکٹیریا 25 ڈگری سینٹی گریڈ پر بہت تیزی سے بڑھنے لگتے ہیں جبکہ کچھ دوسری اقسام کے بیکٹیریا کے لیے 30 یا 35 ڈگری سینٹی گریڈ کا درجہ حرارت زیادہ موزوں ہوتا ہے۔

اس بات سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ فریج میں رکھنے سے پہلے کھانے کو ٹھنڈا ہونے کے لیے رکھنا کیوں غلط ہو سکتا ہے۔

اگر بچا ہوا کھانا کافی دیر کے لیے سِنک یا چولہے پر پڑا رہے تو یہ کھانا بیکٹیریا کی آماجگاہ بن سکتا ہے۔

جب آپ چولہا بند کر دیتے ہیں تو دیگچی یا فرائی پین کا درجہ حرارت آہستہ آہستہ گرتا ہے اور پھر اس درجہ حرارت تک پہنج جاتا ہے جہاں بیکٹیریا اور دوسرے جراثیموں کو پھل پھولنے کا موقع ملتا ہے۔ یوں اگر آپ کھانا پکانے کے کچھ ہی دیر بعد اسے فریج میں رکھ دیتے ہیں تو فریج کے کم درجہ حرارت کی وجہ سے بیکٹیریا کی افزائش کا عمل سست ہو جاتا ہے۔

لینگراف کا کہنا تھا کہ کھانے کو فریج میں رکھنے سے پہلے ٹھنڈا کرنے کی عادت کا تعلق ماضی سے ہے جب فریج اتنے اچھے نہیں ہوا کرتے تھے اور گرم کھانے فریج میں رکھنے سے بجلی زیادہ خرچ ہونے کا خدشہ ہوتا تھا۔

لیکن اب ‘فریج اور اس جیسے دیگر برقی آلات میں ترقی کے بعد یہ مسئلہ کم ہو گیا ہے۔‘

فریج میں کھانا ٹھیک جگہ پر نہ رکھنا

فریج کے اوپر والے شیلف یا خانے، دراز، دروازے والے خانے، فریج کے ہر حصے کا درجہ حرارت بہت مختلف ہو سکتا ہے۔

اور یہ وہ چیز ہے جو بیکٹیریا وغیرہ کی افزائش نسل پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔ اس لیے درست طریقہ یہ ہو گا کہ تازہ سبزیاں، پھل اور پکے ہوئے کھانے فریج کے سب سے زیادہ سرد حصے میں رکھے جائیں، جبکہ مشروبات اور وہ چیزیں جو زیادہ دنوں تک خراب نہیں ہوتیں، انھیں اتنے زیادہ کم درجہ حرارت کی ضرورت نہیں ہوتی۔

Una persona corta carne de res sobre una tabla de madera

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

گوشت کاٹنے کے بعد وہی چھری پھل سبزیاں کاٹنے کے لیے استعمال نہ کریں

یہی وجہ ہے کہ فریج بنانے والی کمپنیاں اور ماہرین مشورہ دیتے ہیں کہ ہمیں کھانے پینے کی مختلف اشیاء کو فریج کے مخلتف حصوں میں رکھنا چاہیے۔

  • پہلا یعنی سب سے اوپر والا خانہ: انڈے، دودھ، دودھ سے بنی ہوئی اشیاء
  • دوسرا یعنی درمیان والا خانہ: بچے ہوئے کھانے
  • تیسرا یا سب سے نیچے والا خانہ: فریز کیا ہوا کھانا جو ڈیفراسٹ ہو رہا ہے
  • دراز: سبزیاں اور پھل
  • فریج کا دروازہ: مشروبات، جیلی، جیم، جوس، پانی وغیرہ

کھانے کے استعمال کی مدت کا علم نہ ہونا

اس کے علاوہ ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ کھانے پینے کی اشیاء کو کتنے عرصے کے لیے رکھا جا سکتا ہے۔

مچھلی، گوشت، چکن: تین دن

پاستہ سوس وغیرہ: 20 سے 30 دن

بچا ہوا کھانا: ایک سے دو دن

پھل اور سبزیاں: تین سے سات دن

دودھ: دو سے پانچ دن

بیکری کی مصنوعات: پانچ دن

انڈے: سات دن

ایک بات سمجھنا ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ فریج میں پڑی ہوئی چیزوں کو بیکٹیریا سے مکمل محفوظ نہیں رکھ سکتے۔

مائیکروآرگنزمز خوراک میں ہمیشہ موجود ہوتے ہیں لیکن فریج میں رکھی ہوئی خوراک میں ان کی افزائش نسل اتنی تیزی سے نہیں ہو سکتی جتنی فریج سے باہر پڑے ہوئے کھانوں میں ہوتی ہے۔

فریج میں خوراک محفوظ کرنے کا طریقہ

فریج میں خوراک محفوظ کرنے کے حوالے سے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ گوشت کو بیکٹیریا وغیرہ سے کیسے محفوظ رکھا جائے۔

عموماً گوشت ہم دکانوں یا بڑے سپر سٹوروں سے خریدتے ہیں جہاں اسے پلاسٹک کے لفافوں یا ٹرے میں رکھ کے بیچا جاتا ہے۔ اس گوشت میں اکثر خون اور پانی لگا ہوتا ہے جس میں عموماً بیکٹیریا بھی ہوتے ہیں۔

اگر اس تھیلی میں کوئی چھوٹا سے بھی سوراخ ہو تو گوشت میں موجود پانی یا خون قریب پڑی ہوئی دوسری خوراک میں شامل ہو سکتا ہے۔

اسے روکنے کا بہترین طریقہ یہ ہے بازار سے لائے ہوئے گوشت کو کسی دوسرے برتن یا ڈبے میں نکال لیا جائے۔ گوشت کو فریج میں رکھنے کا ایک اچھا طریقے یہ ہو سکتا ہے کہ اسے پلاسٹک یا شیشے کے ایسے برتن میں رکھا جائے جس پر ڈھکن لگا ہو۔

صاف ظاہر یہ طریقہ آپ اسی وقت اپنا سکتے ہیں جب آپ نے اس گوشت کو دو تین دن میں پکانا ہو۔ اگر آپ اسے دو تین دن میں پکانے کا ارادہ نہیں رکھتے تو پھر گوشت کو فریزر میں رکھیں۔

کھانا فریزر سے نکال کر رکھنا

فریزر وہ جگہ ہے جہاں ہم پکے پکائے کھانے، کچا گوشت، آئس کریم وغیرہ رکھتے ہیں۔ فریزر میں درجہ حرارت اتنا کم ہوتا ہے کہ وہاں بیکٹیریا وغیرہ کا زندہ رہنا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔

لیکن اس خوراک میں مائیکرو آرگنزم پیدا ہونے کا خطرہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ہمیں اسے نرم ہونے کے لیے فریزر سے نکال کر رکھتے ہیں۔

برازیل میں کی جانے والی ایک تحقیق میں دیکھا گیا ہے کہ 39 فیصد لوگ گوشت کے ڈبے یا شاپِنگ بیگ کو فریزر سے نکال کر کمرے (کچن) کے درجہ حرارت پر رکھتے ہیں جبکہ 16 فیصد لوگ اسے کسی برتن میں پانی ڈال کر نرم ہونے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں تاکہ گوشت جلد پکانے کے لیے تیار ہو جائے۔۔

ان دونوں طریقوں میں بیکٹیریا پیدا ہونے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے کیونکہ گوشت اور دوسرے کھانے جوں جوں گرم ہوتے جاتے ہیں ان میں سے پانی خارج ہوتا ہے جو کہ بیکٹیریا کی افزائش کے لیے نہایت سازگار ماحول پیدا کر دیتا ہے۔

Persona refrigerando alimentos

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

کھانے پینے کی مختلف اشیاء کو فریج کے مخلتف حصوں میں رکھنا چاہیے

’اگر گوشت آہستہ آہستہ نرم ہوتا ہے تو یہ پانی کو اپنے اندر جذب کر لیتا ہے اور گوشت کی شکل بھی خراب نہیں ہوتی۔‘

لیکن اگر آپ جلدی میں ہیں تو مائیکرو ویو میں گوشت کو ڈیفراسٹ کرنا زیادہ موزوں ہو گا۔

فریج کو گاہے بگاہے صاف نہ کرنا

اور آخری بات یہ کہ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ فریج کو ہر کچھ عرصے بعد صاف کرنا ضروری ہے۔

فریج کو صاف کرنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ پھلوں، سبزیوں کے چھلکے اور کھانے کے ڈبوں سے گرنے والی خوراک کے ٹکڑوں کو صاف کر دیا جائے تاکہ فریج کے اندر بیکٹیریا نہ پیدا ہو۔

اس کے لیے سب سے پہلے فریج کو بند کر کے پلگ کو نکال لیں اور فریج میں رکھی ہوئی کھانے پینے کی تمام اشیاء کو باہر نکال لیں۔ اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کھانوں پر لگے لیبل دیکھ لیں کہ کون سی چیز کس تاریخ تک استعمال کی جا سکتی ہے۔ جن اشیاء کی معیاد ختم ہو چکی ہے انھیں پھینک دیجیے۔

اس کے بعد فریج کے شیلف، دراز وغیرہ نکال کر واشنگ لیکوئڈ سے اچھی طرح دھو کر خشک ہونے کے لیے رکھ دیجیے۔۔

تیسرے مرحلے میں واشنگ اپ لیکوئڈ والے فوم (سپونج) سے فریج کو اندر سے صاف کیجیے اور صاف کپڑے سے خشک کر لیجیے۔

آخر میں تمام اشیا کو واپس اپنی جگہ رکھ کر فریج آن کر دیجیے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ فریج کم از کم مہینے میں ایک مرتبہ ضرور صاف کرنا چاہیے۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.