بارٹر ٹریڈ کیا ہوتی ہے اور کیا روس، ایران اور افغانستان کے ساتھ بارٹر ٹریڈ پاکستان کے لیے فائدہ مند ہو گی؟
بارٹر ٹریڈ کیا ہوتی ہے اور کیا روس، ایران اور افغانستان کے ساتھ بارٹر ٹریڈ پاکستان کے لیے فائدہ مند ہو گی؟
- مصنف, تنویر ملک
- عہدہ, صحافی
پاکستان نے اپنے ہمسایہ ملکوں ایران اور افغانستان کے علاوہ روس کے ساتھ بارٹر تجارت کی اجازت دے دی ہے ۔ پاکستان کی وزارت تجارت نے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے حکومتی کمپنیوں کے ساتھ نجی شعبے کو بھی تینوں ملکوں کے ساتھ مصنوعات کی درآمد اور برآمد کی اجازت دی ہے۔
پاکستان کی جانب سے تینوں ملکوں کے ساتھ بارٹر تجارت کی پیش رفت ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب پاکستان معاشی مسائل سے دوچار ہے۔
ملک کے بیرونی تجارت کے شعبے میں برآمدات کے مقابلے میں درآمدات کے زیادہ حجم کی وجہ سے پاکستان تجارتی خسارے کا شکار ہے اور یہ تجارتی خسارہ ملک میں ڈالر کی کمی کی وجہ سے ملک کے بیرونی شعبے میں ادائیگیوں میں عدم توازن کی وجہ بن رہا ہے۔
اگرچہ ایران پاکستان کا ہمسایہ ملک ہے تاہم یہ پاکستان سے برآمد کرنے والے 20 بڑے ملکوں میں شامل نہیں ہے۔
20 بڑے ملکوں کی جانب سے پاکستان درآمد کی جانے والی مصنوعات میں ایران کا آخری نمبر ہے جبکہ افغانستان کی پاکستان کو درآمدات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ تاہم جن 20 ممالک کو پاکستان کی برآمدات کا بڑا حصہ جاتا ہے ان میں افغانستان بھی شامل ہے۔
اس فہرست میں روس شامل نہیں ہے اور نہ ہی روس سے پاکستان کی درآمدات کا حجم اتنا زیادہ ہے۔
ماہرین کے مطابق پاکستان کی ایران اور افغانستان کے ساتھ بارٹر تجارت غیر رسمی طریقے سے کافی عرصے سے ہو رہی تھی تاہم اس کا حجم زیادہ نہیں تھا اور اب صرف اسے ایک قانونی شکل دے دی گئی ہے۔
بارٹر ٹریڈ کیا ہے؟
خاکہ
پاکستان نے ایران، افغانستان اور روس کے ساتھ بارٹر ٹریڈ کے نظام کو قانونی شکل دے دی ہے۔ لیکن یہ بارٹر ٹریڈ ہوتی کیا ہے؟
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کے ماہر معاشیات عثمان قادر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’بارٹر ٹریڈ کسی رقم کے استعمال کے بغیر سامان اور خدمات کا براہ راست تبادلہ ہے۔‘
’بارٹر ٹریڈ کا وسیع پیمانے پر روایتی تجارتی تھیوری فریم ورک میں احاطہ نہیں کیا گیا۔ جدید معیشتوں میں یہ نسبتاً نایاب ہے، جہاں مالیاتی لین دین اور خصوصی منڈیاں تجارت کا اہم ذریعہ ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’بارٹر اب بھی بعض حالات میں ہو سکتا ہے، خاص طور پر غیر رسمی یا پسماندہ معیشتوں میں جہاں مالیاتی لین دین محدود ہے۔ بارٹر تجارت خصوصی شعبوں میں یا مخصوص تجارتی انتظامات کے تناظر میں بھی ہو سکتی ہے۔‘
ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان کے چیف ایگزیکٹو زبیر موتی والا نے بی بی سی کو بتایا کہ ’بارٹر ٹریڈ اصل میں مال کے بدلے مال کی تجارت ہے جس میں پیسے کا لین دین نہیں ہوتا۔‘
’مثال کے طور پر اگر آپ چاول دینا چاہتے ہیں تو اگلا آپ کو اس کے بدلے کوئلہ دے گا نا کہ اس چاول کی خریداری کے لیے رقم ادا کرے گا۔‘
انھوں نے کہا پرانے زمانے میں یہی ہوتا تھا۔
اس کا فائدہ کیا ہو گا اور کن اشیا کی بارٹر ٹریڈ ہو گی؟
افغانستان، ایران اور روس کے ساتھ بارٹر ٹریڈ کے نظام کے فوائد پر بات کرتے ہوئے عثمان قادر نے کہا کہ اس سے ملک اور حکومت دونوں کو فائدہ ہو گا کیونکہ پاکستان کے پاس زرمبادلہ کی کمی ہے جس کی درآمدات کے لیے ضرورت ہوتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ مال کے بدلے مال سے زرمبادلہ ذخائر کی بچت ہو گی۔
موتی والا نے اس سلسلے میں بتایا کہ ایک تو زرمبادلہ کی بچت ہو گی تو دوسری جانب ملک کی برآمدات بھی بڑھیں گی اور تجارت کے حجم میں بھی اضافہ ہو گا۔
وزارت خزانہ کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی ایکٹو ٹیکس پیئر لسٹ پر موجود امپورٹرز اور ایکسپورٹرز اس بارٹر ٹریڈ کے اہل ہوں گے ۔
حکومت کی جانب سے امپورٹرز کو افغانستان سے پھل، خشک میوہ جات، سبزیاں، دالیں مرچیں، معدینات، دھاتیں، کوئلہ، خام ربڑ آئٹمز، کھالیں، لوہا اور سٹیل درآمد کرنے کی اجازت ہو گی۔
حکومت نے ایران سے پھل، خشک میوہ جات، مرچ مصالحے، معدینات، دھاتیں، کوئلہ،پٹرولیم خام تیل ، ایل این جی، ایل پی جی، کیمیکل، فرٹیلائزرز، پلاسٹک، ربڑ ، لوہے اور ’سٹیل کے ساتھ کچھ اور اشیا ایران سے درآمد کرنے کی اجازت دی ہے۔
حکومت نے روس سے دالیں، گندم، کوئلہ، پٹرولیم بشمول خام تیل، ایل این جی، ایل پی جی، فرٹیلائزرز، پلاسٹک، ربڑ، معدینات، دھاتیں، ٹیکسٹائل انڈسٹری مشینری، لوہے اور سٹیل کی درآمد کی اجازت دی ہے۔
کیا ماضی میں بھی پاکستان کی حکومت بارٹر ٹریڈ کرتی رہی ہے؟
ایران، افغانستان اور روس کے ساتھ بارٹر ٹریڈ کی تازہ ترین پیش رفت اور ماضی میں ایسی کسی انتظام کے بارے میں بات کرتے ہوئے ماہرِ معیشت زبیر موتی والا نے بتایا کہ ’ایران اور افغانستان کی سرحد پر موجود آبادی کی جانب سے تو ایسا ہوتا آیا ہے کہ وہ محدود پیمانے پر بارٹر ٹریڈ کرتے چلے آئے ہیں تاہم اب حکومت کی جانب سے اسے قانونی شکل دی گئی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’تین سال سے اس پر کام ہو رہا تھا اور اب جا کر اسے حتمی شکل دے کر قانونی شکل دی گئی ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ انھوں نے چیمبرز آف کامرس کے ساتھ پشاور اور گوادر کے دورے کیے تھے اور وہاں اس صورتحال کا جائزہ لیا تھا۔
انھوں نے کہا کہ ’اس سے پہلے سٹیٹ بینک نے چمن اور طورخم سرحد پر کاؤنٹر بھی بنائے تھے تاکہ جو لین دین ہو رہا تھا اس کی مانیٹرنگ کرے تاہم بارٹر ٹریڈ کے بعد اس کی ضرورت باقی نہیں رہتی کیونکہ اس میں روپے یا ڈالر کا لین دین نہیں ہے۔‘
عثمان قادر نے اس سلسلے میں کہا کہ ’بارٹر ٹریڈ کی تازہ ترین کوشش 2022 میں پاکستان ایران دوطرفہ تجارت کے تناظر میں کی گئی تھی، بنیادی طور پر پاکستان سے چاول اور کینو اور ایران سے سیب جیسی زرعی مصنوعات کی تجارت ہو رہی تھی۔‘
اب بارٹر ٹریڈ کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
زبیر موتی والا نے بارٹر ٹریڈ کے نظام پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس پر کام تو کئی برسوں سے ہو رہا تھا لیکن اب جا کر حتمی شکل میں سامنے آیا ہے۔‘
انھوں نے اس کی ضرورت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ملک کو زیادہ تجارت کی ضرورت ہے تاہم جب کوئی چیز درآمد کی جاتی ہے تو اس کے لیے ڈالر کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔‘
’اس وقت پاکستان میں زرمبادلہ ذخائر کی قلت ہے۔ اس لیے ایسی صورتحال میں یہ بہترین انتظام ہے کہ آپ تجارت بھی کر رہے ہوں اور زرمبادلہ بھی خرچ نہ ہو رہا ہو۔‘
عثمان قادر نے اس سلسلے میں کہا کہ ’ایران پر مختلف امریکی اور بین الاقوامی پابندیوں کی وجہ سے برآمدات کے لیے لیٹر آف کریڈٹ (ایل سی) کھولنا بھی ایک بڑی رکاوٹ تھی۔‘
خیال رہے کہ ادائیگی کے قابل اعتبار طریقہ کار کی عدم موجودگی اور 2010 میں امریکہ اور یورپی یونین کی طرف سے لگائی گئی ین الاقوامی پابندیاں پاکستان اور ایران کی باہمی تجارت کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔
ان پابندیوں نے پاکستانی بینکوں کو ایرانی بینکوں کے ساتھ کاروبار کرنے سے روک دیا تھا۔ ایل سیز کھولنا، جو کہ بین الاقوامی تجارتی لین دین کے لیے سب سے قابل اعتبار طریقہ ہے، بھی مشکل تھا۔
موجودہ حالات میں، پاکستان کی حکومت ملک میں زرمبادلہ کے ذخائر کی کمی کو پورا کرنے کے لیے بارٹر معاہدوں پر عمل پیرا ہے۔
پابندیوں کے باوجود یہ بارٹر تجارت کیسے ممکن ہو گی؟
پاکستان نے جن تین ملکوں کے ساتھ بارٹر ٹریڈ کی اجازت دی ہے ان میں روس، افغانستان اور ایران مختلف قسم کی بین الاقوامی پابندیوں کا شکار ہیں۔
افغانستان میں سنہ 2021 میں طالبان کے قبضے کے بعد سے سفارتی پابندیاں لگی ہوئی ہیں تو ایران پر بین الاقوامی اداروں کی جانب سے کئی سالوں سے پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ یوکرین اور روس کے درمیان جنگ کی وجہ سے روس بھی کئی بین الاقوامی پابندیوں کا شکار ہے۔
ان تینوں ملکوں پر بین الاقوامی پابندیوں کے تناظر میں پاکستان کی جانب سے ان کے ساتھ بارٹر ٹریڈ کی اجازت کے بارے میں بات کرتے ہوئے عثمان قادر نے کہا ’موجودہ تناظر میں پابندیاں بنیادی طور پر مالیاتی پہلو پر ہیں، اور بارٹر ٹریڈ پابندیوں کی تلافی کے لیے کی جا رہی ہیں۔ اس سے قبل، حکومت نے بارٹر ٹریڈ کے انعقاد کے لیے ایک فریم ورک کی منظوری دی ہے۔‘
زبیر موتی والا نے کہا کہ ’پابندیوں کا اطلاق بینکنگ چینل اور اس میں کی جانے والی ٹرانزیکشنز پر ہوتا ہے جو بیرونی تجارت کے لیے ایل سی کھولنے اور اس کی ادائیگی کے لیے ہوتی ہے تاہم بارٹر ٹریڈ میں کوئی رقم نہیں ادا کی جا رہی ہے کہ جس میں بینکنگ چینل شامل ہو۔‘
Comments are closed.